میرا جیون


بارش جو کبھی برس جائے ،میں کب تک ان قطروں کی گنتی کروں ،جو میرے وجود سے ٹکرا کر اس مٹی کی آغوش میں گم ہو جاتے ہیں اور میں انہیں ڈھونڈ نہیں پاتا ،آخر یہ میرے کیوں نہیں رہتے ؟ ہوا جو چلتی ہے ،میرے وجود سے ٹکرا کر جو گزرتی ہے ،آخر میری کیوں نہیں رہتی ؟صبح کا ہونا ،شام کا ہونا اور پھر رات کا ہو جانا ،آخر میں ان کو محسوس کیوں نہیں کر پاتا ؟۔خواب جو آنکھوں میں چمکتے ہیں ،پلتے ہیں ،میں ان سے مل کیوں نہیں پاتا،میں اپنے وجود ،اپنی زندگی کی ہر کڑی ملانے کی کوشش میں کیوں بکھر جاتا ہوں ؟۔میں سمجھنا چاہتا ہوں میرا جیون کیا ہے؟ میرے وجود کی تعمیرپر مجھ سے کوئی رائے نہیں لی گئی ،مجھے بنانے سے پہلے پوچھا تو جاتا ؟کب،کہاں ،کیسے اورکیوں ان سوالوں کے جواب تو دئیے جاتے ،مجھے اس دنیا کا ،یہاں کے لوگوں کا بتایا تو جاتا ؟۔میری جہاں تعمیر ہوئی مجھ سے پوچھا نہ گیا،مجھ پر جو پینٹ ہوا اس میں میری مرضی نہیں،میرانام ،میری شناخت ،میرا ملک ،رسم و رواج ،میرا مذہب اور میری بولی کچھ بھی تو نہیں میری مرضی کا ۔اب میرا جیون ہے جو سوال کرتا ہے ،اپنی شناخت ڈھونڈتا ہے یہ جاننا چاہتا ہے میری شناخت کو کوزے میں کیوں بند کر دیا ،مجھے ایک ملک کی حدود میں کیوں محدود کر دیا گیا ۔میرا جیون سمجھنا چاہتا ہے کہ میرے لیے کیا مذہب ضروری ہے ؟جو بولی میں بولتا ہوں وہ کوئی کیوں نہیں سمجھ پاتا ؟ میرا جیو ن ان رسم ورواجوں پر سوال کرتا ہے ،رشتوں کی سودے بازی پر سوال کرتا ہے ، ظلم و زیادتی اور ناانصافی پر سوال کرتا ہے ،اس دوہرے میعار پر سوال کرتا ہے ۔میں اس ہجوم میں اپنے جسم میں قید ،جیون کو لیے پھرتا ہوں ۔نہ منزل ،نہ ٹھکانہ بس ایک نہ ختم ہونے والا سفر ہے اور میرا یہ جیون ہے ۔

میں تلاش میں ہوں ایک ایسا جہان ،جہاں جیون کو ایک نیا نام دوں ،نئی شناخت دوں،جہاں رشتوں میں ملاوٹ نہ ہو جہاں رشتوں کا نام محبت ہو ، رسم و رواجوں کی کوئی قید نہ ہو ،جہاں انسانیت ہی بڑا مذہب ہو،انسانی عظمت ہو،جہاں آدمی انسانیت کی معراج پر ہو،جہاں ظلم وذیادتی نہ ہو،جہاں انصاف کے تقاضے پورے ہوں ۔جہاں غلط بیانی نہ ہو،جہاں صرف سچ ہو۔جہاں میں اپنے جسم کو جیون سے جوڑ پاؤں ،جہاں اپنے اس وجود کو محسوس کر پاؤں ،جہاں خوشی ہو،آنکھیں نم ہوں تو کوئی غم نہ ہو،خواب دیکھوں تو اسے مکمل کر پاؤں،جہاں کی سرحدوں پر باڑ نہ ہو، میں پار کرنا چاہوں تو کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ایک ایسا جہان ،جہاں میں اڑنا چاہوں تو اڑ پاؤں ،ساز جو ہوا کا ہو،سورج کی کرنوں کا ہو ،بارش کے قطروں کا ہو،میرا وجود، ان سازوں پر رقص کرے ،جھوم جائے تو رک نہ پائے ۔گیت جو میں گنگناؤں تو چہرے مسکائیں ،پھول کھلیں اور خوشبو بکھر جائے کہ جیون عطر ہو جائے ۔جہاں منزل ہو سفر نہ ہو ،راستوں پر چلوں تو نہ تھکوں ،ایک ایسا جیون جہاں میرا وجود اہم ہو باقی سب غیر اہم ہو ،جہاں سانس لینا میری مرضی کا ہو۔جہاں امن ہو،جہاں میرا وجود مقدم ہو، مجھے تلاش اس جہان کی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments