مائی ڈئیر ہینڈسم


حضور کا اقبال بلند ہو۔ آپ کی خیریت بھلا کیسے نیک نہ ہو گی۔ کیونکہ جن و انس آپ کو بخیر رکھنے کی ڈیوٹی پہ ہوتے ہیں۔ کاش کبھی کسی جوابی خط میں آپ بھی ہماری خیریت مطلوب کریں۔ گزارش ہے کہ کبھی اگر ایسا کرنے کا خیال آئے، تو خیریت ہی مطلوب کیجئیے گا۔ ہمیں مطلوب افراد کی لسٹ میں مت ڈال دیجئیے گا۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ جنہیں پالنے کی ذمہ داری ابھی کندھوں پہ دھری ہے۔

ذمہ داریوں سے آسانی سے نجات آپ کے دور میں ممکن نہیں رہی حضور والا۔ خدا کی جانب سے اگر کرونا کا عذاب اترا، تو آپ کی جانب سے مہنگائی کے عذاب نے ساتھ ہی جکڑ لیا۔ کاروبار تباہ اور مہنگائی میں اضافہ اب مہینوں یا دنوں کے حساب سے نہیں ہوتا۔ اب تو لگتا ہے گھنٹوں اور منٹوں تک بات آ گئی ہے۔ ایک چیز صبح دم خریدیں تو سو روپے کی ہو گی۔ شام کو ایک سو دس کی ملے گی۔ جس کے پاس سو ہی ہو اوپر کے دس نہ ہوں تو وہ کیا کرے۔ اس کے بارے ریاست خاموش ہے۔

بجلی اور پٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے الگ پریشان کر رکھا ہے۔ یقین مانیں نو دانے چینی کے کم کیا کرنے ہم نے تو میٹھا کھانا ہی چھوڑ دیا۔ تین ٹائم پیٹ بھر کے کھاتے تھے۔ اب دو ٹائم کھاتے ہیں۔ کئی دو ٹائم کھانے والے ایک ٹائم پہ چلے گئے ہیں۔ مگر آپ کو کیا کہیں جناب۔ آپ کا گزارہ تو خود دو لاکھ کی تنخواہ میں نہ ہوتا تھا۔ جب حکمران کا یہ حال ہو تو عوام کیا کرتے ہوں گے۔ کبھی سوچا نہیں ہو گا آپ نے یقیناً۔ ضرورت بھی کیا ہے۔ دماغ پہ اتنا بوجھ وہ بھی اس عمر میں ڈالنے سے کہیں نقصان نہ ہو جائے۔

اب تو کوئی یہ بھی نہیں کہتا کہ سول نافرمانی کی تحریک چلا لو۔ بل جلا دو۔ کتنی خوش گمان باتیں کرتے تھے آپ۔ اوپر حکمران اچھا ہو تو نیچے بھی سب ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ چوروں کی حکومت بھی نہیں اور کرپشن بھی نہیں ہو رہی۔ اربوں روپیہ کرپشن کا اگر بچ رہا ہے تو کہاں جا رہا ہے۔ سوچتی ہوں شاید جنوں کی خوراک زیادہ ہو گی۔ وگرنہ ہم معصوم تو پہلے ہی کم کھاتے ہیں۔

مہنگائی، بے روزگاری اور مایوسی نے نوجوانوں کو مجرم بنا دیا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جس کا شکار کچھ دن پہلے میں بھی ہوئی۔ جو بھی واقعہ سنتا ہے۔ وہ کہتا ہے یہاں انصاف کی توقع مت رکھو۔ کچھ نہیں ہونا۔ کسی نے بھی پولیس کی کارکردگی اور محکمے کی تعریف نہیں کی۔ اکثریت کے بقول اس ملک میں کسی بھی نقصان پہ صبر کر لینا زیادہ بہتر ہے۔ بجائے انصاف مانگنے کے۔ کسی نے پولیس کے محکمے کو بہتر بنانے کی بڑی باتیں کی تھیں۔ کسی دن اپنے ملک کے تھانوں کا بنا اطلاع عام شہری بن کے چکر لگا لیجئیے۔ لگ پتہ جائے گا۔

لاہور کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اسے محاورہ مت سمجھئیے گا جناب۔ سچ میں آنسو نکل آتے ہیں۔ سڑکوں پہ جا بجا کوڑے کے ڈھیر ہیں۔ صفائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مین سڑکوں پہ لائٹس نہیں ہیں تو عام سٹریٹ لائٹس کہاں سے چلیں گی۔ پچھلے مہینے ایک سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اپنی پوری زندگی میں کبھی میں نے کسی ہسپتال کی ایمرجنسی اتنی بری حالت میں نہیں دیکھی۔

ایک ایک بیڈ پہ چار چار مریض پڑے تھے۔ جن میں زیادہ تر مریض کرونا کے تھے۔ کچھ کو تو بیڈ بھی نصیب نہیں تھا۔ ڈاکٹرز کے بیٹھنے کے لیے کرسی تک نہ تھی۔ سٹاف کم اور مریض چار گنا۔ میں تو اپنے مریض کی دوا لکھوا کے بھاگ آئی۔ وہاں سے تو راہ جاتے بیماری لگ جائے وہ حال تھا۔ مگر آپ کو کیسے پتہ چلے گا۔ شاید آپ جن نیوز دیکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر عام انسانوں کی خبریں دیکھیں سنیں تو اندازہ ہو کہ خلقت کس عذاب میں ہے۔

وسیم اکرم پلس یعنی ہمارے پی ایم پنجاب صاحب ساڑھے تین سال سے سیکھ ہی رہے ہیں۔ کیا سیکھ رہے ہیں یہ تو نہیں پتہ۔ مگر لاہور ان کی سیکھ سے جس حالت میں آ چکا ہے۔ اس پہ فاتحہ بنتی ہے۔ آئیے اجتماعی فاتحہ کر لیتے ہیں۔ شہروں سے انتقام کیسے لیتے ہیں اللہ نے اسی جنم میں دکھا دیا۔

مائی ڈئیر ہینڈسم!

بائیس کروڑ عوام میں سے پانچ فیصد اشرافیہ کو نکال دیجئیے۔ اور باقی پچانوے فیصد کی جانب کچھ نظر کیجئیے۔ ان پچانوے فیصد میں ہمارے ملک کے باشعور دماغ بھی آتے ہیں۔ کل ایک وڈیو دیکھی۔ شاکر شجاع آبادی جو کہ وسیب کے شاعر ہیں۔ شدید بیماری کی حالت میں موٹر سائیکل پہ ہسپتال جا رہے تھے۔ ہوش و حواس سے بیگانہ چادر سے اگلے بندے نے انہیں اپنی کمر سے باندھ رکھا تھا مگر وہ کبھی ایک جانب ڈھلک جاتے۔ تو کبھی دوسری جانب۔ اپنے ملک کے شاعروں ادیبوں فنکاروں کو ایسی کسمپرسی میں دیکھ کے تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی ملک کا ایک سافٹ امیج دنیا کو دکھاتے ہیں۔ مگر ملک میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے۔ ویسا تو سوتیلی مائیں بھی نہیں کرتیں۔ جناب عالی کیا آپ کے سٹاف میں کوئی ایسا بندہ نہیں ہے۔ جو کم سے کم آپ کی توجہ اصل جگہ مبذول کروانے کی کوشش کرتا ہو۔ میری مانیں تو ایک توجہ دلاؤ وزارت تشکیل دے لیں۔ یا پھر کوئی توجہ دلاؤ مشیر اپائنٹ کر لیں۔ کم سے کم کچھ تو فائدہ ہو گا۔

سمجھ سے باہر ہے ایک خط میں آپ کو کس کس چیز پہ شاباش دوں۔ مگر صاف بات یہ ہے کہ آپ کو ایک خط لکھنا بھی میرے لیے سوہان روح ہے۔ ہاں آپ کی جگہ اگر محبوب کے نام خط لکھنا ہوتا تو پھر دیکھتے میری سپیڈیں۔ پچھلے دنوں سے ملک بھر میں جاری مذہبی انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے دھرنوں سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔

حضور والا یہ ویسے کوئی اچھی بات نہیں کہ ہمیں انتہاپسندوں کے حوالے کر کے آپ خود شادی کی تقریب میں چلے گئے۔ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے بننے والی سڑکوں پہ ہی ہم سفر نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہی ٹیکس کے پیسوں سے بننے والی سڑکیں اور پل توڑے جا رہے ہیں۔ جناب عالی یہ تو وہی بات ہوئی کہ اگلے کہہ کے لے رہے ہیں۔ اور آپ پلیٹ میں رکھ کے دے رہے ہیں۔ مگر ہمارا کیا قصور ہے اس پہ راوی چپ ہے۔

عوام کا مسئلہ روٹی ہے جناب۔ ان سے روٹی چھین کے آپ ان کو بھوکا شیر بنا رہے ہیں۔ بھوکا شیر کتنا خونخوار ہوتا ہے نیشنل جیو گرافی پہ دیکھ لیجئیے گا۔ ہم تنگ آ چکے ہیں اس شدت پسند بیانئیے سے۔ عوام کو شدت پسند ہجوم بنانے کا کام ہی آپ نے ساڑھے تین سال میں کیا ہے۔ انسان بنانے کا نہیں۔

ملک میں کوئی ایسا محکمہ نہیں بچا جہاں سے عوام کو ریلیف ملے۔ صحت، تعلیم اور انصاف کے ادارے ناکام ہیں۔ سکالر شپس ختم ہیں۔ فیسوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔ طلباء کے لیے ٹھنڈی ہوا لانے والے ہر روشن دان کو بند کر دیا گیا ہے۔ چھوٹے کاروبار تباہ ہیں۔ اکانومی کی حالت دیکھ کر سرمایہ دار کبھی بھی سرمایہ انویسٹ نہیں کرتا۔ ملک میں جاری مذہبی انتہا پسندی نے ہمیں گرے لسٹ سے نہیں نکلنے دیا۔ اس صورت میں باہر سے سرمایہ کیسے آئے گا۔ کبھی سوچتے ہیں آپ؟

دو کروڑ بچہ سکول نہیں جا پا رہا۔ وجہ غربت ہے۔ مہنگائی ہے۔ والدین کے ترازو کے ایک پلڑے میں سکول کی فیس ہے اور ایک میں بچے کے لیے روٹی۔ ظاہر سی بات ہے روٹی ہی جیتے گی۔ روٹی سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ بھوک تمام جرائم کی جڑ ہے۔ پتہ نہیں آپ کو یہ بنیادی باتیں سمجھ کیوں نہیں آتیں۔

آپ کو ہینڈسم کہنے والے کاش آپ کو یہ بھی بتاتے کہ عقل بھی ضروری ہوتی ہے، اور عقل کا استعمال بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر صرف خوبصورتی سے ہی حکمرانی ملتی ہے، تو پھر میں یقین کر لیتی ہوں کہ میری مارکیٹ میں کام کرتے درزی کو بھی کل کو حکمران بنایا جا سکتا ہے۔

حضور والا خدا گواہ ہے کہ مجھے آپ کے رحونیات کے علم سے کوئی مسئلہ نہیں۔ میری طرف سے آپ سیاروں کی چال کے حساب سے چلیں یا کسی کی ستارہ چال پہ فدا ہوں۔ آپ مہورت نکالیں یا استخارے کریں، میری بلا سے۔ میں تو بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ خدارا جس ملک کی سربراہی آپ کو پکڑا دی گئی۔ کم سے کم ایک انسان ہونے کے ناتے اس ملک کی عوام کو بھی انسان سمجھیں۔ ہم گدھے ہیں بوجھ ڈھونے کے عادی ہیں۔ مگر جناب اب ہم تھک گئے ہیں۔ اب ہماری بس ہو گئی ہے۔ اب اگر ہم بولیں گے تو ہماری آوازوں کو شیطانی کارستانی مت سمجھئیے گا۔

وطن عزیز کو جنگل مت بنائیے۔ ہم پہ رحم کیجئیے۔ ہم سے بچوں کے دکھ نہیں دیکھے جاتے۔ مزدور مزدوری کے بنا جب گھر جاتا ہے تو اس کے چہرے پہ چھائی مایوسی اس کے بچوں کو بھی مایوس کر دیتی ہے۔ بچوں کے چہروں کی مایوسی دیکھی نہیں جاتی۔

یہ خط لکھتے لکھتے ایک اور خبر نظر سے گزری۔ جس کے مطابق نکاح فارم میں بھی ختم نبوت کا خانہ شامل کرنے کی بات ہے۔ حضور والا بات اگر اب یہاں تک آ ہی گئی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ حقوق زوجیت ادا کرنے سے پہلے تجدید کی شرط ہی پیچھے رہ جاتی ہے۔ لگے ہاتھ اسے بھی شامل کر لیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ اکثریت مسلمانوں کے دیس میں کس کو کس سے خطرہ ہے۔ اور یہ خطرہ سب سے زیادہ آپ ہی کے دور حکومت میں کیوں بڑھ گیا ہے۔ کہ نصاب میں بھی ریاستی سوچ میں اور عام گلی محلوں تک میں اس لہر کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ووٹوں کی خاطر کچھ بھی کرے گا یہ سٹوری وہی لگتی ہے۔

میں نہیں جانتی کہ یہ خط آپ تک کیسے پہنچانا ہے۔ کیونکہ دربار تک میری رسائی نہیں اور اس خط میں ایسی کوئی خوبصورت بات نہیں جس پہ آپ کی توجہ کروائی جائے۔ ہاں مجھے یہ سو فیصدی یقین ہے کہ اگر میں یہ خط آپ کی تعریف میں لکھتی تو آپ کے ٹائیگرز ہی اسے چوم چوم کے آپ تک پہنچا دیتے۔ لیکن اس خط کے بعد ٹائیگرز اپنے پنجے تیز کر کے ضرور مجھے ڈھونڈتے پھریں گے۔

عاصمہ شیرازی کی کردار کشی پرانی بات نہیں۔

مگر میں یہ دعا ضرور کروں گی کہ یہ خط آپ کے خواب میں آ جائے۔ کوئی دو چار وظیفے اچھے وقتوں میں ناچیز نے بھی یاد کیے تھے۔ دیکھتے ہیں کتنے کار آمد ہوتے ہیں۔

فقط

مہنگائی اور مذہبی شدت پسندی سے ستائی ایک عام عورت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments