شمیم حنفی صاحب کی باتیں


آرتیگا۔ ای۔ گاست نے اپنے مضمون The Barbarism of Specialization میں سائنس دانوں کی ذہنی مشغولیتوں کا دائرہ تنگ ہونے پر بات کی ہے جن کے قدم مخصوص علمی دائرے سے باہر نہیں اٹھتے۔ اس مضمون کا اردو ترجمہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے ”اختصاص کا وحشی پن“ کے عنوان سے کیا ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اس وحشی پن نے سائنس ہی نہیں دوسرے شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے جس میں ادب شامل ہے۔ شمیم حنفی نے مگر علمی و ادبی سفر میں خود کو اختصاص کے وحشی پن سے محفوظ رکھا۔ متنوع علوم کے ارتباط پر ان کا یقین رہا۔ فنون لطیفہ کی مختلف شاخوں سے اعتنا کیا۔ اردو کے وابستگان سے انھیں شکوہ تھا کہ وہ دوسرے علوم و فنون سے علاقہ نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ ہمہ گیر ذہن عنقا ہے جو ادب کو وسیع تناظر میں دیکھ سکے۔ ان کے بقول ”مجھے آٹھوں پہر صرف ادب کا دم بھرنے والوں سے اکتاہٹ بھی ہونے لگتی ہے۔“

اردو کے نقادوں نے فکشن کے بجائے شاعری سے زیادہ سروکار رکھا، اس بنا پر سلیم احمد کو انتظار حسین لنگڑا نقاد کہتے تھے۔ شمیم حنفی کا معاملہ دوسرا ہے، انھوں نے شاعری اور فکشن ہر دو اصناف پر جم کر لکھا۔ کلاسیک اور جدید ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ اردو، فارسی، انگریزی اور ہندی کے ادبی سرچشموں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی علاقائی زبانوں کے ادب سے بھی انھیں دلچسپی رہی۔ عالمگیریت اور صارفیت نے انسانوں اور ان کی بستیوں پر جو قیامت ڈھائی ہے اس کی بابت بھی لکھتے رہے۔

ان کی ادبی بصیرت کا اندازہ اگر ان کی تنقیدی کتابوں سے ہوتا ہے تو شخصیت میں وسعت کی تصدیق ’ہم سفروں کے درمیاں‘ اور ’ہم نفسوں کی بزم میں‘ سے کی جا سکتی ہے۔ شخصی اور علمی اعتبار سے ان کی ذات کا بیان ایک لفظ میں کرنا ہو تو وہ لفظ توازن ہو گا۔

شمیم حنفی تنقید کے لیے بھاری بھرکم اصطلاحات اور ادبی جارگن سے مملو زبان کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ خود وہ ایسی نتھری ستھری نثر میں بات کہنے کا ہنر جانتے تھے جسے پڑھتے ہوئے اکتاہٹ نہیں ہوتی اور قاری اسے دلچسپی سے پڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کی دانست میں ”اچھی تنقید قاری کے حواس پر کبھی بوجھ نہیں بنتی ایک خود کار اور خاموش طریقے سے قاری کے باطن کا نور بن جاتی ہے۔ روشنی، بصیرت اور جمالیاتی انبساط سے معمور تنقید خشک بے روح اصطلاحات کی مدد کے بغیر بھی لکھی جا سکتی ہے۔“

معروف ترقی پسند نقاد احتشام حسین نے انتظار حسین کے نام ایک خط میں لکھا تھا ”اختلاف رکھنا برا نہیں، بشرطیکہ ہم پرخلوص ہوں۔“ یوں لگتا ہے کہ تنقید کے ضمن میں شمیم حنفی نے اپنے استاد کی یہ بات گرہ میں باندھ لی ہو، اس لیے ان کا اختلاف پرخلوص ہوتا، اس میں ذاتی مخاصمت کا رنگ ہے نہ ہی کسی نوع کے کینے کا شائبہ۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی صرف ہم خیالوں کے ساتھ ہی تو بسر نہیں کی جا سکتی، اس بات پر یقین نے انھیں ایک وسیع المشرب، روادار اور انسان دوست شخصیت بنایا۔

2010 سے 2019 کے دوران شمیم حنفی صاحب جب بھی لاہور آئے ان سے بہت طویل نشستیں رہیں۔ ایکسپریس اخبار کے لیے میں نے ان کے جو دو انٹرویوز کیے انھیں یہاں یکجا کر کے پیش کیا جا رہا ہے، ساتھ میں ان کی کچھ وہ گفتگو بھی شامل کردی ہے جو انٹرویوز کا حصہ نہ بن سکی تھی۔ شمیم حنفی صاحب جیسی بڑی ادبی شخصیات کے انٹرویوز میں نے پیشہ ورانہ ذمہ داری کے تحت نہیں ادب کے عام قاری کی حیثیت سے کیے۔ امید ہے آپ کو ان کی یہ گفتگو پسند آئے گی۔

٭ انتظار حسین کا جہان فن

انتظارحسین کا شمار اس عہد کے سب سے اچھے لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جس قسم کا رویہ لکھنے والے کا ہونا چاہیے، اس میں، میں دیکھتا ہوں کہ اس کا سماجی احساس کیا ہے؟ اس لیے کہ ہمارے زمانے میں تشدد بہت بڑھ گیا ہے۔ اور تشدد بھی کئی قسم کا ہے مثلاً جسمانی تشدد ہے، لسانی تشدد ہے، اس پر مستزاد مذہبی اور علاقائی تشدد کا عفریت بھی ہے۔ منٹو میرے بہت پسندیدہ لکھنے والے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میرا یہ خیال رہا ہے کہ منٹو بہت بڑے وژن کے افسانہ نگار نہیں ہیں۔ شاید یہ وجہ ہو کہ اس زمانے میں دنیا آج کے دور کی طرح مسائل سے دوچار نہیں تھی۔ اب دنیا بہت پیچیدہ ہو گئی ہے۔ ہمارے عہد کا کوئی بڑا مسئلہ ایسا نہیں ہے، جو انسان کو درپیش ہو اور انتظار صاحب نے اس پر نہ لکھا ہو۔ مثال کے طور پر صارفیت ہے۔ ایک بے قابو ترقی ہے۔ ہر ترقی اپنی قیمت طلب کرتی ہے۔ شہروں میں اگر بڑے ڈیم بنائے جائیں یا کارخانے لگائے جائیں، یہ چیزیں آپ کو بہت کچھ دیتی ہیں لیکن اپنی قیمت بھی وصول کرتی ہیں۔ تیز رفتاری میں تشدد اور ایک خاص قسم کی Vulgarity بھی ہوتی ہے۔ تہذیبیں تھم تھم کر اور صبح کے اجالے کی طرح آگے بڑھتی ہیں۔ عالم کاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا ایک سطح پر مقصد تشخص کو مٹانا بھی ہے۔ عالم کاری کی باگ ڈور اگر ایک ملک یا قوم کے پاس آجاتی ہے اور وہ پوری دنیا کو مختلف انداز میں آرگنائز کرنے کی بات کرتا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ اپنے ملک کے بارے میں بھی فیصلے کرنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں۔ ہم اپنے ملک میں کتنی صنعتیں لگائیں، کیسی لگائیں، ماحولیات کا مسئلہ کیسے حل کریں۔ ہر مسئلہ حل کرنے کے لیے ہم امریکا کی طرف دیکھتے ہیں۔ یعنی ہماری نکیل امریکا کے ہاتھ میں ہے۔

ماس میڈیا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کتاب کی جگہ کمپیوٹر لے رہا ہے۔ کمپیوٹر کی راحتوں اور آسانیوں سے انکار بھی نہیں۔ انٹرنیٹ کتاب کا بدل نہیں۔ آبادی میں اضافہ مغرب کا مسئلہ نہیں، جہالت ان کا مسئلہ نہیں، غربت ان کا مسئلہ نہیں۔ ہمارے ہاں مسائل اور طرح کے ہیں، آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ یہ تمام مسائل انتظار حسین کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔

انتظار حسین پرفریب لکھتے ہیں۔ بظاہر ان کا اسلوب سادہ لیکن اندر سے پرپیچ، وہ ماضی اور حال کو آپس میں ملا کر ایک نئے مستقبل کے لیے جستجو کرنے والے ادیب ہیں۔ فراق صاحب نے کہا تھا کہ غالب کی تقلید سے اس کا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن مقلد کی شاعری چوپٹ ہو جائے گی، میرے خیال میں ایسا ہی کچھ انتظار حسین کے اسلوب کی تقلید کرنے والے کے ساتھ ہو گا۔

انتظار حسین کا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے عہد میں کم لوگ ایسے ہوں گے جن کی اتنی جہتیں ہوں۔ مجھے ان کے افسانے ان کے ناولوں کے مقابلے میں زیادہ پسند ہیں۔ چھوٹے افسانے انتظار حسین کے عینی آپا سے بڑھ کر ہیں۔ عینی آپا کی طویل کہانیاں مجھے زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ اپنے عہد کی انسانی صورت حال جس میں سیاسی صورت حال بھی شامل ہے اس کے بارے میں انتظار صاحب اپنا ایک نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ اور ان کا رویہ ایک انتہائی لبرل اور انسان دوست فکر رکھنے والے شخص کا ہے اور کسی نظریے وغیرہ کی گرفت میں نہیں آتا۔ ”نیند“ ان کا چھوٹا سا افسانہ ہے جو بنگلا دیش بننے کے بعد لکھا گیا مجھے وہ افسانہ بہت پسند ہے۔ ان کی کہانی ”کشتی“ مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ

 ” ہندوستان سے ایک خط“ اور ”وہ جو دیوار کو نہ چاٹ سکے“ بھی پسند ہیں۔ ”ہمسفر“ مجھے بہت اچھی کہانی لگتی ہے، ایک آدمی جو اپنے آپ کو آؤٹ سائیڈر سمجھتا ہے، سب دنیا سے جا رہے ہیں جیسے ہم سب ایک جہاز پر سوار ہیں بلکہ ایک ایسے جہاز پر سوار ہیں جس کا ہمیں کرایہ بھی نہیں دینا پڑ رہا تو اس میں ایک آدمی خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے جو انتظار حسین ہے۔ یہ میری پسندیدہ کہانی ہے اس کہانی میں کسی قسم کی قدامت پسندی نہ زبان میں ہے نہ پلاٹ میں ہے نہ کردار نگاری میں۔

انتظار صاحب کے ہاں وسعت بہت زیادہ ہے۔ جتنا رجعت پسند انھوں نے خود کو کہا ہے کسی اور نے انھیں نہیں کہا۔ ترقی پسندوں سے بھی ان کی چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی ہے اور وہ چٹکیاں لینے سے باز نہیں آتے۔ میں ان سے کہتا رہتا ہوں کہ آپ بھلے انکار کریں لیکن آپ اپنے زمانے میں سیاسی اعتبار سے انتہائی Conscious لکھنے والوں میں سے ہیں۔

 ”بستی“ کے مقابلے میں ”تذکرہ“ مجھے بہتر ناول لگا اور ”آگے سمندر ہے“ سے ”بستی“ بہتر لگا۔ ان کے ناولوں میں یہ خوبی ہے کہ اپنے معاشرے کو دیکھنے کا ان کا رویہ بہت میچور ہے۔ ہندوستان میں ان کی مقبولیت بلاوجہ نہیں۔ ان کی تخلیقات کا ترجمہ ہوا اور لوگوں تک ان کی چیزیں پہنچیں تو انھوں نے پسند کیا۔ ان کو پسند کرنے والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندی میں ترقی پسند تحریک اس انجام سے دوچار نہیں ہوئی جس انجام سے اردو میں ترقی پسند تحریک کو دوچار ہونا پڑا تھا کیونکہ ہندی والوں میں اس طرح کی انتہا پسندی پیدا نہیں ہوئی۔

٭ ترقی پسند تحریک کے بارے میں خیالات

ہر تحریک کی ایک عمر ہوتی ہے، جیسے انسانوں کی عمر ہوتی ہے، کبھی تو چہرہ شاداب اور کبھی چہرے پر جھریاں پڑیں۔ تحریکوں کے چہرے پر بھی جھریاں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں، ترقی پسند تحریک کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ 1961۔ 62 میں جب میں ایم اے اردو کا طالب علم تھا، اس زمانے میں الہٰ آباد میں مشاعرہ ہوا۔ مشاعرے میں فیض، مخدوم، کیفی اعظمی اور ساحر لدھیانوی بھی شریک تھے۔ یہ سب ترقی پسند تھے۔ میرے دل میں ان کے لیے بہت عزت تھی۔ اس مشاعرے کے لیے ہم نے سائیکل پر کوپن بیچے۔ بعد ازاں ترقی پسندوں کی زندگی میں ایسے تضادات دیکھے، جنھوں نے مجھے بدظن کر دیا۔ مجھے سب کچھ خالی خولی نعرے بازی محسوس ہوئی۔

ادب کے حوالے سے میرا نقطہ نظر ہے کہ جو بھی ایک نسخے کے مطابق کہانی، نظم یا ناول لکھے گا، کبھی نہ کبھی وہ Stale ہو جائے گا۔ ہر کہانی تقاضا کرتی ہے کہ آزمائے ہوئے نسخے کے مطابق اسے نہ لکھا جائے۔ کہیں نہ کہیں سے نئی جہت پیدا ہونی چاہیے۔ پچاس پچپن کے آس پاس ترقی پسند تحریک پر کہولت کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ہر چند کہ اس وقت نئے لوگوں نے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ تقسیم کے بعد کا ادب جب ایک ساتھ پڑھنے کا موقع ملا تو مایوسی ہوئی۔ ”پشاور ایکسپریس“ وغیرہ ایسی کہانیاں پڑھنا شروع کیں تو وہ کہانیاں جن پر ہم وجد کرتے تھے، کمزور لگنے لگیں۔ اس کے مقابلے میں بیدی کی ”لاجونتی“ بڑی کہانی لگتی ہے۔ کوئی مرحلہ ایسا آتا ہے جب جو چیز آپ کو تازہ کار لگتی تھی، وہ باسی لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ حسن وہ ہے جو ہمیشہ تازہ اور نیا دکھائی دے۔ جس شخص کا چہرہ آپ روز دیکھیں اور وہ آپ کو تروتازہ دکھائی دے یہ خوبصورتی ہے، جس روز آپ کو وہ Stale نظر آنا شروع ہوا آپ کی دلچسپی اس میں کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس صورت حال کا اطلاق ادب پر بھی ہوتا ہے۔ ساحر کی نظمیں کسی زمانے میں بہت اچھی لگتی تھیں اور ان کے کرداروں کی جگہ خود کو تصور کرتے تھے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ تو جذباتی شاعری ہے۔ اچھی شاعری پائیدار ہوتی ہے۔ اقبال کی نظم ہمیں کیوں پرانی نہیں لگتی؟ مسجد قرطبہ، ذوق و شوق اور لالہ صحرا آج بھی جادوئی اثر رکھتی ہیں۔

ترقی پسند تحریک کی خوبیاں بھی ہیں۔ یہ ہماری زبان کی پہلی بڑی تحریک تھی۔ نظم جدید کی جو تحریک 1874 ءمیں حالی اور آزاد کے ذریعے شروع ہوئی، اس کا منشور بہت محدود اور بڑی حد تک سیاسی تھا۔ اس منشور کی ایک شق ہے کہ حاکم اور رعایا کے درمیان رشتہ ¿ موانست کو ترقی دینا۔ حالی نے ”حب وطن“ نظم لکھی۔ آزاد نے بھی کہیں کہیں ایسی باتیں کیں لیکن آزاد کے تضادات بہت بڑے ہیں۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ جنوں ایک لازمہ ¿ شعری ہے، خدا ہر ایک کو یہ نعمت نصیب کرے دوسری طرف کہتے ہیں کہ ترقی کی کنجیاں انگریز دانوں کے پاس ہیں۔ ترقی پسند تحریک میں بڑی اپیل تھی۔ جنوبی اور شمالی ہندوستان کی زبانوں کے لکھنے والے ایک محاذ پر جمع ہو جائیں، یہ معمولی بات نہ تھی۔ ہمارے ہاں تو ایسی کوئی روایت نہیں تھی۔ فکشن میں شروع میں تو سب ترقی پسند تھے منٹو بھی ترقی پسند تھا۔ عصمت چغتائی بھی ترقی پسند تھی۔ ترقی پسندوں کے موقف میں زیادہ سختی تھی وگرنہ ترقی پسندی کے عناصر، راشد اور میرا جی کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ میرا جی کے ہاں جو ذہنی کشادگی ملتی ہے، ایک قسم کی جو دیسی توانائی ان کے ہاں ملتی ہے، اس کی تو اردو میں مثال کم ہی ملتی ہے۔

میں جب کسی چیز کا جائزہ لیتا ہوں، میرے ذہن میں ایک سلسلہ سا بن جاتا ہے اور جہاں تک میری بساط ہوتی ہے، اس کو دیکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترقی پسندی تحریک اپنے زمانے کی بڑی تحریک تھی۔ مارکس نے کہا تھا کہ کسی چیز کو مطلق نہ سمجھا جائے لیکن ترقی پسندوں نے چیزوں کو مطلق سمجھنا شروع کر دیا۔ اس تحریک سے یہ بڑی غلطی ہوئی۔ regimentation نقصان دہ ہی ہوتی ہے۔ عسکری صاحب بھی اگر کوشش کرتے جیسا کہ بعد میں ان کا نقطہ نظر بننے لگا تھا، تو وہ بھی نہیں چل سکتا تھا۔

٭قرة العین حیدر میں غیرمعمولی انسانی خوبیاں تھیں

قرة العین حیدر حیران کن خاتون تھیں۔ کسی لمحے میں وہ آپ کو بہت irritating خاتون لگتی تھیں اور یوں محسوس ہوتا کہ ان کے پاس بیٹھنا یا گفتگو کرنا بڑا مشکل ہے۔ کبھی کبھی unpleasant ہو جاتی تھیں اور لوگوں کو جھڑک دیتی تھیں۔ ان میں انسانی خوبیاں بھی بہت غیر معمولی ہیں۔ ہم جب اس کالونی میں گئے جہاں اب میں رہتا ہوں تو عینی آپا اس وقت یہاں کرایے کے مکان میں مقیم ہو گئی تھیں۔ ان کے گھر میں سفیدی ہو رہی تھی، انھوں نے کہا کہ مجھے اس سے الرجی ہے تو اس عرصے میں دو تین دن کے لیے جب تک سفیدی ہو رہی ہے، میں تمہارے ہاں آ جاتی ہوں۔ میرا فلیٹ بہت چھوٹا تھا۔ کوئی آرام دہ ماحول نہ تھا۔ گرمیوں کا زمانہ تھا۔ میرے ہاں اے سی بھی نہیں تھا۔ ایک میرا بیڈ روم اور ایک میرے بچوں کا بیڈ روم تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ بچوں کے بیڈ روم میں اپنا قیام رکھیں۔ ایک رات بجلی چلی گئی۔ میری بیوی اٹھی کہ عینی آپا بہت پریشان ہوں گی اور نہ معلوم ان کو نیند آ رہی ہو گی کہ نہیں۔ انھوں نے عینی آپا کو اس عالم میں دیکھا کہ وہ بستر پر بیٹھی ہیں اور ہاتھ سے جھلنے والی پکھی جس کا ہمارے ہاں بہت رواج ہے، وہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ جھکی ہوئیں میری بیٹی سیمیں کو پنکھا جھل رہی ہیں۔ میرے لیے یہ بڑا revealing لمحہ تھا۔ میں نے سوچا کہ کہیں نہ کہیں بچے سے محبت کا جذبہ ان میں موجود ہے۔ جس شخص نے عام زندگی میں ان کو دیکھا ہے تو بہت مغربیانہ، ان کے رویے اور رہن سہن۔ لیکن ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ میرے ساتھ کئی بار وہ خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار پر گئیں۔ خواجہ حسن ثانی نظامی جو وہاں کے متعلقین میں ہیں۔ انھوں نے مجھے کہا کہ عینی آپا کو کبھی ہمارے ہاں لے آئیے، ہم ان سے کھرنی کا درخت لگوانا چاہتے ہیں۔ میں نے جب عینی آپا سے بات کی تو وہ فوراً آمادہ ہو گئیں۔

وہ لڑکی جو ان کی خدمت کرتی تھی۔ ان کو اس کی بڑی فکر تھی۔ اپنے ڈرائیور سے بہت اچھا سلوک روا رکھتی تھیں۔ اپنی موت سے پہلے انھوں نے ان لوگوں کے لیے بندوبست بھی کیا۔ وہ خود کوئی رئیس خاتون نہیں تھیں۔ خوشحال تھیں اور آرام کی زندگی انھوں نے گزاری۔ رہن سہن کا ایک معیار تھا اس کے مطابق زندگی بسر کی۔ والدین نے جو اثاثہ چھوڑا تھا، وہ بھی ایک وجہ تھی آسودگی کی۔ ملازمہ کے لیے ان کی دل میں ایک خاص طرح کی محبت تھی۔ مثلاً وہ ملازمہ کے لفظ کے بہت خلاف تھیں۔ سرونٹ لفظ کوئی بول دیتا تو کہتیں بڑا گنوار آدمی ہے۔ ان کی بھانجی نے ایک بار نوکرانی کا لفظ استعمال کیا تو انھوں نے ٹوکا اور کہا کہ تم اس کو domestic helper بھی تو کہہ سکتی تھی، یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ یہ بھی ان کا ایک رویہ تھا۔ بعض مفلوک الحال طالب علموں کی وہ مدد کرتیں اور کسی نہ کسی بہانے ان کو پیسے دیتی رہتی تھیں۔ دوسری طرف ان کی طبیعت میں ایک طرح کا بخل بھی تھا بلاوجہ خرچ نہیں کرتی تھیں، احتیاط بہت کرتیں، رائلٹی پر ان کے جھگڑے ہو جاتے تھے۔ دھوکے بھی بہت کھاتی تھیں وہ۔

میں عینی آپا کی زندگی کے ایک پورے دور کا Eye witness بھی رہا ہوں اور ان کو لکھتے ہوئے قریب سے دیکھا ہے۔ 1976 میں میں علی گڑھ چھوڑ کر جامعہ ملیہ آ گیا۔ عینی آپا ہمارے شعبے میں وزیٹنگ پروفیسر بن کر آ گئیں۔ ان سے روز ملاقات ہونے لگی۔ پھر ان سے ذاتی تعلقات بھی استوار ہوئے اور میرے بیوی بچوں سے بھی ان کا ملنا جلنا ہو گیا۔ ہمارے ہاں کوئی ایسی محفل نہ ہوتی جس میں عینی آپا نہ مدعو ہوتیں۔ پاکستان سے جب ادیب آتے تو میں ان کو اپنے ہاں بلاتا یا پاکستانی ادیبوں کو ان کے پاس لے جا کر ملواتا۔ مجھے اس چیز کی خوشی ہے کہ مجھے اردو کی غالباً سب سے بڑی لکھنے والی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

٭کون انتظار حسین؟

عینی آپا کے انتقال سے پہلے والی عید پر انتظار صاحب دلی میں تھے۔ ان کا فون آیا کہ تم ایسا کرو انتظار حسین کو میرے ہاں لے آؤ۔ میں نے انتظار صاحب سے کہا کہ عینی آپا نے آپ کو مدعو کیا ہے۔ یہ انتظار صاحب کے لیے بھی خوشی کی بات تھی۔ میں انھیں لے کر ان کے ہاں گیا۔ اس زمانے میں ان کی بینائی کمزور ہو چکی تھی۔ میں نے دور سے کہا کہ ’عینی آپا، انتظار صاحب آ گئے۔‘  ’کون انتظار حسین؟‘ انھوں نے مجھ سے کہا۔ میں نے کہا ’انتظار حسین، انتظار حسین ایک ہی تو ہیں۔‘ اس پر کہنے لگیں کہ ’اچھا اچھا جن کا آپ نے cult بنا رکھا ہے۔ انتظار حسین دی گریٹ۔ زہے نصیب۔ آئیے آئیے جناب۔‘

انتظار صاحب کے بارے میں خالد حسن کے نام خط میں قرة العین حیدر کی جو بات آپ نے بتائی ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں اور نہ ہی کوئی غیبت ہے۔ وہ یہ بات انتظار صاحب کے سامنے بھی کہہ سکتی تھیں کہ ہجرت کو cult بنا لیا یا ایسی ہی کوئی اور بات بھی۔ یہ عجیب بات ہے کہ عینی آپا اچھے لکھنے والوں کی تعریف کے معاملے میں تھوڑی محتاط تھیں لیکن خراب لکھنے والوں کی بعض مرتبہ بہت تعریف کر جاتی تھیں۔

٭قرة العین حیدر کو Totality میں پسند کیا

قرة العین حیدر کو میں نے Totality میں پسند کیا ہے۔ میرے خیال میں ان کی طویل کہانیاں ان کی بہترین تخلیق ہیں۔ مجھے ان کے وہ مضامین جو آصف فرخی نے ”داستان عہد گل“ اور ”داستاں طراز“ کے نام سے ترتیب دیے ہیں وہ بھی بہت پسند ہیں۔ ان کے ساتھ یہ عجیب و غریب معاملہ تھا کہ وہ تاریخ کے کسی بھی لمحے یا شخصیت یا منظر کو یاد کر رہی ہوں، وہ اسے آپ کے لیے دل چسپ بنا دیتی تھیں کیونکہ انھیں لکھنے کا ہنر آتا تھا۔ علم کو تخلیقی تجربے میں ڈھالنے کی جیسی صلاحیت ان میں تھی، میرا خیال ہے کہ ہمارے ہاں ایسی صلاحیت بہت کم لوگوں میں تھی۔ مجھے ان کی ساری چیزیں پسند ہیں۔ ”آگ کا دریا“ ان کا سب سے بڑا ناول اب بھی ہے۔ ان کی شہرت کا باعث بھی بنا۔ وہ اس کے بار بار ذکر سے چڑ بھی جاتی تھیں۔ میں بارہا ان کے غصے کا بھی شکار ہوا۔ وہ ”آخر شب کے ہمسفر“ کو اپنا سب سے اچھا ناول سمجھتی تھیں۔ ایک صاحب نے اس ناول کے خلاف مضمون لکھا تو عینی آپا آزردہ ہوئیں۔ اس کے جواب میں، میں نے مضمون لکھا۔ اب کچھ عرصہ قبل میں نے ”آگ کا دریا“ پڑھا تو مجھے اتنا مزا نہیں آیا جتنا کہ زمانہ طالب علمی میں پڑھ کر آیا تھا۔ اس وقت وہ پاکستان میں تھیں اور میں نے اسے ہندوستان میں دس روپے میں خریدا تھا۔ ”گردش رنگ چمن“ مجھے بہت پسند ہے اور اس پر میں نے ایک مضمون بھی لکھا۔ اس ناول میں صوفی کردار کے بارے میں ڈاکٹر آفتاب احمد نے بھی ایک مضمون لکھا جو مجھے بھجوایا بھی تھا۔ اتفاق سے اس زمانے میں وہ دہلی تشریف لائے تو عینی آپا سے بھی ملے۔ میں ان دنوں اسی کالونی میں رہتا تھا جہاں عینی آپا مقیم تھیں۔ وہ جب یہاں آتے تو میری بھی ان سے ملاقات ہوتی۔

 ”گردش رنگ چمن“ میں صوفی کا کردار اصل کردار ہے جنھیں عینی آپا بھیا کہا کرتی تھیں۔ وہ ایک عجیب و غریب کردار تھے۔ عینی آپا ان سے بہت fascinated تھیں۔ ایسا کیوں تھا؟ اس حوالے سے کئی ایک کہانیاں ہیں۔ میں نے کبھی عینی آپا پر ذاتی نوعیت کا مضمون لکھا تو ان کے بارے میں بھی لکھوں گا۔ اور عینی آپا پر ان کی شخصیت کا جو اثر تھا، اس سے متعلق بھی لکھوں گا۔

 ”گردش رنگ چمن“ میں کہیں کہیں تو انھوں نے بہت اچھا نقشہ کھینچا ہے اور کمال کیا ہے۔ ”کار جہاں دراز ہے“ کا پہلا حصہ مجھے اچھا لگا۔ جہاں وہ اپنے عہد میں داخل ہوتی ہیں تو وہاں تو ایک قسم کی رپورٹنگ سی ہو گئی ہے لیکن عینی آپا یہی کہتی تھیں کہ اردو والوں نے ابھی نان فکشن ناول کو سمجھا نہیں۔ وہ ان کا فیملی ساگا ہے۔ یہ کتاب مجھے پسند ہے۔ میں نے انگریزی میں بہت سی آپ بیتیاں ایسی پڑھی ہیں جو مجھے ناولوں سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوئیں ایسا ہی معاملہ مجھے ”کار جہاں دراز ہے“ کے سلسلے میں نظر آتا ہے۔

٭ نیر مسعود کا فکشن

نیر مسعود سے طالب علمی کے زمانے کی دوستی تھی۔ وہ مجھے بہت پسند ہیں۔ میرے خیال میں ان کا فکشن جس شوق سے اب پڑھا جا رہا ہے ہمیشہ نہیں پڑھا جائے گا۔ ان کے فکشن میں دل چسپی کے لیے زبان کا ایک خاص سینس چاہیے جو رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے۔ انتظار صاحب کے ہاں ایشوز میں ان کا زمانہ بہت ہے۔ نیر کے ہاں ان کا زمانہ نہیں۔ ہمارے زمانے میں جو انسان کی صورت ہے اس کا ادراک نیر مسعود کے ہاں نہیں ملتا۔ زمانہ کسی بھی ادب کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ نیر کے فکشن میں زمانہ سرے سے غائب ہے، زمانے کے بارے میں ایک دھند ہے۔ اور کوئی بھی ادب جس میں زمانہ غائب ہو، وہ بہت دنوں تک زندہ نہیں رہتا۔ انتظار صاحب کے ہاں ٹائم ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ماضی نہیں حال کے لکھنے والے ہیں۔ انسائٹ بہت ہے۔ نیر مسعود کی ساری طاقت ان کا بیان ہے۔ ان کے افسانوں میں تحیر اور خوف کا عنصر بہت ہے اس لیے جو قاری ان چیزوں کو پسند کرتا ہے، اس کی دلچسپی ان کی تحریروں میں رہے گی۔

٭ بڑے شاعر کو سمجھنے کے لیے روایتی تنقید کافی نہیں ہوتی

اقبال کے ہاں ایک کمٹمنٹ ہے۔ اسلام کے بارے میں حفیظ جالندھری نے بھی لکھا لیکن اقبال نے ان کی طرح سپاٹ نہیں لکھا۔ اقبال کی نظم میں معنی کی کئی سطحیں ہوتی ہیں۔ نظموں کے سیاق کا ہمہ جہتی قسم کا جو تجربہ بنتا ہے وہ انھیں ایک عظیم شاعر بناتا ہے۔ اقبال کے ہاں ایک قسم کی جذباتیت بھی ہے۔ وہ شاعری میں کہیں کہیں بہت زیادہ لاؤڈ ہو جاتے ہیں۔ اقبال کا معاملہ یہ تھا کہ ان کا واسطہ براہ راست اپنے زمانے کی سیاست سے بھی رہا۔ ان کی زندگی میں برصغیر کی تقسیم تو نہیں ہوئی تھی مگر اس کے لیے فضا تو تیار ہو ہی رہی تھی۔ عالم اسلام بھی زوال سے دو چار تھا تو اس بارے میں بھی وہ غور کر رہے تھے۔ ہمارے ہاں کسی اور نے اتنی گہرائی سے اس سطح پر جا کر سوچا ہے؟ اقبال خانقاہی تصوف اور ملا کے خلاف بھی تھے۔ اقبال کی شاعری وہاں نقصان سے دو چار ہوتی ہے جب وہ ایک شاعر کی سطح سے ہٹ کر خطاب شروع کر دیتے ہیں۔ لیڈر سب سے بڑا مقلد ہوتا ہے۔ کیوں کہ آپ جن سے مخاطب ہیں پھر ان کی سطح کے مطابق ہی ان سے گفتگو کریں گے۔ اقبال کے بیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر ہونے میں کلام نہیں۔ ”ضرب کلیم“ کی نظمیں مجھے پسند نہیں۔ اس کے آغاز میں جو یہ کہا گیا ہے کہ عہد حاضر کے خلاف ایک اعلان جنگ، تو مجھے یہ بات پسند نہیں، اس سے یوں لگتا ہے کہ یہ مجموعہ، کتاب الفتاویٰ جیسی کوئی چیز ہو گا۔

اقبال کی شاعری دنیا کی بڑی شاعری ہے۔ ان کی نظمیں ”خضر راہ“ ، ”مسجد قرطبہ“ ، ”ذوق و شوق“ عظیم شاعری کی مثال ہیں۔ فارسی میں ”پیام مشرق“ کی نظمیں مجھے بہت پسند ہیں۔ اردو میں ”بال جبریل“ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں ان کی غزل کا بہت قائل ہوں۔ اقبال نے اپنی غزلوں میں جو زبان استعمال کی ہے، کیا کوئی روایتی غزل گو اس زبان کو غزل کی زبان کے طور پر قبول کرے گا؟

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں

اب یہ کس نے سوچا تھا کہ اس زبان میں غزل بھی کہی جا سکتی ہے، تو یہ اقبال جیسا جینئس ہی کر سکتا تھا۔ بڑے شاعر کو سمجھنے کے لیے روایتی تنقید کافی نہیں ہوتی، وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے سے آپ کو چیلنج کرتے ہیں اور آپ کو ان کے لیے نئے پیرامیٹرز بنانے پڑتے ہیں۔ غالب اور اقبال دونوں روایتی تنقید کی گرفت میں آنے والے شاعر نہیں۔ اقبال کے شارحین نے تفہیم اقبال کے لیے زیادہ بہتر کردار ادا نہیں کیا۔ ان کے سمجھنے کا بڑا سہل پسندانہ انداز رہا ہے۔ اقبال پر اچھے مضامین اور کتابوں کی تعداد بہت کم ہے۔

٭ میر انیس نے زبان کی نبض کو پہچانا

میر انیس نے مرثیے جیسی محدود صنف، جس میں واقعات کربلا کو ہی بیان کرنا ہوتا ہے، بہت اعلیٰ درجے کی شاعری کی ہے۔ مرثیے کی محدودات کے باوجود اس صنف کو بام عروج تک پہنچایا۔ مرثیہ کہنے میں تو غالب کو بھی پسینے آ گئے تھے۔ میر انیس نے زبان کی نبض کو پہچانا۔ جذبات نگاری، واقعہ نگاری، کردار نگاری، منظر نگاری، کسی میدان میں بھی وہ پیچھے نہیں ہیں۔ میر انیس اور مرثیے کو قائم کرنے میں شبلی کا بھی بہت اہم کردار ہے۔

٭راشد اور فیض کی شاعری

راشد کی شاعری میں اپنے معاصرین کے مقابلے میں، زندہ رہنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ فیض صاحب کے ہاں شعر کا لطف بہت زیادہ ہے۔ ان کی شاعری جذبات کو متاثر کرتی ہے، لیکن ذہن کو اس طرح سے متاثر نہیں کرتی۔ یہ شاعری ایک نہایت شریف، روادار، تعصب اور تنگ نظری سے مبرا سوچ کے حامل شخص کی شاعری ہے، جس سے دل میں ان کی بہت قدر پیدا ہوتی ہے، لیکن فیض کے ہاں فکری طور پر وہ گہرائی نہیں، جو راشد کے ہاں ہے۔ راشد نے لکھا ہے کہ اتنا زیادہ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود فیض کے مطالعہ یا فکر کا بہت کم حصہ، ان کی شاعری میں آ سکا ہے۔ راشد کی شاعری میں مغز زیادہ ہے۔ لیکن شاعری میں جو میجک ہوتا ہے وہ فیض کے پاس ہے۔

راشد کی شاعری میں فارسی زدگی کی ڈاکٹر آفتاب احمد کی بات درست ہے، یہ بات کسی اور نے بھی لکھی ہے۔ میرے خیال میں گزرتے وقت کے ساتھ راشد کے سمجھنے والے کم ہوتے جائیں گے لیکن اعلیٰ ادب تو ہمیشہ کم لوگ ہی پڑھیں گے۔ کیا شیکسپیئر کی اہمیت کم پڑھے جانے سے کم ہو جائے گی؟ فیض کی غزلوں میں کچھ شعر اچھے لگتے ہیں، لیکن ان کی غزلوں کے بارے میں میری بہت مبالغہ آمیز رائے ہر گز نہیں۔ فیض کی غزلوں کو مقبول بنانے میں موسیقاروں اور مغنیوں کا بہت حصہ رہا ہے۔ میرے خیال میں ان کی صلاحیتوں کا بہترین اظہار ان کی نظموں میں ہوا ہے۔

مجید امجد کی بھی بعض نظمیں مجھے بہت پسند ہیں، لیکن Totality میں جب آپ دیکھیں تو وہ راشد اور میرا جی سے بڑے شاعر نہیں ہیں۔

اختر الایمان کی شاعری میں بھی مجھے بہت خوبیاں دکھائی دیتی ہیں۔ موجودہ زمانے میں غزل کے بجائے نظم میں اظہار کو زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ بعض لوگ اپنا کردار خاموشی سے ادا کر کے چلے جاتے ہیں۔ افتخار جالب، انیس ناگی اور جیلانی کامران کا ذکر کیے بغیر نئی شاعری کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ روایتی غزل پسند نہیں، میرے خیال میں اب غزل کے عیوب سے چھٹکارا پا لینا چاہیے۔ ظفر اقبال جیسا خلاق شاعر جس قسم کی غزل اب کہہ رہا ہے، میرا نہیں خیال کہ وہ اپنی صلاحیت سے انصاف کر رہا ہے۔

٭جوش کی شاعری

جوش کی شاعری میں ایک تاریخی واقعہ کے طور پر دلچسپی تو رہے گی لیکن جس طرح میرا جی اور راشد کی نظمیں پڑھ کر لطف اندوز ہوتا ہوں ایسا معاملہ جوش کی شاعری سے نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں گھن گرج زیادہ لیکن مغز اتنا نہیں ہے۔ لفاظی اور مبالغہ بھی شاعری میں بہت ہے۔

٭ با کمال شاعر غیر شاعرانہ زبان کو شاعرانہ زبان بنا دیتا ہے

یہ بات کہ شاعری جو ہوتی ہے یہ sophisticated اور شائستہ ہوتی ہے۔ میں زبان کے معاملے میں اسے کلیہ نہیں سمجھتا۔ زبان کی ایک سطح وہ بھی ہے جو نظیر اکبر آبادی کے ہاں نظر آتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی شاعری مجھے پسند ہے اور صرف اس لیے اچھی نہیں لگتی کہ ان کے ہاں ایسے اشعار ملتے ہیں :

صحرا میں مرے حال پہ کوئی بھی نہ رویا

گر پھوٹ کے رویا تو مرے پاؤں کا چھالا

وہ مجھے اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ انھوں نے وہ زبان استعمال کی ہے جو شاعری کی زبان نہیں ہے۔ مثلاً ان کی نظم ”بنجارا“ کا یہ مصرع کہ ”کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلا سر بھارا“ ۔ با کمال شاعر کا کمال ہی یہی ہے کہ غیر شاعرانہ زبان کو شاعرانہ زبان بنا دے۔ انسانی تجربے میں شاعری اور حسیت کی جڑیں پیوست نہیں ہوں گی تو بڑا شاعر کجا معقول شاعر بھی نہیں بنا جا سکتا۔ زبان کے حوالے سے کوئی کلیہ نہیں بنانا چاہیے۔

٭ جوہر شناس۔ محمد حسن عسکری

نقادوں میں سب سے زیادہ readability عسکری صاحب کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ ان کی تحریریں پڑھ کر ذہن کو تحریک بہت ملتی ہے۔ فراق صاحب کہا کرتے تھے کہ اعلیٰ درجے کی تنقید وہ ہوتی ہے جو آپ میں ادب پڑھنے کا لالچ پیدا کر دے۔ میں عسکری صاحب کی تنقید کو اسی زمرے میں شمار کرتا ہوں۔ جوہر شناسی کا جو مادہ عسکری صاحب کے ہاں تھا اس دور کے کسی نقاد کے پاس نہ تھا۔ میری ادب میں علمی دلچسپی کم ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ بہت پیچیدہ باتیں میری سمجھ میں آتی نہیں ہیں۔ مجھے وہ لوگ اچھے لگتے ہیں جنہیں سوچنے سے دلچسپی ہو۔ عسکری صاحب بھی اسی وجہ سے پسند تھے اس کے باوجود کہ ان کے بعض چیزیں میرے حلق سے نہیں اترتیں۔ جیسے جدیدیت کے خلاف ان کا ایک رسالہ ہے۔ اس طرح اشرف علی تھانوی کے بارے میں ان کا جو نقطہ نظر تھا جس کا اطلاق وہ ادب پر کرنا چاہتے تھے۔

٭ فراق صاحب کو نقاد نہیں مانتا

فراق صاحب کو میں نقاد نہیں مانتا اور بھی بہت سے لوگ انھیں بطور نقاد تسلیم نہیں کرتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کہیں کہیں ان کی لن ترانی بہت بڑھ جاتی ہے۔ فراق کو بطور نقاد میں ڈیفنڈ نہیں کروں گا لیکن بطور نثر نگار ان کو ڈیفنڈ کروں گا۔ ”اردو کی عشقیہ شاعری“ مجھے زیادہ پسند نہیں۔ عسکری صاحب نے اس کی زیادہ ہی تعریف کر دی ہے۔ ان کا ایک اور رسالہ غزل گوئی مجھے پسند ہے۔ وہ اپنے زمانے کے تمام شعرا سے مختلف ہیں۔ ان کے ہاں اکتا دینے والی طوالت بھی ملتی ہے لیکن فراق جتنے اچھے شعر اس زمانے کے کسی غزل گو کے ہاں آپ کو نہیں ملیں گے۔ ان سے میری بہت ملاقاتیں رہیں اور جب ان کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا تھا تو اردو انگریزی کے بہت سے مضامین مجھے انھوں نے ڈکٹیٹ کرائے۔

٭ انیسویں صدی انوکھی صدی

مجھے انیسویں صدی سے بہت دلچسپی ہے۔ بعض اعتبارات سے یہ بہت انوکھی صدی تھی۔ ہندوستان ایک خاص ٹائم فریم سے نکل کر دوسرے ٹائم فریم میں داخل ہو گیا تھا، یعنی زمانہ بدل گیا، زمانے کی تقسیم ہو گئی۔ 1857 ءسے پہلے اور بعد کا زمانہ، یکسر مختلف ہے۔ 1947 کی تقسیم زمین کی تقسیم تھی۔ انیسویں صدی میں زمانے کی تقسیم تھی۔ اس تقسیم کے باعث جن مسائل نے جنم لیا، ان کی نوعیت صرف معاشرتی نہیں تھی کہ تہذیب بدل گئی، انگریزی آ گئی، نئے کالج کھل گئے۔ نئے کارخانے قائم ہو گئے، نئے علوم آ گئے اور ہندوستان میں ادب میں نئی اصناف متعارف ہو گئیں۔ یہ دیوزادوں کی صدی تھی۔ اس میں سرسید، غالب، مولانا محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد اور حالی ایسی باکمال شخصیات موجود تھیں۔ شبلی 1857 ءمیں پیدا ہوئے، انھوں نے زندگی کے 43 برس اسی صدی میں بسر کیے۔ ان سب شخصیتوں کے لیے مسائل بڑے عجیب و غریب تھے۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ اپنا تشخص کس سطح پر قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس ماحول نے اضمحلال اور دل شکستگی کا ماحول پیدا کیا۔ میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ غالب کے ہاں جو پیچیدگی ملتی ہے، اس کا پس منظر اس زمانے کی پیچیدگی نے تیار کیا تھا۔ جہاں ایک ہی صدی دو زمانوں میں بٹ جاتی ہے اور ان میں باہم تصادم ہوتا رہتا ہے۔ اقدار کا ایک نظام 1857 ء سے پہلے تھا اور ایک 1857 ءکے بعد سامنے آیا۔ زندہ رہنے کے اسالیب جو ستاون سے پہلے تھے، انھوں نے ستاون کے بعد دوسرا رخ اختیار کیا۔ غالب نے گھوڑے پر اور ناؤ پر سفر کیا۔ 1857 ءکے بعد ریل گاڑی آ گئی۔ ہر زمانے کی ایک رفتار ہوتی ہے۔ تہذیب کے محور بدلتے ہیں تو زمانے کی رفتار بھی بدل جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پوری صورتحال کا اثر تو غالب پر بہت شدید پڑا۔ میں سلیم احمد کی اس بات سے متفق ہوں کہ ہماری تخلیقی روایت کا جینئس غالب تھا۔ دوسری بڑی شخصیت جو مجھے نظر آتی ہے، وہ مولانا محمد حسین آزاد کی ہے۔ آزاد 1857 ءمیں 27 برس کے تھے۔ انھوں نے اس سانحہ کو نہ صرف یہ کہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا بلکہ وہ اس کا شکار بھی ہوئے۔ ایک ایسا شخص جس نے باپ کی موت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اپنی بیٹی کی موت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ وہ زمانہ بڑا پیچیدہ تھا۔ اس صورت حال کو جس انداز میں غالب اور آزاد نے سمجھا، اس کو اس حد تک نہ سرسید سمجھ سکے نہ حالی سمجھ سکے۔ غالب نے آئین اکبری کی جو تقریظ لکھی وہ سرسید کی تحریک شروع ہونے سے پہلے کی بات ہے یعنی وہ سرسید کو آئین روزگار کا سبق دینا چاہتے تھے۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ غالب ماڈرنسٹ ہو گئے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بہت عمدہ بات کہی تھی کہ غالب ہمارے آخری بڑے کلاسیکی شاعر اور پہلے بڑے جدید شاعر ہیں۔ ان کے جدید شاعر ہونے کا ثبوت اس بات میں تلاش کرنا کہ وہ سرسید کو یہ بتا رہے ہیں کہ ریل کی طرف دیکھو، ٹیلیگراف کی طرف دیکھو۔ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا بلکہ میرے خیال میں نئی تبدیلیوں سے فکری سطح پر غالب کے ہاں جو کشادگی، رواداری اور انسان دوستی پیدا ہوئی اور مطلقیت سے انکار کا جو رویہ پیدا ہوا، میری نظر میں یہ باتیں ان کو ماڈرن بناتی ہیں۔

٭آزاد انسانی عنصر پر علمی عنصر کو غالب نہیں آنے دیتے

آزاد مجھے غالب کے بعد اس دور کے سب سے پیچیدہ آدمی لگتے ہیں۔ 1857 ءکے انقلاب کے بعد جب وہ دہلی چھوڑتے ہیں تو دیوان ذوق کا پلندا ان کے پاس ہے جو بکھر جاتا ہے تو وہ اس کو سمیٹتے ہیں۔ یہ کیا چیز ہے یعنی ان کی ترجیح کیا ہے۔ وہ اب اپنے ماضی کو ساتھ لیے ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ آزاد کے ہاں یہ تضاد بڑا دلچسپ ہے کہ بیاض آزاد میں اپنی پسند کے اشعار جو انھوں نے درج کیے ہیں وہ حکیم آغا جان عیش ایسے شعرا کے ہیں۔ یہ وہ شاعر ہیں جن کے ہاں شاعری میں صرف قافیہ پیمائی ہو رہی ہے، صرف نئے مضمون باندھے جا رہے ہیں۔ میں ان باتوں کا شاعری میں بہت زیادہ قائل نہیں۔ نیا مضمون باندھنا کمال نہیں، نیا مضمون اگر آپ نے بھونڈے طریقے سے باندھا ہے تو اس سے کہیں بہتر تھا کہ آپ پرانا مضمون باندھتے لیکن اچھے انداز سے۔ اسی طرح غالب آئین روزگار کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف دہلی کے اجڑ جانے کا ماتم کرتے ہیں۔ دہلی غالب کے نزدیک ایک شہر نہیں، ایک پوری تہذیب کا درجہ رکھتا تھا۔

آزاد کا رویہ لسانیات تک کی طرف تخلیقی تھا۔ سخن دان فارس میں جہاں لفظوں کی بحث شروع ہوتی ہے وہاں کہتے ہیں کہ ’لفظوں کا حال بھی قوموں جیسا ہے جو ملکوں ملکوں سفر کرتے ہیں۔ خوشی کا کوئی تجربہ ان کے حصے میں آئے تو وہ کھل اٹھتے ہیں۔ کہیں ان پر اضمحلال طاری ہو جاتا ہے اور اگر انہیں موافق اور سازگار آب و ہوا نہ ملے وہ مرجھا جاتے ہیں اور کبھی کبھی مر بھی جاتے ہیں۔‘ یہ اب لسانیات کی زبان نہیں ہے۔ وہ تو سائنس ہے ایک طرح کی، جو مجھے بھی نہیں آتی۔ آزاد مجھے اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ انسانی عنصر ان کے ہاں اتنا حاوی ہے کہ اس پر کوئی علمی عنصر غالب نہیں آنے دیتے۔

٭ مختلف طرح کی نثر اچھی لگتی ہے

مجھے ایک ہی قسم کی نثر پسند نہیں بلکہ مختلف طرح کی نثر مجھے اچھی لگتی ہے مثال کے طور پر مجھے یوسفی صاحب کی نثر اچھی لگتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے وہ نثر بھی اچھی لگتی ہے جو میرا جی نے لکھی ہے۔ جو بہت آسان، سادہ اور فطری نثر ہے۔ یہ وہ نثر ہے جو ”مشرق و مغرب کے نغمے“ میں اور ”اس نظم میں“ کے تجزیوں میں انھوں نے استعمال کی۔ پریم چند کی نثر کو میں ان کی کہانی سے الگ کر کے نہیں پڑھ سکتا۔ جب میں ان کی کہانی کے ساتھ پڑھتا ہوں تو وہ نثر بہت اچھی لگتی ہے۔ بیدی کی نثر اچھی لگتی ہے۔ کرشن چندر کی نثر پسند نہیں۔ کسی زمانے میں میں ان کا بڑا شیدائی رہا ہوں۔ طالب علمی کے زمانہ میں تو ان کی تحریر پڑھ کر ایک نشہ سا طاری ہوتا تھا۔ مولانا محمد حسین آزاد کے بارے میں میرا خیال ہے کہ ”نیرنگ خیال“ کی جو نثر ہے وہ ”آب حیات“ کی نثر نہیں ہے۔ ”آب حیات“ کی جو نثر ہے ”دربار اکبری“ کی نثر نہیں ہے۔ کچھ رویے ان کی نثر میں مشترک ضرور ملیں گے۔ مثلاً خیال کو وہ مختلف شکلوں میں ڈھال لیتے ہیں اور خیالات کی تجسیم میں ان کا جوڑ نہیں۔ مجھے انشا اللہ خان انشاء کی ”رانی کیتکی“ کی نثر بھی اچھی لگتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مجھے سرشار کی نثر بھی پسند ہے۔ وہ زمانہ stalwarts کا زمانہ تھا۔ شبلی اور حالی کی نثر بھی مجھے پسند ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کی نثر بھی پسند ہے۔ ان کا محاوروں کی طرف غیر معمولی شغف مجھے کبھی کبھی الجھن میں ڈالتا ہے۔ وہ شاید ان کا نفسیاتی مسئلہ بھی تھا۔ وہ دلی میں چونکہ رہتے تھے تو اس لیے ان کا اصرار تھا کہ دلی والوں کے محاورے کو ماننا چاہیے اور اس میں وہ بعض دفعہ غلو کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ معمولی لوگ نہیں تھے، ان کی کمزوریاں بھی ہیں لیکن ان کی خوبیاں بھی بہت بڑی ہیں۔ مجھے تو اس عہد کے تمام لکھنے والے یعنی سرشار بھی پسند ہیں اور ڈپٹی نذیر احمد بھی پسند ہیں۔ حالی بھی پسند ہیں اور شبلی بھی پسند ہیں۔ حالی کی جو نثر ہے وہ تنقیدی مضامین کے لیے ہمارے لیے ایک رول ماڈل کا مقام رکھتی ہے۔ لیکن وہ شخصیات کا خاکہ اس طرح سے نہیں لکھ سکتے تھے جیسا کہ آزاد لکھ سکتے تھے یا جیسا کہ ڈپٹی نذیر احمد لکھ سکتے تھے۔ مثلاً ابن الوقت اور مرزا ظاہر دار بیگ کے با کمال خاکے انھوں نے لکھے اس پر مستزاد ان کی حس مزاح اور ذکاوت بھی بہترین ہیں۔ شبلی ایک قسم کی رومانیت اور جذباتیت کے باوجود ایک خاص قسم کی علمی نثر لکھتے ہیں۔ جس کا اندازہ ”الفاروق“ اور ”سیرة النبی“ میں ان کی نثر پڑھ کر ہوتا ہے۔ ”موازنہ انیس و دبیر“ میں انھوں نے ایک مختلف نثر لکھی ہے۔ آزاد کے بارے میں میرا خیال ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ شبلی نے جو یہ کہہ دیا کہ گپیں بھی ہانک دیں تو وحی معلوم ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے گویا سارا جادو صرف اسلوب کا ہے اور کہنے کے لیے کوئی بات نہیں۔ یہ ایک غلط رویہ ہے۔ آزاد کو اس زمانے میں زبانوں کے مسائل سے جو دلچسپی تھی، اس کا پتہ چلتا ہے ”سخن دان فارس“ سے۔

معاصر نثر نگاروں میں انتظار صاحب کا بہت قائل ہوں۔ بیدی کا بھی قائل ہوں۔ بلونت سنگھ کی نثر بھی مجھے اچھی لگتی ہے۔ میں نے ”جامعہ“ کا بلونت سنگھ نمبر نکالا تو میرے دوست اسلم محمود جو بڑے پڑھے لکھے آدمی ہیں، دنیا بھر کا ادب پڑھتے ہیں، انھوں نے مجھے کہا کہ ”صاحب! بس اب تو یہی رہ گیا ہے کہ تیرتھ رام فیروز پوری نمبر نکال دیا جائے۔“ میری ٹریجڈی یہ ہے کہ مجھے تیرتھ رام فیروز پوری بھی اچھے لگتے ہیں۔ جس نے تین سو کے قریب ناول ترجمہ کیے اور وہ بھی اس زمانے میں جب ادب یا کتاب کو کموڈیٹی کے طور پر نہیں سمجھا جاتا تھا۔ کتاب سے انسان کا ایک گہرا باطنی رشتہ ہوتا تھا۔ یوسفی صاحب اچھے لگتے ہیں ہر چند کہ میری یوسفی صاحب کی نثر کے بارے میں وہ رائے نہیں جو بعض لوگ بڑے غلو کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مجھے کہیں کہیں خیال آتا ہے کہ بعض ایسی باتیں ہیں جو مجھے بہت نہیں بھاتیں۔ ”آب گم“ کی نثر باقی کتابوں سے زیادہ اچھی لگتی ہے اور میرے خیال میں ان کی سب سے اچھی کتاب بھی وہی ہے۔ وارث علوی کی نثر اچھی ہے اور مجھے مزا آتا ہے جب وہ کسی کو بلاسٹ کرنا شروع کرتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے فکشن میں نثر کے بہت اچھے نمونے ملتے ہیں اور یہ نمونے تنقید میں بھی ملتے ہیں۔ ہر چند کہ کبھی کبھی تنقید میں ایسی نثر لکھتے ہیں جو مجھے پڑھنے میں زیادہ لطف نہیں آتا۔ نیر مسعود کی نثر مجھے بہت پسند ہے۔ اس نثر میں کسی قسم کی آرائش نہیں ہوتی لیکن وہ بڑی اثر انگیز ہوتی ہے۔ محمد خالد اختر مجھے بہت پسند ہیں۔

٭ روزمرہ اور بول چال کے قریب زبان زیادہ پسند ہے

اردو کو تہذیب یافتہ اور شہریت کا ترجمان کہا گیا، اس رویے سے ثابت ہوتا ہے کہ دیہات اور قصبات کی زندگی کی طرف، آپ کا رویہ حقارت کا ہے۔ اس سوچ سے اردو کو نقصان ہوا۔ اردو میں ہندی کا لفظ آنے پر اعتراض ہوتا رہا کہ اردو شعر میں ہندی کا لفظ کیسے آ گیا؟ ہم تو کسی لفظ کو ہندی کا لفظ نہیں، بلکہ ہندی کے ہر لفظ کو اردو کا لفظ سمجھتے ہیں، ماسوائے ان الفاظ کے جو اردو محاورے میں ٹھیک سے نہیں بیٹھتے۔ روزمرہ اور بول چال کے قریب زبان مجھے زیادہ پسند ہے، بہت زیادہ فارسی آمیز نثر اچھی نہیں لگتی۔ میں اردو کے اس محاورے کا زیادہ قائل ہوں، جو عام آدمی اور عام زندگی سے جڑا ہے۔ اردو زبان کا کردار بھی یہی رہا ہے۔ ہندی والوں نے اس معاملہ میں چالاکی کی ہے۔ کھڑی بولی کی تاریخ ہندی میں سوا سو سال پرانی بات ہے جبکہ اردو میں کھڑی بولی ولی کے زمانے سے لکھی جا رہی ہے۔ ہندی والوں نے ہندوستان کی مختلف بولیوں کو ہندی زبان کے محاورے سمجھ کر قبول کیا اور سور داس، تلسی داس، میرا بائی اور چندر بردائی سمیت اور بہت سے اور لکھنے والوں کو ہندی ادب میں شامل کر لیا۔ ادھر اردو میں بہت دیر تک لوگوں نے نظیر تک کو شاعر نہیں مانا۔

٭اردو والوں کی غفلت

میرے خیال ملک محمد جائسی اور عبدالرحیم خان خاناں کو اردو والوں نے اپنے میں شامل نہ کر کے غفلت برتی ہے۔ اختر حمید خان کا کہنا تھا کہ سورداس اور تلسی داس، اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں، اس بات سے مجھے اتفاق نہیں کیونکہ دونوں نے اردو نہیں دیوناگری رسم الخط میں لکھا، لیکن ملک محمد جائسی کی ”پدماوت“ تو فارسی رسم الخط میں ہے۔ ابراہیم عادل شاہ کی کتاب ”نورس،“ جس میں ہندوستانی ماتھولوجی اور راگ راگنیوں کا ذکر ہے، اس کو اردو میں شامل کر لیا گیا جبکہ اس کا ایک بھی لفظ آج اردو جاننے والے ٹھیک سے سمجھ نہ پائیں گے۔ یہ کتاب آپ نے قبول کر لی لیکن ملک محمد جائسی اور عبدالرحیم خان خاناں کو آپ اپنے میں شامل نہیں کرتے۔

٭ہندوستان میں غالب کی مقبولیت

غالب کو پسند کرنا بھارت میں ایک طرح کا فیشن بن گیا ہے۔ غالب کی غزلیں بھی زیادہ گائی جاتی ہیں جبکہ ان کے کلام کے مقابلے میں دیگر شعرا کے ہاں زیادہ غنائیت پائی جاتی ہے۔ عام آدمی کے جو مسائل اور الجھنیں ہیں وہ اس شاعری میں ملتی ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب نے لکھا ہے کہ غالب مجھے اس لیے زیادہ آسودہ کرتا ہے کہ میں اس دنیا میں سانس لے سکتا ہوں، وہ مجھ ایسے لوگوں کی دنیا ہے۔ اقبال کی دنیا میں مطالبات بہت سخت ہوتے ہیں، مرد مومن اور مرد کامل بننا آسان کام نہیں ہے۔ غالب کی دنیا میں انسان اپنی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ، تمام تضادات کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ عبدالرحمان بجنوری نے کہا کہ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہی ہیں ایک گیتا اور دوسری دیوان غالب۔ میرے ایک دوست جو بہت اچھے شاعر بھی ہیں اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ان کا کہنا ہے کہ ویدوں کے بعد غالب کی سطح کا تخلیقی اظہار اور کسی نے نہیں کیا۔ نثر ان کی بے مثال ہے اور ان سے پہلے اردو نثر میں میر امن کی باغ وبہار ہی نظر آتی ہے۔ گلزار کی غالب پر ڈراما سیریل مجھے پسند نہیں البتہ اس میں نصیر الدین شاہ نے با کمال اداکاری کی ہے۔

٭ اردو ناول کے بارے میں چند باتیں

ناول لکھے تو بہت جا رہے ہیں۔ اب ان میں اچھے کتنے ہیں اور برے کتنے ہیں یہ اور بات ہے۔ جس معیار کے ناول دستوئیفسکی، ٹالسٹائی یا فلوبئر کے تھے، تو اس معیار سے تو میں قرة العین حیدر کو بھی بڑا ناول نویس نہیں کہہ سکتا۔ میرا خیال ہے کہ ”برادرز کرامازوف“ اور ”جنگ اور امن“ کے پائے کا ناول تو شاید اردو میں کوئی بھی نہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ایسے ناول بھی ہیں کہ جن کو پرائز ملا ان سے بہتر ناول قرة العین حیدر کے ہیں۔ اتار چڑھاؤ تو باہر بھی نظر آتا ہے۔ اردو میں اگر بڑے ناول نہیں لکھے گئے تو اس کی کیا وجہ ہے یہ تو نہیں معلوم لیکن ناول لکھنے کے لیے شاید منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک قسم کے تحمل اور ضبط کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ شیخ صلاح الدین کا ناول میں پاکستان سے لے تو گیا تھا لیکن اب تک پڑھ نہیں سکا۔ اور بھی بہت سے ناول ہیں جنہیں میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میں پڑھ نہیں پاتا۔ ایک اور ناول جو میں کوشش کے باوجود نہیں پڑھ سکا لیکن ممتاز احمد خان نے اپنی کتاب میں اس ناول کو سراہا ہے، اب یا میرے ذوق میں کوئی خرابی ہے یا اس ناول میں کوئی ایسی بات ہے کہ میں اسے پڑھ نہیں پاتا۔

٭اردو میں فکشن پر تنقید کم کیوں؟

فکشن پر تنقید شاعری پر تنقید سے مشکل ہے۔ تنقید کے لیے ذہن کا مرتب اور منظم ہونا ضروری ہے۔ شاعر پر آپ شاعری کا انتخاب پڑھ کر لکھ سکتے ہیں لیکن دو افسانے پڑھ کر افسانہ نگار کے بارے میں نہیں لکھ سکتے۔ فکشن پر کم تنقید کی وجہ سہل انگاری بھی ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ شاعری کی روایت فکشن کی روایت سے پرانی ہے۔ ہمارا ادبی ماحول بھی شاعری گزیدہ رہا ہے اور شعر کا ذکر یہاں زیادہ ہوا۔ تنقید کے معاملے میں نقاد کی ذاتی دلچسپی اور ترجیحات بھی ہوتی ہیں، وارث علوی ہمارے دور کے اہم نقاد ہیں۔ انھوں نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں شاعری کے بجائے فکشن پر زیادہ لکھا ہے۔

٭موسیقی کے بارے میں باتیں

میوزک سے مجھے بہت لگاؤ ہے۔ کشوری امونکر سے بڑی عقیدت ہے۔ ان کی شخصیت کا ایسا جادو ہے کہ میں تو انھیں مبہوت ہو کر دیکھتا ہوں۔ بھیم سین جوشی کی گائیکی بھی بہت پسند ہے۔ لتا کو بچپن سے سن رہا ہوں، ان کے گانے میں بہت ورائٹی ہے۔ کمارگندھرو کی آواز بڑی مسحور کن ہے۔ انھوں نے کبیر کے بھجن کمال انداز میں گائے ہیں، جس طرح میرا کے بھجن سبا لکشمی نے اتنے زبردست انداز میں گائے ہیں کہ انھیں سننے کے بعد کسی اور کی آواز میں بھجن سننے کو جی آمادہ نہیں ہوتا، ایسا ہی معاملہ کبیر کے بھجن کمار گندھرو کی آواز میں سننے پر ہوتا ہے۔ استاد بسم اللہ خان کا کمال ہے کہ شہنائی کو موسیقی کی بڑی صف میں لا کھڑا کیا وگرنہ اسے شادی بیاہ پر گانے ولا ساز سمجھا جاتا تھا۔ جامعہ ملیہ میں ایک تقریب میں مقررہ وقت پر پہنچنے میں انھیں تاخیر ہوئی تو وائس چانسلر نے اسٹیج پر آ کر بتایا کہ وہ اس وقت نماز پڑھ رہے ہیں۔ اپنے مسلک کے وہ پابند تھے۔ محرم میں شہنائی نہیں بجاتے تھے۔ استاد بسم اللہ خان کو بھارت رتن دیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں اے آر رحمان کا بڑا شہرہ ہے۔ وہ پکے مسلمان ہیں۔ وہ حج پر سعودی عرب گئے تو ادھر مقیم میرے ایک رشتہ دار نے ان سے آٹوگراف مانگا، اے آر رحمان نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں اس کام کے لیے نہیں آئے۔

ہندوستان کے فنون لطیفہ میں مسلمانوں کا بہت کنٹری بیوشن ہے۔ کلاسیکی موسیقی میں استاد امیر خان کو آپ آخری عظیم کلاسیکی گلوکار قرار دے سکتے ہیں، بھیم سین جوشی اور گندھرو کو بھی اس صف میں نہیں رکھ سکتے۔ استاد رجب علی خان، استاد ولایت علی خان اور استاد امجد علی خان بھی بڑے نام رہے ہیں۔ مصوری میں ایم ایف حسین تو ہمارے اپنے دور کے ہیں۔ غلام رسول سنتوش، طیب مہتا، نسرین محمدی اور غلام محمد شیخ، یہ تمام صف اول کے مصوروں میں گنے جاتے ہیں۔ اداکاری میں تو اتنے لوگ ہیں کہ نام گنوانا مشکل ہے۔ صرف اداکاراؤں کو ہی لیں تو مینا کماری، ثریا، مدھوبالا اور نرگس ایسے بڑے نام ہیں۔

٭نورجہاں سے ملاقات

پہلی بار پاکستان آنا ہوا تو کشور ناہید نے مجھ سے پوچھا کہ کسی شخصیت سے ملنے کی خواہش ہو تو بتاؤ۔ میں نے نور جہاں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے میری نور جہاں سے ملاقات کا انتظام کر دیا۔ وہ بہت اچھے طریقے سے ملیں۔ یہ ملاقات ہمیشہ یاد رہے گی۔ ریشماں سے ملاقات الحمرا میں ادبی کانفرنس کے دوران ہو گئی۔ بیماری کے باعث وہ بہت کمزور نظر آ رہی تھیں، اس لیے انھیں دیکھ کر دل اداس ہو گیا۔ ریشماں میرے سارے گھرانے کو پسند ہیں۔ استاد جمن کی آواز بھی بڑی اچھی لگتی ہے۔ عالم لوہار میرے پسندیدہ ہیں۔ کانفرنس میں ان کے بیٹے عارف لوہار سے ملنا اچھا لگا۔ طفیل نیازی کو بھی شوق سے سنتا ہوں۔

٭لاہور کا نام پہلی مرتبہ والدہ سے سنا

لاہور کی جڑیں تاریخ میں ہیں۔ اس شہر میں ماضی اور حال ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ لاہور کا نام سب سے پہلے والدہ کی زبانی سنا جو علامہ اقبال کی نظمیں پڑھا کرتی تھیں۔ ان کی آواز بہت اچھی تھی۔ لاہور کا ذکر نقل مکانی کرنے والے شرنارتھیوں سے بہت سنا۔ وہ بڑی وارفتگی سے اس شہر کا ذکر کرتے تھے۔ خوشونت سنگھ اس شہر کو بڑی محبت سے یاد کرتے تھے۔ بی سی سانیال صاحب جو این سی اے میں رہے ان کو لاہور سے بڑی محبت تھی۔ انتظار صاحب کی کتاب ”چراغوں کا دھواں“ لاہور کے ساتھ محبت سے بھری ہے۔ کسی اور شہر میں لوگوں کو اس طرح دل کھول کر ملتے نہیں دیکھا۔ برصغیر میں لاہور جتنی محبت سے کسی اور شہر کو یاد نہیں کیا گیا۔ ایک بات اور اس شہر میں دیکھی کہ لوگ آپس میں لڑتے بھی ہیں لیکن ساتھ بھی بیٹھتے ہیں۔ انتظارحسین اور انور سجاد میں ٹھنی رہتی تھی لیکن وہ ملتے بھی تھے اور ساتھ بھی بیٹھتے تھے۔

٭ زندگی صرف ہم خیالوں کے ساتھ نہیں گزاری جا سکتی

علی سردار جعفری غیر معمولی آدمی تھے۔ اپنے زمانے کے ترقی پسند ادیبوں میں سب سے وسیع المطالعہ تھے۔ ترقی پسندوں میں کم لوگوں نے ان کے جتنا اردو فارسی کلاسیک پڑھا ہو گا۔ درد بانٹتے تھے۔ درد محسوس کرتے تھے۔ میں نے ان کی کتاب پر مضمون کے آخر میں لکھا کہ آپ کی بہت سی باتوں سے ہمیں کبھی اتفاق نہیں ہو گا لیکن زندگی صرف ہم خیالوں کے ساتھ نہیں گزاری جا سکتی۔ یہ جملہ انھیں بہت پسند آیا۔

ذاتی تعلق کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ دہلی کے ایک مشاعرے میں مل گئے، چاکلیٹ کا پیکٹ دیا کہ سیمیں کو دے دینا، اس وقت وہ یونیورسٹی میں تھی، اس کی بچپن میں کشمیر میں جعفری صاحب سے ملاقات ہوئی، جہاں وہ ان سے باتیں کرتی رہتی، ان کی اسکیچ بناتی، برسوں بعد بھی جعفری صاحب کی ذہن میں میری بٹیا کا خیال رہا اور وہ اس کے لیے چاکلیٹ لے کر آئے۔

٭ خالدہ حسین کا فکشن

خالدہ حسین کا فکشن بہت پسند ہے۔ میں نے انھیں اس وقت پڑھا جب ان کا کوئی مجموعہ نہیں چھپا تھا۔ بلراج مین را ان کی گیارہ یا بارہ کہانیاں رسالوں سے تلاش کر کے لائے تھے تاکہ مجھ سے مضمون لکھوا سکیں۔ خالدہ حسین میں تخلیقی ضبط غیر معمولی ہے، اندر سے جتنی بھی دکھی اور پریشان ہوں اس کا اظہار کلاسیکی انداز میں کرتی ہیں۔ نثر پر غیر معمولی قابو۔ جذباتی نہیں ہوتیں۔ لفظوں کا اسراف نہیں۔ مغرب کا بہت اچھا ادب پڑھ رکھا تھا۔ اس سے سیکھا بھی۔ خالدہ حسین کے ہاں زمانہ بڑی خاموشی سے آتا ہے وہ کسی خاص پیریڈ کا ذکر نہیں کرتی، کسی واقعے کا ذکر کرتی ہیں کہ اس سے ہم خود کو ریلیٹ کرسکیں، ان کے بیان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ہمارے زمانے کی بات ہے۔ وہ اپنی قسم کی پہلی اور آخری لکھنے والی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments