ریاست جارجیا غلامی سے آزادی تک


جارجیا پچپن چھوٹے بڑے شہروں پر مشتمل ایک آزاد ریاست ہے جو مغربی ایشیا اور مشرقی یورپ کے سنگم پر واقع ہے، یہ مغرب میں  بحیرہ اسود، شمال میں روس، جنوب میں ترکی اور آرمینیا اور جنوب مشرقی میں  آذربائجان کی طرف سے منسلک  ہے۔ جارجیا کا کل رقبہ 26911 مربع میل اور اسکی آبادی 3.76 ملین سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ جارجیا کے دارالحکومت کا نام تبلیسی ہے اور یہاں کے لوگوں کی مادری زبان “ابخاز زبان” ہے۔ سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ جارجیا میں بادشاہت نہیں بلکہ پارلیمانی نظام کو اہمیت دی گئی ہے اور یہاں اکثریت کی رائے کو دبایا نہیں جاتا بلکہ خوش دلی سے انکی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔
جارجیا بظاہر ایک چھوٹی سی ریاست ہے لیکن اس کی تاریخ بہت ہی تلخ حقیقتوں پر مشتمل ہے، یہاں کے باشندوں نے ہر صدی میں غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے بہت سی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ جارجیا کے لوگوں نے ایران، ترکوں، عربوں اور روس کی غلامی کی زنجیروں کے خلاف بغاوت کی اور اسی جدوجہد کے نتیجے میں جارجیا کے شہریوں کا ایک الگ ریاست کے قیام کا خواب حقیقت میں بدل گیا۔
جارجیا کا دارالحکومت تبلیسی یورپ کے قدیم ترین دارالحکومتوں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کا نام پہلی بار چوتھی صدی سے جارجیائی کتابوں میں مذکور ہے۔ تاہم ، اس وقت یہ دارالحکومت نہیں تھا ، بلکہ ایک مضبوط شہر تھا۔ آسان جغرافیائی حالات نے تبلیسی کو یورپ اور ایشیاء کے مابین ایک نمایاں مرکز میں تبدیل کرنے میں ترقی دی ہے۔
پانچویں صدی کے دوسرے نصف حصے کے دوران ، شاہ وختنگ گوراسالی نے کارٹلی میں حکومت کی اور ایرانی طاقتوں کے خلاف متعدد بغاوتوں کا اہتمام کیا۔ اس وقت ایرانیوں کا تبلیسی میں ایک نمائندہ موجود تھا جو ایرانی حکومت کی طرف سے بطورِ جاسوسی کام سر انجام دیتا تھا اور اس کا خاص مقصد ہی تبلیسی، جارجیا کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرکے ایرانیوں کو طاقتور جارجین جنگجوؤں کا مواد پہنچانا تھا۔ بادشاہ نے ایرانیوں کے نمائندے کو ملک سے نکال دیا اور تبلیسی پر اپنا قبضہ جما لیا۔ بدقسمتی سے ایرانی نمائندے کو نکالنے کے بعد ایران اور شاہ وختنگ کی فوج کے درمیان کافی عرصہ جنگ جاری رہی اور اس تصادم نے تصفیہ کو مسمار کردیا اور شاہ وختنگ گوراسالی نے اس کی تعمیر نو شروع کردی۔ انہوں نے علاقے کی معاشی اور تزویراتی آباد کاری کو سمجھا اور ایک بڑا شہر تعمیر کرنا شروع کیا ، جو کارٹلی بادشاہی کا دارالحکومت بن جائے گا۔
جب شاہ وختنگ نے تصفیہ کی دوبارہ تعمیر نو شروع کی تو وہ اس وقت ایران کی طرف سے کیے گئے ایک خفیہ حملے میں مارا گیا اور اس کے مرنے سے قبل تبلیسی کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کرنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم ، باپ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے داچی شاہی ایرانیوں کے خلاف میدان میں اترا اور تخت تبلیسی لانے میں کامیاب ہوگیا ، جس کے بعد پوری بادشاہی نئے شہر پہنچی اور بہت ہی مختصر عرصے میں تبلیسی کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ چھٹی صدی کے آغاز سے ہی تبلیسی کو کارٹلی کا دارالحکومت کہا جاتا تھا۔
ایرانیوں کے بعد ساتویں صدی کے وسط میں کارٹلی پر عرب حکمرانوں نے قبضہ کرکے حکمرانی کرنی شروع کی۔ مروان ابن محمد نے  735ء میں تبلیسی سمیت پورے ملک کو فتح کیا۔ اس نے جلدی سے تبلیسی آبادی پر ٹیکس عائد کردیا۔ آٹھویں صدی کے آغاز میں ، تبلیسی نے پہلا سکہ تیار کیا جس کا نام تبلیسی عربی دراہما تھا۔ جارجیا میں عربوں کا اقتدار چار صدیوں تک جاری رہا۔
 12 اگست 1122ء کو ڈیڈگوری جنگ میں فتح دیکھنے کے بعد جارجیائی بادشاہ ڈیوڈ چہارم اگسمینیبیلی کی سب سے بڑی تشویش تبلیسی کو باقی مملکت کے ساتھ متحد کرنا تھا۔ فروری 1122ء میں ایک بڑی جنگ کے بعد ڈیوڈ کی فوج تبلیسی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی، جہاں اس نے شاہی تخت کوٹسی سے منتقل کیا۔
جارجیائی  تاریخ میں بارہویں اور تیرہویں صدیوں کو سنہری عہد کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت جارجیا ایک مضبوط ملک تھا۔ تبلیسی نے عالمی تجارت میں ، وسطی ایشیا ، انڈو چائنا ، عربیہ ، بازنطینی ، مغربی یورپ ، اور روس سے سامان کی منتقلی کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔
تیرھویں  صدی کا آغاز ہی ملک میں یلغار کی ایک اور لہر لے آیا۔ اب منگولوں اور عثمانیوں نے تبلیسی پر حملہ کیا اور اس حملے کے پیچھے ایرانیوں کا بھی خفیہ ہاتھ شامل تھا۔ اس حملے کے بعد جارجیا اور اس کے دارالحکومت تبلیسی کو بہت بڑے سانحے سے گزرنا پڑا کیونکہ اس جنگ میں تبلیسی شہر مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔
ایریکل دوم نے 1762ء میں دوبارہ تبلیسی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہوگیا اور اس نے تبلیسی کو کارٹل کاکھیٹی کی بادشاہت میں ضم کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی تبلیسی جارجیا کے نئے سیاسی یونٹ کا اہم مرکز بن گیا۔ ایریکل نے دارالحکومت تبلیسی کی دوبارہ تعمیر نو شروع کی اور ایک نیا محل ، سیمینار ، اور پبلشنگ ہاؤس تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ شاہی عدالت میں ایک اداکار کی جماعت بھی تشکیل دی گئی اور تبلیسی کے باغات کو ان کی اصل حالت میں بحال کردیا گیا۔ شہر کی دیوار کی بھی تعمیر نو کی گئی اور جلد ہی تبلیسی دوبارہ شہر کی طرح نظر آنا شروع ہوگیا۔ 1801ء میں کارٹل کے روسی سلطنت کا حصہ بن گیا اور روسی گورنرز نے تبلیسی سمیت جارجیا کے نئے اضلاع میں یورپی طرز کی نئی عمارتیں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح  تبلیسی نے یورپ کے کسی دوسرے شہر کی طرح آرٹ نو عمارتوں کے ساتھ نظر آنا شروع کر دیا۔
 روس میں 1917 کے انقلاب کے بعد ، سیجم (آج کے نظام میں پارلیمنٹ) نے 22 اپریل 1918 کو ٹرانسکاکیس میں ایک آزاد جمہوری فیڈریشن کا اعلان کیا۔ 26 مئی 1918 کو جارجیا نے خود کو ایک آزاد ریاست کا اعلان کیا اور تبلیسی اس کا دارالحکومت تھا۔ جارجیا صرف 1،028 دن کے لئے ایک آزاد ریاست کے طور پر وجود میں رہا اور اس کے بعد 25 فروری 1921 کو بالشویکوں کی 11 ویں ریڈ آرمی نے تبلیسی پر حملہ کیا۔ اس وقت جارجیا کی حکومت اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر بھاگ گئی اور بعد ازاں ملک سے فرار ہوگئی۔ اس کے بعد ، تبلیسی 70 سال سے زیادہ عرصے تک سوویت یونین کا دارالحکومت بن گیا۔
جارجیائی قوم سوویت یونین کی حکمرانی کو اپنانے میں کامیاب نہ ہو سکی اور مستقل طور پر مختلف مظاہروں کا اہتمام کرتی رہی۔ 80 ء کی دہائی کے اختتام پر ، غیر رسمی سیاسی جماعتوں نے سوویت حکومت کے خلاف مظاہرے کیے اور جارجیا کی آزادی کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ 9 اپریل ، 1989 کو روس کی حکومت نے روس کے ایوینیو پر جمع ہوئے مظاہرین کو بے رحمی کے ساتھ منتشر کیا جس کے نتیجے میں 21 شرکاء ہلاک ، سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے اور زخمیوں کو زہر دے رہے تھے۔ تب سے ، اس دن سے لے کر آج تک جارجیا میں عام تعطیل کا اعلان ہوتا رہا ہے، جہاں مقامی لوگ تبلیسی میں جارجیا کی عمارت کی پارلیمنٹ میں پھولوں کے گلدستے لا کر مظاہرے میں شریک بہادر شرکاء کی یاد مناتے ہیں۔
جارجیا ایک سستا ملک ہے۔ ساحل، ہوٹل، شراب، شاپنگ، کھانا پینا، ٹیکسی، بسیں اور ریلوے سب سستا ہے، امن و امان بھی ہے، پولیس اور قانوں بھی سخت ہے، کرپشن انتہائی کم ہے، لوگ لبرل ہیں، شبانہ سرگرمیاں بھی عام ہیں، صفائی تقریباً پورا ایمان ہے، لوگ دوسروں کے معاملے میں اپنی مداخلت نہیں کرتے، چنانچہ یورپ، عرب، ترکی اور ایران کے سیاح جارجیا کا رخ کرتے ہیں، جارجیا کی حکومت نے ویزے میں خاصی رعایتیں دے رکھی تھی؛ عراق، سعودی عرب اور مصر تک کے لوگ ویزے کے بغیر تبلیسی آ سکتے تھے، اس رعایت نے تبلیسی کو انسانی اسمگلروں اور ایجنٹوں کے لیے جنت بنا دیا تھا، یہ لوگ دنیا بھر سے لوگوں کو ورغلا کر یہاں لاتے تھے، ان کی ماؤں کے زیور اور زمینوں کی کمائی اڑاتے تھے اور انھیں یہاں بے یارو مدد گار چھوڑ کر چلے جاتے تھے، اس صورتحال نے جارجیا کی حکومت کو بہت پریشان کر دیا تھا چنانچہ جارجیا کی حکومت نے اپنی ویزا پالیسی کو تبدیل کیا جس کے نتیجے میں اس طرح کے واقعات میں کافی کمی دیکھنے کو ملی ہے
جارجیا کے پاکستان کے ساتھ سفارتی علقات زیرو ہیں۔ پاکستان میں جارجیا کا سفارتخانہ ہے اور نہ ہی پاکستانی عملہ جارجیا میں موجود ہے۔ پاکستانیوں کے بارے میں ان کی معلومات صرف اسامہ بن لادن، خود کش حملوں، جنرل پرویز مشرف اور غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کے خواہش مند نوجوانوں تک محدود ہیں، یہ آج بھی ہماری رنگت کے لوگوں کو انڈین سمجھتے اور کہتے ہیں۔ جارجیا ”وومن ڈامی نیٹنگ” ملک ہے، یہاں عورتیں کام کرتی ہیں اور مرد ان کی کمائی پر عیاشی کرتے ہیں، یہاں آپ کو پورے معاشرے میں عورتیں ہی عورتیں دکھائی دئے گی، یہاں کی عورت بہت ”ایکٹو” ہے، آپ کو کام والی تمام جگہوں پر عورتیں نظر آئیں گی۔
جارجیا کے متعلق میں نے بہت سی تحاریر کا مطالعہ کیا لیکن حال ہی میں ہمارے دوست “مظفر اقبال بٹ” جو گزشتہ پندرہ سالوں سے روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں جہاں انہوں نے “دبئی تا جارجیا” تک سیرو سیاحت کی خاطر کیے گئے سفر کو ایک کتابچہ کی صورت میں شائع کیا ہے اور اس کتاب میں انہوں نے تبلیسی میں گزارے گئے اپنے ان چند ایام کا ذکر بمعہ تصاویر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے اور وہاں کے لوگوں کے رسم و رواج پر بھی کافی گہری نظر سے روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے گزشتہ چند دن قبل مجھے اپنی شائع شدہ کتاب بھیجی جس کا مجھے بڑی شدت کے ساتھ انتظار تھا، اس سفر نامے کو پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگا اور کتاب پڑھتے پڑھتے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں بھی دوران مطالعہ تبلیسی کی گلیوں میں گھوم رہا ہوں۔ مظفر اقبال بٹ صاحب نے اپنا سفر نامہ لکھ کر بہت سے لوگوں کے دلوں میں اپنے مقام و مرتبے کو بڑھا لیا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح اپنے سفرنامے کو کتابچہ کی صورت میں محفوظ کرتے رہیں گے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments