قصہ نواز رضا کی کتاب روداد سیاست کا


نواز رضا پنڈی وال ہیں زمانہ طالبعملی سے ہی طلبہ سیاست سے وابستہ ھوگئے ۔ شیخ رشید احمد، پرویز رشید راجہ انور ان کے ھم عصر تھے۔ شیخ رشید احمد سے نواز رضا صاحب کی گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں آغا شورش کاشمیری کی صحافت، سیاست اور تحریکی مزاج سے شدید متاثر تھے۔ اس بنا پر نواز رضا کوچہ صحافت میں وارد ھوئے اور شیخ رشید احمد سیاست میں۔
اگرچہ دو مختلف شعبوں میں نواز رضا صاحب کا ویسپا اسکوٹر مشترکہ طور پر استعمال ھوتا تھا ۔نواز رضا حافظ طاہر خلیل، حنیف خالد نے رپورٹنگ کے ذریعے بھرپور صحافت کی۔ چیف رپورٹر، ایڈیٹر، تجزیہ کار اور کالم نگار کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔ ان کی صحافت سے لگن اور محنت کئی دہائیوں تک محیط ھے ۔
نواز رضا نے پاکستان کی بہت سی سیاسی تحریکوں اور اتحادوں کو بنتے بکھرتے دیکھا ۔سیاسی جماعتوں اور اھل اقتدار کے نشیب و فراز اور اقتدار کی مجبوریوں کے وہ عینی شاہد بھی ہیں۔
نواز رضا کی صحافت کا مرکزی نقطعہ اسلام اور نظریہ پاکستان سے وابستگی ہے۔ اسی وابستگی کی بنا پر یہ طویل عرصہ نوائے وقت اور نظامی خاندان سے وفا کرتے رہے۔ اب جب وہ نوائے وقت سے وابستہ نہ رھے تو انہوں نے اپنی کالم نگاری کے جوہر منفرد انداز میں منوانے شروع کئے ۔ اپنی یادداشتوں اور تحریروں کو یکجا کرکے انہوں نے روداد سیاست کے عنوان سے انہیں شائع کروایا ۔
میں چونکہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں اور پاکستان کی ریاست اور سیاست پر ایک کورس پڑھاتا ہوں۔ مجھے اس بات کا شدید احساس ھے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تاریخ پر کوئی قابل ذکر علمی کام نہیں ہوا ۔ سب سے زیادہ کتابیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پھر جماعت اسلامی پر لکھی گئیں۔ لیکن مسلم لیگ پر کوئی قابل ذکر کتاب موجود ھو  جس میں مختلف ادوار میں اس کی تاریخ قیادت کی پالیسیوں اور قیادت کے ارتقا کا اجمالی جائزہ لیا گیا ھو ۔
اس کی کمی نواز رضا کی کتاب روداد سیاست پوری کرتی ہے جس کی تقریب گزشتہ روز نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں منعقد ہوئی ۔ نواز رضا کی کتاب اس حوالے سے اہم ہے کہ یہ بظاہر تو ان کے نوائے وقت کے لیے لکھے گئے کالموں کا مجموعہ ہے مگر بنیادی طور پر یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے جس میں زیادہ تر موضوعات مسلم لیگ ن، اس کے سیاسی قائدین اور ان کی طرز سیاست کا احاطہ کرتے ہیں۔
نیشنل پریس میں منعقد ہونے والی کتاب کی تقریب رونمائی میں اسلام آباد کی اہم سیاسی، سماجی اور صحافتی شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب کے دروان نواز رضا صاحب نے مجھے تقریر کی دعوت دی تو میں نے جہاں نواز رضا صاحب کی کتاب کے علاوہ ان کی شخصیت اور صحافت کے مختلوں پہلوں پر روشنی ڈالی وہیں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق چیئرمین سینٹ سید نئیر حسین بخاری اور تقریب میں موجود دیگر سیاسی قائدین کو کتاب لکھنے کا مشورہ بھی دیا۔ جسے کچھ خاص پسند نہ کیا گیا۔
اس کا جواب شاہد خاقان عباسی نے اپنی تقریر میں اس طرح دیا کہ سیاستدانوں کے پاس کتابیں لکھنے کے لیے وقت میسر نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کتابیں لکھنے کے لیے کتابیں پڑھنا ضروری ہے۔ کتاب لکھنا مطالعے کا تقاضہ کرتا ہے جس کا ہمارے سیاستدانوں سے دور دور کا  کوئی واسطہ نہیں۔ رہی بات وقت کی تو یہ بات سچ ہے کہ سیاستداوں کے پاس وقت نہیں کیوں کہ ان کا سارا وقت مہنگی گاڑیوں کی نمائش، غیر ملکوں ملبوسات اور پرفیومز کی شاپنگوں، لندن اور دوبئی کی سیروں، پراپرٹی کے کاروباروں اور شام کو ٹاک شو میں ایک دوسرے کے گندے کپڑے دھونے میں صرف ہو جاتا ہے تو مطالعے اور کتابیں لکھنے کے لیے وقت ہی کہاں بچتا ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments