حکومتی توہمات کا دوسرا رخ: اصل کردار کی رونمائی


حفیظ جالندھری نے، لگتا ہے حکومتی ترجمانوں کی ترجمانی کرکے، کہا ہے, “وہ ہوئے پردہ نشیں انجمن آرا ہو کر”۔ الفاظ صرف اظہار نہیں، سامع بھی مانگتے ہیں۔ جب الفاظ کی سانسیں گھٹ رہی ہوں تو پھر مزاحیہ پیرائے سے بہتر اظہار کا کوئی قرینہ نہیں۔ ون لائینر سوشل میڈیا کے مقبول تھیٹر میں امان اللہ اور عمر شریف کی حیثیت رکھتا ہے اور ون لائینر میں اپنے صولت پاشا کی مثال فرہاد جیسی ہے، جو قلم کے تیشے سے تلوار جیسے کاٹ دار جملے تراشتا ہے، جس پر تنک مزاج حکمران غصہ ہوکر بھی ہنس لیتے ہیں۔ جیسا کہ، جادو ٹونا اور کیا ہوتا ہے، کہ بندہ مزاروں کے چوکھٹوں پر سجدے بھی کرتا رہے اور وہابیوں سے ڈالر بھی لے آئے۔
کہتے ہیں جو سمجھ نہ آئے وہ جادو ہے جو سمجھ آ جائے وہ سائنس ہے۔ آج کل ملک میں جاری پروپیگنڈہ کے مقابلے میں جادو کون کر رہا ہے اور ابلاغ کی سائنس کا ماہر سپن ماسٹر کون ہے پتہ نہیں چلتا۔ عاصمہ شیرازی کے استعاراتی کالم سے، رنگین دھاگوں سے بندھے کالے بکرے بنی گالا کے چمن زاروں سے برآمد کرنا، اونچے سروں میں راگ درباری گانے والے سرکاری گویوں کا کمال نہیں، ان کے سرپرستوں کی زوال کی نشانی ہے۔ کیونکہ کہانی لکھنے والوں نے کہانی کے اختتام پر ساری بربادیوں کی ذمہ داری انکے تخلیق کردہ ایک پراسرار کردار کے سر ڈالنی ہے۔ تبھی تو کوتاہ بین سرکاری ترجمان بڑی معصومانہ انداز میں ‘اعتراف’ کرتا ہے کہ لانے والے بڑے سادے، احمق اور بیوقوف تھے ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے، اور دوسری طرف خان صاحب، حد درجہ ایمان دار، سیدھا سادہ، شرمیلا، کم گو اور کانوں کے کچے مشہور کئے گئے ہیں، ان کو پردے کے پیچھے سے جو کہا جاتا ہے وہ من و عن اس پر عمل کرتے ہیں، اور کرنے کرانے والی سب ‘پینڈورہ’ ہے۔ تھوڑا صبر کرے آپ کو ہر جرم کی ذمہ دار وہی ملے گی۔
مفتی اور نعیم الحق کی بات چیت کی لیک شدہ آڈیو ٹیپ میں بولنے والی خاتون ایک بہت چشم کشا سوال کرتی ہے کہ اگر عمران خان صاحب خاتونِ اول کی جنات کی طاقت سے وزیراعظم بنے ہیں تو انہوں نے اپنے پہلے شوہر کو کیوں وزیراعظم نہیں بنایا؟ کہانی کا اختتام یہ ہے کہ لوگ لانے والوں کو، برسوں محنت کرنے والوں کو، پارلیمنٹ کے حلف سے توہین تخلیق کرنے والوں کو، فیض آباد دھرنے میں فیض بانٹنے والوں کو، الیکٹیبل جمع کرنے والوں کو، لبیک والوں کو پنجاب میں سیاسی پاسنگ بنانے والوں کو، آر ٹی ایس بٹھانے والوں کو، جسٹس صدیقی کو قانون پڑھانے والوں کو، پانامہ سے اقامہ برآمد کرنے والوں کو بھول جائیں اور سب کو رنگین دھاگوں، کالے بکروں، بنی گالا کے راستے میں بندھے ہوئے لال کپڑوں، گوشت پر پلنے والے جنوں، نحس ساعتوں کی نحوست سے بچنے والی اور سعد ساعتوں کا انتظار کرنے والی پر ڈال دیا جائے۔
یہ ماننے والی بات ہے کہ پل پل اور فرد فرد کی خبر رکھنے والے خاتونِ اوّل کی نجی زندگی کی مصروفیات اور وزیراعظم صاحب کی توہمات سے بے خبر تھے۔ منو لال وفا نے سمندر کوزے میں بند کیا ہے۔
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں
ڈی جی آئی ایس آئی کی طویل ہوتی ہوئی تعیناتی نے جہاں حکمران کی ذہنی کیفیت آشکار کردی وہاں عوام کے سامنے ثابت کیا گیا کہ ہم سب کس مصیبت سے دوچار ہیں۔ جبکہ ان کی ایک ڈیوٹی ہے، اپنے پرائے کے معلومات اکٹھی کرنا اور بروقت استعمال کرکے فایدہ اٹھانا۔ یہی صورتحال تو آرمی چیف کی سروس کی توسیع کے وقت بھی تھی، لیکن اس وقت، جادوگر (سپن ماسٹر) خاموش تھا اور حزبِ اختلاف، اخبارات اور ٹی وی پر بیٹھے بقراطی تبصرہ نگار اور تجزیہ کار اسے حکومتی نااہلی اور وزیروں کی نالائقی پر محمول کرکے کہتے کہ دیکھو یہ لوگ چند سطروں پر مشتمل ایک سادہ نوٹیفکیشن تک ڈرافٹ نہیں کرسکتے، جبکہ اس وقت بھی آج کی طرح ستارے ناموافق، ساعتیں نحس اور گھڑیاں شنی کے قبضے میں تھیں۔ تب پہلے توسیع کی گیند حزبِ اختلاف کی کورٹ میں پھینکی گئی تاکہ حیض بیض کرکے وہ نحس گھڑیاں گذارنے میں مدد فراہم کرے۔ حزبِ اختلاف کی کورٹ سے پھر مسئلہ قانون کی کورٹ میں پیش کیا گیا، جہاں جان بوجھ کر غلطیوں بھری ڈرافٹیں کئی بار پیش کی گئیں اور واپس لی گئیں۔ وہاں سے حکم ملنے کے بعد پھر پارلیمنٹ کا سہارا لیا گیا اور پھر کہیں جاکر ستارے موافق اور ساعتیں سعد ملیں تو توسیع دی گئی۔
درج بالا جملوں سے ظاہر ہے کہ جس طرح آج ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار مان لینے اور اس کو استعمال نہ کرنے پر وزیراعظم کی ناراضگی اور اس لم لیٹ کو ان کے اصولی موقف کا اظہار کہا جائے، اسے ستاروں کی ناراضگی، کالے بکروں، رنگین دھاگوں، درختوں پر بندھے ہوئے لال کپڑوں اور گوشت پر پلنے والے جنات کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے، تو اس وقت کیا ہو رہا تھا، جب آرمی چیف کی توسیع کے وقت جب ستارے ناموافق تھے، جب راہو کے گھر میں شنی آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا، جب نحس گھڑیوں کے اختتام اور سعد گھڑیوں کی آمد کے انتظار میں کبھی حزبِ اختلاف، کبھی عدالت، کبھی پارلیمنٹ کے پیچھے توہمات پر مبنی فیصلہ چھپایا اور لیٹ کیا جا رہا تھا، اس وقت ایسی کیچڑ بھری کمپین کیوں نہیں چلائی جارہی تھی؟ آج کیوں عاصمہ شیرازی کے استعاروں کو سرکاری گالی پارٹی اشتعال دلانے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ ماضی میں جس کا ذکر بڑے فخر سے کیا جا رہا تھا کیا وہ ایک صفحہ نہیں رہا؟
وزیراعظم صاحب سے کبھی کچھ نہیں مانگا لیکن آج مانگتا ہوں، پلیز اپنی صفوں میں تلاش کریں کہ کون ڈبل ایجنٹ بھرتی ہوا ہے؟ جو استعارے کو تہمت اور کنائے کو توہین میں تبدیل کرکے خاتون اوّل کی ذات کو بحث کیلئے سوشل میڈیا کی بے رحم اور بدتمیز دنیا میں پیش کرتا ہے؟ کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں۔
شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments