کلچر اور مذہب


حضرت عمر رض کے دور میں ایران فتح ہوا۔ ایرانی مسلمانوں کا ایک وفد مدینہ اس شان سے آیا کہ سب نے عرب لباس پہنا ہوا تھا۔ حضرت عمر رض بڑے رنجیدہ ہوئے۔ بلکہ کوڑا لہرا کر ان کو کہا کہ یہ عرب کلچر ہے، اسلام کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ فوراً جاکر اپنا ایرانی لباس پہنیں۔ اپنے کلچر کو چھوڑنا اسلام اور ایمان کا حصہ نہیں۔

جب رسول اللہ نے نبوت کا اعلان کیا اور لوگ چوری چھپے یا علی الاعلان مسلمان ہونے لگے۔ ان کے نام وہی رہے جو اسلام لانے سے قبل تھے۔ محمد سے لے کر تمام صحابہ کے نام نہیں بدلے سوائے عبدالعزی کے۔ عرب ایک قدیم کلچر رکھتے تھے جو اگر چہ لکھا ہوا کم تھا لیکن اس زمانے میں سینہ بہ سینہ منتقل کرنا عام تھا۔ قرآن نازل ہوا تو دس کاتبین وحی لکھ کر ریکارڈ کرتے رہے۔ آپ ان کاتبین کو نازل شدہ سورۃ کی جگہ بتا دیتے اور یوں قرآن ہمیں باقاعدہ لکھی ہوئی شکل میں ملا۔ حضرت عثمان رض نے حفاظت کی نظر سے سارا قرآن جمع کیا اور اللہ کا ایک مکمل ہدایت نامہ وجود میں آیا اور باقی تمام نسخے نذر آتش کر دیے گئے۔

کیا اسلام نے عرب کلچر پر کوئی اثر ڈالا؟ نہیں، جب تک وہ اللہ کے بھیجے ہوئے اصولوں سے ٹکراتے نہیں تھے۔ بچیوں کو زندہ دفن کرنا ایک سیاہ دھبہ تھا عرب کی تاریخ پر ۔ وہ ختم ہوا۔ وہ اگر اپنا عمامہ (ثوب) لمبا چھوڑ کر غرور سے زمین پر گھسیٹتے جاتے تو آپ نے اس صورت میں منع فرمایا۔ عرب ممالک کی مالز میں اب بھی عرب نوجوان یہ لمبے لمبے ثوب گھسیٹتے نظر آتے ہیں۔ ان کا ہماری شلوار سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔ ویسے شلوار قمیض کی ابتدا مغلوں نے کی۔ جبکہ پتلون صلاح الدین ایوبی کی اختراع تھی اپنی فوج کے لئے۔ کردوں کی شلواریں اب بھی ہمارے آبا و اجداد سے ملتی جلتی ہیں۔

اسلام کون سے وہ اصول لے کر آیا جو اس وقت کے معاشرے کے لئے ضروری تھا۔ یہ اصولا انصاف، برابری، مساوات، رحم، انکساری، صفائی، سچ بولنا، صحیح شہادت دینا گو کہ وہ اپنے کسی قریبی رشتہ دار کے خلاف ہو۔ والدین کے حقوق، عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، غلاموں اور کنیزوں کے حقوق، مختصراً مطلب ایک زندہ، تعلیم یافتہ، ایک دوسرے کے کام آنے والے لوگوں پر مشتمل ایک معاشرہ وجود میں لانا تھا۔ کاروباری دیانت ایک ایسا اصول تھا جس کی وجہ سے مشرق بعید کی بہت بڑی آبادی صرف مسلمانوں کی تجارت دیکھ کر مسلمان ہوئی۔

وہاں کوئی بڑا غزوہ یا لشکر کشی نہیں ہوئی۔ یہ تھے اسلام کے بنیاد۔ جنہیں ہم سمجھتے ہیں اسلام کے پانچ بنیادی ارکان، وہ تو عبادات کے طریقے ہیں۔ صرف عبادات ہی اسلام کا حصہ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر پانچ وقت نماز فرض ہے اور جمعے کی نماز کا خطبہ حکمران اور رعیت کے درمیان ایک مواصلاتی ذریعہ ہے۔ لیکن اگر آپ سڑک پر صفیں بچھا کر نماز پڑھیں گے تو یہ نماز نہیں ہوگی۔ یہ ان سات جگہوں میں سے ایک جگہ ہے جہاں نماز نہیں ہوتی۔ اب رستے کی عظمت کو دیکھیں جو اتنے اہم نماز کو بھی خلق خدا کی زندگی آسان بنانے کے لئے قربان نہیں کی جا سکتی۔

آپ قرآن کو لے کر اس کی عملی تصویر بنے۔

یعنی اصل سنت وہی ہے جو قرآن کے کسی حکم کی پریکٹس ہو۔ تاہم آپ عرب بھی تھے۔ وہرائٹ ہینڈڈ تھے، اس لئے زیادہ تر کام داہنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ کھجور ایک عام کھاجا تھا، وہاں آم تھوڑی تھے۔ آب زمزم مکہ کے لئے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ ظاہر ہے اسی کے ساتھ استنجا کرتے، پاؤں دھوتے۔ تمام عرب مرد داڑھی رکھتے تھے اور اس میں مسلمان اور کافر کی تخصیص نہ تھی۔ ابوجہل نے بھی داڑھی رکھی تھی اور حضرت عمر رض نے بھی۔ منہ کی صفائی آپ کی سنت تھی دانتوں کے لئے اس زمانے یہی درخت کی تیلیاں ہوتی تھیں۔ اور نہانے کے لئے ہارڈ واٹر میں جھاگ بنانے کے لئے بیروں کے پتے تھے۔ عربوں شادی کے موقع پر لڑکیاں ڈھول کے ساتھ گانے گاتیں۔

مسئلہ وہاں سے شروع ہوا جہاں عام عرب کلچر کو اسلامی کلچر بنایا گیا۔ اب وہ چھوٹے موٹے روزمرہ کام تھے۔ ان کے کرنے کا بڑھا چڑھا کر فضائل بیان کیے گئے۔ جبکہ اسلام کے بنیاد یا اصول پس پشت ڈال دیے گئے۔ اب کاروبار میں بددیانتی پر ہمارے خطیب خاموش رہتے ہیں لیکن مسواک جیب سے جھانک رہا ہو تو خیر سے مسجد میں عزت بنی رہتی ہے۔ بے شک دوسرے مسلمان بھائی کو بھاری سود پر قرضہ دیا جائے اور پانچ وقت کی نماز باجماعت نہ چھوٹے تو خیر ہے۔

جوتے میں دایاں پاؤں پہلے ڈالا جائے پر ذخیرہ اندوزی جائز ہے۔ مہذب ممالک کی وجہ سے عالمی طور پر بستر مرگ کا بیان حتمی سمجھا جاتا ہے جبکہ یہاں زخمی پر دباؤ ڈال کر جان کنی کی صورت میں تمام ممکنہ دشمنوں کے نام شاہدین کی موجودگی میں ضرور شامل کئے جائیں۔ بے شک ملک الموت کو جان دیتے ہوئے غلط شہادت حلال سمجھتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ جس چچا زاد بھائی کا نام مرحوم نے قاتلوں میں شامل کیا تھا وہ تو ان دنوں دبئی میں تھے۔

اب جج حیران کہ بستر مرگ کے بیان پر یقین کرے یا پاسپورٹ کی شہادت پر ۔ پھر کہتے ہیں ہمارے مقدمے نسلوں تک چلتے ہیں۔ قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ جھوٹی گواہی دینے والوں سے کچہریاں بھری ہیں۔ مساجد بھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن خالص دودھ، گھی، مصالحے، اور دوسری اشیاء نہیں ملتیں۔ ہر سال عمرہ اور حج کے لئے جانے والے ڈرگز یا سونا سمگل کریں تو کوئی بات نہیں۔ حج اور عمرے سے آپ کی ساری مکاریاں اور دھوکے کیا معاف ہو جائیں گی؟

رمضان کے مقدس مہینے میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے جب تک تاجر بھائی تراویح میں قرآن کے ختم پر دیگیں پکائیں تو دودھوں دھلے بن جائیں گے۔ مسلمانوں کی بجائے غیر مسلم دکاندار اپنا منافع کم کر کے سیل لگا دیتے ہیں لیکن پھر بھی دوزخ ان کا مقدر۔ چوری کی بجلی سے چراغاں کر کے ربیع الاول منائیں، کالی کملی کی قوالیاں گا کر ان کی ساری بد دیانتی معاف۔

آج کل سوشل میڈیا کی کوئی ایسی پوسٹ نہیں ہوتی جس کے تھریڈ میں کہیں نہ کہیں مذہب کو گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ ہاں انسانی اخلاق کی کوئی قیمت نہیں جبکہ پائنچے اوپر کرنے، مختلف رنگوں کی پگڑیاں، داڑھیوں کی اقسام سے ہم ایسے صاف ہو جاتے ہیں کہ:

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔

اس وقت سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم سب کی زندگی دنیا کے سامنے ہے۔ تاہم اگر دنیا کی حکومتوں کو اسلام کے اصولوں پر پرکھا جائے تو کبھی آئرلینڈ اور کبھی ناروے سب سے زیادہ ”اصولی طور پر “ اسلامی حکومتیں قرار پاتی ہیں جبکہ ایک سو نوے ممالک میں سے پاکستان ماشاءاللہ انصاف کی فراہمی میں ایک سو ساٹھویں پوزیشن رکھتا ہے۔ ججز ہسپتال چلا رہے ہیں اور پیچھے لاکھوں مقدمے وکلاء کی وجہ سے دہائیوں چل ہو رہے ہوتے ہیں۔

اس وقت ہم نے اسلام کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا ہے کہ نئی نسل یہ تقریریں سن سکتی ہیں اور نہ مختلف مسائل میں کوئی جواب دے سکتی ہے۔ میری گزارش ہے کہ اب ذرا انسانیت کو بھی موقع دیا جائے۔ اچھے اعمال عالمی سطح پر مانے جاتے ہیں۔ جھوٹ کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ بے انصافی ہماری بنیادوں کو کھوکھلی کر رہی ہے۔ آئیے تھوڑی دیر کے لئے اسلام کا نام لئے بغیر اس کے اصولوں پر عمل کریں۔ ایک رحم دل، پر امن، تحمل، منصف مزاج اور باہمی محبت سے بھرپور معاشرہ تشکیل دینے میں مدد کریں۔ اس طرح سے نہ تو مذاہب اور مسالک کے اختلافات پس منظر میں چلے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments