سکردو میں خود کشی کا رجحانٍ


؎صحت کے بارے میں ہمارا روایتی تصور درست نہیں، ہم اس کو صحت مند سمجھتے ہیں جو بہ ظاہر ہٹا کٹا دکھائی دے اور خوش خوراک ہو۔ مگر حقیقت ایسی نہیں ہے۔ بدنی صحت ایک پہلو ضرور ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ذہنی اور نفسیاتی بالیدگی بھی نہایت اہم ہے ورنہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ بدنی بیماریوں کے لئے تو ہم بڑی تگ و دو کرتے ہیں بڑے سے بڑے ڈاکٹر اور ہسپتال کا انتخاب کرنے میں جلدی کر لیتے ہیں مگر ذہنی اور نفسیاتی خلل یا بیماری کو درخو اعتنا نہیں سمجھتے اور پتہ ہو تو بھی اسے ”انڈر دی کارپٹ“ یعنی چھپا دیتے ہیں۔ نفسیاتی الجھنوں کو سلجھانے کے لئے ہمارے پاس روایتی طور طریق یعنی تعویذوں کا سہارا ہے کیونکہ نفسیاتی ماہرین اس سے جڑے کلینک اور کون سی لنگ سنٹرز عنقا ہیں۔ بھوت پریت، جن، دیو اور بد روحیں ہمارے اساطیری کردار ہیں جو ابھی تک ہم سے چمٹے ہوئے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کی دوڑ میں معاشی تگ و دو میں انسانوں نے بہت کچھ حاصل کیا بھی ہے لیکن بے جا مسابقتی رجحان نے سماجی نظام کے تارو پود میں بڑے بڑے چھید ضرور ڈالے ہیں۔ سماجی اور اخلاقی قدروں کے اتھل پتھل ہونے، جلدی میں نام و نمود کی مجموعی خواہش نے بھی انسان کو اس کے اصل ڈگر سے ہٹا دیا ہے۔ پوری دنیا میں مذہب کو روحانی اور مادی زندگی میں توازن برتنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا مگر مذہبی رہنماؤں کی دوسروں کے لئے عدم برداشت اور جدید معاملات سے بے رخی کے رویے نے بھی لوگوں کو اس سے دور کر دیا ہے۔ ہمارے ملک میں تو پولیٹیکل اسلام نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ خیر یہ ایک لاینحل بحث ہے جس میں دونوں اطراف کے اپنے اپنے دلائل موجود ہیں۔

خود کشی کا عنصر انسان کی زندگی میں وقتی طور کا ہیجان ہے جو یک دم انگیخت پا کر عملی شکل اختیار کر جاتا ہے یا فطری طور پر ایسا کوئی میلان ہوتا ہے جو سرد سماجی رویوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ سائیکالوجی اور پیرا سائیکالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ خود کشی

کے مرکزی فیکٹر میں ذہنی بگاڑ، شخصیت کے تضادات، وراثتی بوجھ، سائیکو سوشل تناؤ، معاشرتی تنہائی، اظہار ذات میں رکاوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق 80 فی صد سے زائد خودکشی درمیانے اور کم آمدنی والے طبقات میں دیکھی گئی ہے۔

گزشتہ چار پانچ ماہ کے دوران سکردو اور گردونواح میں 08 سے زائد خود کشیاں منظر عام پر آئی۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے نوجوان تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔ زیادہ تر خود کشی دریائے سندھ میں کود کر کی گئی جو کہ شاید زیادہ سہل انداز ہے۔ ان واقعات کے پیچھے کیا محرکات تھے اس پر ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم امتحانات میں کم نمبر، والدین کی ڈانٹ ڈپٹ، نوجوانوں کی سوسائٹی میں کم حصہ داری اور دل کی جذباتی کیفیت زیادہ تر نمایاں ہیں۔

تعلیم اب کمرشل ازم کا شکار ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تعلیم اب منافع بخش عہدوں اور مخصوص شعبوں کی جانب راغب دکھائی دے رہی ہے۔ سوشل سائنسز کی بے قدری اور میڈیکل و انجینئرنگ کی چمک دمک نے بچوں اور والدین کو بے رحم مسابقتی دوڑ میں لا کھڑا کیا ہے جس میں پیچھے رہ جانے کی سزا بہت بری ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں کردار سازی کے بجائے نمبروں کی گیم کو اولیت حاصل ہے اور اس رجحان نے طلباء کی فطری صلاحیتوں کو گرہن لگا دیا ہے۔ کم عمری میں ہی ان کے دل و دماغ میں یہ بوجھ ڈالا جا رہا ہے کہ انہوں نے یہ بننا ہے وہ بننا ہے اس طرح ان کے فطری میلانات کو درہم برہم کر دیا جاتا ہے۔

دوسری طرف سماجی اور معاشی ناہمواریاں دن بہ دن معاشرے میں خلیج پیدا کر رہی ہے۔ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز، نوجوانوں کی سماجی معاملات میں کم حصہ داری اور دولت کی تکریم کی قومی سائیکی نے اخلاقیات کے معیار ہی بدل ڈالے ہیں۔

بلتستان کا معاشرہ مذہبی بنیادوں پر استوار ہے اور منبر و محراب کا یہاں کی سماجی معاملات میں بڑا عمل دخل ہے۔ لیکن سنجیدگی سے سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہم رسوم و رواج میں کچھ زیادہ مصروف ہو گئے ہیں اور دیگر معاشرتی معاملات سے کنارہ کش ہوئے ہیں جن کے نتائج معاشرتی بگاڑ کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ہم سب کو اپنی اپنی سطح پر احتساب کی ضرورت ہے ورنہ خطرے کی گھنٹی تو بج چکی ہے دیکھنا یہ ہے کہ ہم اسے کتنا سنجیدہ لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments