معذور خواتین اور لڑکیوں پر تشدد: مغالطے اور حقائق


معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور گھٹن نے پرتشدد واقعات میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔ پرتشدد واقعات کئی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ اس میں چوری ڈکیتی، جنسی و جسمانی زیادتی بھی شامل ہے اور گھریلو تشدد بھی شامل ہے۔ عام طور پر تشدد و زیادتی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جس پر ظلم ہوتا ہے اسے ہی ڈرایا جاتا ہے کہ تھانے کچہری جانے سے بدنامی ہوگی اور اس طرح ظالم کو مزید ظلم کرنے کی تقویت ملتی ہے۔

مختلف اداروں اور پولیس کی طرف سے دی جانے والی ہیلپ لائن پر اب کسی حد تک مظلوم آواز اٹھانا شروع ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی یہ تعداد انتہائی کم ہے۔ پرتشدد واقعات میں سب سے آسان ٹارگٹ کمزور طبقہ ہوتا ہے اور خواتین و بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ معذور خواتین اور لڑکیاں مزید آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں جن کی نہ تو کسی فورم پر آواز پہنچ پاتی ہے اور نہ ہی وہ اپنا دکھ کسی سے شیئر کر سکتی ہیں۔

معذور بچیوں کا سب سے پہلے تو والدین کی طرف سے استحصال ہوتا ہے اور انہیں دوسرے صحت مند بہن بھائیوں کی طرح تعلیم و صحت کے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ وہ مزید محرومی کا شکار ہوتی جاتی ہیں۔ ایک غلط تاثر ہے کہ معذور بچی کی شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے بچے بھی معذور پیدا ہوں گے ۔ معذور بچی کو جائیداد کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ والدین کے گزر جانے کے بعد بہن بھائیوں کے سہارے ہوجاتی ہے اور برابر کی حصہ دار ہونے کے باوجود علاج معالجے، دیکھ بھال اور دیگر سہولیات سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ سب پر بوجھ تصور کی جاتی ہے۔

اوباش اور با اثر جنسی درندوں کی ہوس کا شکار ہوتی ہے لیکن نہ کسی کو بتا سکتی ہے، نہ کوئی سنتا ہے اور نہ ہی کوئی یقین کرتا ہے۔ ابھی جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو ایک خبر آئی ہے کہ چنیوٹ کے علاقے ساڑمراد والا میں با اثر زمیندار کئی ماہ سے ذہنی معذور بچی سے زیادتی کر رہا تھا۔ بچی کا والد اسی زمیندار کے پاس مزارعہ تھا اور ماں اسلام آباد میں کسی کے گھر کام کرتی ہے۔ جب والد کام پر چلا جاتا تو زمیندار گھر آ کر بچی سے زیادتی کرتا۔

گزشتہ روز جب ماں گھر آئی تو بچی کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر ہسپتال لے کر گئی تو وہاں پتہ چلا کہ بچی حاملہ ہے۔ اسی طرح کچھ روز قبل سرگودھا کے نواحی گاؤں میں 13 سالہ گونگی بہری بچی سے زیادتی کا کیس سامنے آیا۔ بچی کے والدین کا کہنا تھا کہ پولیس نے زیادتی کی بجائے زیادتی کی کوشش کا مقدمہ درج کر کے ملزم کا ساتھ دیا ہے اور مبینہ طور پر پولیس صلح کے لئے مجبور کر رہی ہے۔ اس سے پہلے گوجرانوالہ میں ایک گونگی بہری لڑکی سے مسلسل زیادتی کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا جس میں پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا اور دوران تفتیش ملزم نے انکشاف کیا تھا کہ وہ اس سے پہلے متاثرہ بچی کو 6 ماہ کا حمل بھی ضائع کرا چکا ہے۔

چار ماہ پہلے اوکاڑہ سے ایک دردناک اور افسوسناک واقعہ سامنے آیا جس میں ایک کمسن معذور بچی سے زیادتی کی گئی اور جب بچی کی والدہ تھانے میں درخواست لے کر گئی تو تفتیشی افسر نے رشوت مانگ لی۔ جب میڈیا پر آواز اٹھی تو وزیراعظم نے نوٹس لیا اور ڈی پی او نے تفتیشی کو معطل کر دیا اور انصاف کے تقاضے پورے ہو گئے۔ تین ماہ قبل اگست میں لاہور کے علاقے ہربنس پورہ میں ملزم 15 سالہ معذور بچی کو ورغلا کر دکان میں لے گیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔

سات ماہ قبل مظفرگڑھ میں با اثر زمیندار کے بیٹے نے معذور بچی کو گن پوائنٹ پر زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی۔ ناجائز تعلقات نہ رکھنے پر ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ یہ چند واقعات ابھی چند ماہ کے ہیں اور ایسے لاتعداد واقعات گزشتہ کئی مہینوں میں سامنے آتے رہے ہیں۔ معذور بچیوں پر ہونے والے تشدد اور زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لئے اور ملزمان کو کڑی سزا دینے کے لئے خصوصی توجہ اور قوانین کی ضرورت ہے۔

عام طور پر تاثر یہی ہے کہ معذور لڑکی یا خاتون کو کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن حقائق اس کے بالکل خلاف ہیں۔ یہ پچھلے چھ ماہ کے رپورٹ ہونے والے واقعات چیخ چیخ کر معاشرے کی بے حسی، قانون کی عدم دستیابی، حکومت کی لاپرواہی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت کا چہرہ پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پر دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم بہت پرامن ہیں، ہمارے پاس قانون ہے، ہمارے پاس سیکیورٹی ہے لیکن معذور خواتین اور بچیاں بھی جہاں محفوظ نہیں ہیں وہاں محض نعروں اور دعووں سے ہم دنیا کے سامنے اچھے نہیں بن سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments