مکان اور ستارے میں پرواز کی تیکنیکی دشواریاں


(ڈاکٹر ابرار احمد کے لئے جولائی 2012 میں لکھی ایک نظم)

ابرار احمد ایک خوش رنگ پرندہ ہے
منجمد جھیلوں سے گرم ساحلوں کی طرف اڑان بھرے
اسے نصف صدی سے زیادہ وقت گزر چکا
اس کے پروں میں ماوراالنہر کی روئیدگی جھلکتی ہے
اس کی آواز میں خلیج بنگال کی لہریں الاپ کرتی ہیں
چولستانی ریت کے ذرے اس کی آنکھوں کا حصہ بن چکے
اس کے بالوں سے محروم ہوتے فراخ سر میں
اوقیانوسی جزیروں کے موتی ٹکے ہیں

بادلوں سے کچھ اوپر
نیلی چادر کے پس منظر میں
اور گاہے برف کے گالوں میں پر پھیلائے
اسے پرواز کرتے دیکھنا
گرم ہواﺅں میں بارش کا امکان محسوس کرنا ہے

اس کے بائیں پاﺅں میں شناخت کا چھلا
بہت پہلے زائد از میعاد ہو چکا
وہ ایک جلاوطن ہے
جسے کمرہ عدالت میں بلائے بغیر سزا سنائی گئی
اس نے حیرت، محبت اور ہجرت کے استعاروں میں بسی
سطر لکھنے کا جرم ترک نہیں کیا

دلیل ایک نوجوان مقامی چڑیا تھی
اجنبی پرندے کی محبوبہ
جو پہروں اس کے پروں میں چونچ پھیرتی تھی
عدالت کے احاطے میں ایستادہ برگد کی کھکھل میں
اب صرف چند تنکے باقی ہیں
محبوب چڑیا کی کوئی خبر نہیں
گم شدہ ناموں کی فہرست میں پرندوں کوشامل نہیں کیا گیا
اگر برف پگھلی تو رحم دل شہزادے کے پیروں میں
چڑیا کی یخ بستہ لاش نہیں ملے گی
یہ شہر نیک انسانوں کے مجسموں سے خالی ہے

ابرار احمد!
ہمیشہ دو نقطوں کے درمیان
بغیر رکے اڑتے رہنے سے تھکن طاری ہو جاتی ہے
اگر چاہو تو میری ہتھیلی پر آن اترو
میں تمہارے سینے کی حرارت محسوس کرنا چاہتا ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments