کیا بلوچستان ایک ٹریلر اور فلم باقی ہے؟


بلوچستان صوبائی اسمبلی نے نئے قائد ایوان کو منتخب کر لیا ہے، عبدالقدوس بزنجو نے 2018 ع کی طرح اس بار بھی 65 ممبران کے ایوان میں سے 39 ووٹ حاصل کرنے کے بعد وزیراعلیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال سے وہی ہاتھ ہوا جو اس سے پہلے سابق وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کے ساتھ ہوا تھا۔ ثنا اللہ زہری مسلم لیگ نواز کے منتخب وزیراعلیٰ تھے ان کا دھڑن تختہ کرنے والے کا نام بھی میاں نواز شریف نے بھری محفل میں لیا تھا کہ کس طرح ساوتھ کمانڈنگ کی سربراہی کرنے والے شخص پاپا جون پیزا والے نے ان کے خلاف سازش کی تھی۔

گھڑی کی سوئی پھر اسی جگہ پر آ کر اٹک گئی اور اس بار نشانہ بنے وفاقی حکومت کے اتحادی باپ پارٹی والے جناب جام جمال صاحب۔ وزیراعظم عمران خان اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود بڑے اتحادی جام کمال کی کرسی بچانے میں ناکام رہے۔

حکومت معاشی، داخلی و خارجی مقامات پر بدترین ناکامیوں کا سامان سمیٹنے کے باوجود ان کو کامیابیاں گردانتی رہی ہے، حکومت اور ان کے مشیران و ترجمان حکومتی کامیابیاں گنوا کر نہیں تھکتے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔

خانصاحب پہلے تو جام کمال کو ڈٹے رہنے کا مشورہ دیتے رہے، آخر میں ان کو بچانے میں ناکام ہوئے تو اور چال چلنا شروع ہوئے انہوں نے بلوچستان کی حکومت میں رہنے کے لیے اپنے اصولوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور باپ پارٹی کے نئے قائد ایوان کو بھی حمایت کردی۔ جام کمال کو بچانے کی کوششوں میں خان صاحب ناکام ہوئے، اور اس ناکامی کو کامیابی کا نام دینے کے لیے انہوں نے نئے وزیراعلیٰ کی حمایت کر ڈالی اور تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند صاحب کو بھی بزنجو صاحب کی حمایت پر مجبور کر دیا۔

جام کمال کو مزید کمالات دکھانے کے لیے صوبے کی سب سے بڑی کرسی پر ٹکانے میں ناکام وزیراعظم کی یہ ناکامی آخری سیاسی ناکامی ہے یا ناکامیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا چاہتا ہے؟ جب میں سیاسی شکست کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد یہ کہ اب لگتا ہے کہ عمران خان دوسروں کو بچانے کی پوزیشن میں نہیں رہے اب تو شاید عمران خان کی خود کی کرسی کمزور ہونے لگی ہے، اقتدار ان کی مٹھی سے ریت کی طرح نکل رہا ہے۔

ویسے بھی اسلام آباد کی فضا تبدیل ہو چکی ہے، معاملات کو خراب تو اس نوٹیفیکیشن نے کیا جو تین ہفتوں تک وزیراعظم ہاؤس میں ٹیبل کے دراز میں پڑا رہا، وہا وہ ہی جس کا اعلان چھ اکتوبر کو ہوا لیکن پھر اتنی دیر جو ہوئی اس کا تو حساب ہونا ہے۔ اب تو وہ نوٹیفکیشن جاری ہو چکا اور وزیراعظم خان کو فیس سیونگ کے لیے یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے من چاہے، دل کے دلبر و دلربا اور سب سے بڑے سہولت کار کو مزید ایک ماہ تک اس عہدے پر برقرار رکھ سکتے ہیں جسے وہ چھ ماہ تک وہیں پر دیکھنا چاہتے تھے رکھنا۔

نوٹیفیکیشن کے بعد کوئی ایک ماہ مزید رہے یا دو تین ماہ لیکن اس کی گرفت نہیں رہتی کیوں کہ کام اسی کو چلانا ہے جو آنے والا ہے، جانے والے کی حیثیت علامتی ہوتی ہے، اب یہ سادہ سی بات وزیراعظم کو کیوں سمجھ میں نہیں آتی؟

اے ڈی جی کے نوٹیفیکیشن اور وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیہ کو اگر غور سے پڑھا جائے تو لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان یہ باور کروا رہے ہیں کہ انہوں نے سب سے زیادہ طاقتور عہدے کے امیدواران کے انٹرویوز کیے ہیں، جمہوری نظام اور سویلین بالادستی میں وزیراعظم کی طرف سے کہی جانے والی یہ بات اہم اور جمہوری نظام کے لیے نیک شگون ضرور ہے لیکن یہاں پر یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ کیا عمران خان ملک کے پاپولر لیڈر ہیں؟ کیا عمران خان عوام کے حقیقی منتخب نمائندہ ہیں؟

کیا عمران خان کا انتخاب شفاف انتخابات سے ممکن ہوا؟ کیا ان کو سلیکٹڈ کا طعنہ جھوٹا ہے؟ اگر انٹرویو والی بات سچ ہے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اب آئی ایس آئی کے سربراہ کا انٹرویو لینے کی ایک نئی روایت پڑ چکی ہے، امید ہے کہ مستقبل کے ہر وزیراعظم اس روایت کا پاس رکھیں گے۔ لیکن کیا یہ بات راولپنڈی کو منظور ہوگی؟ یا آگے چل کر اس اعلامیہ کی نفی کی جائے گی؟

ہم نوٹیفیکیشن سے تھوڑا آگے سوچتے ہیں، بلوچستان میں جو تبدیلی آئی اور دل پر پتھر رکھ کر اسے قبول کرنے والے وزیراعظم کو مستقبل میں کیا نظر آ رہا ہے؟ کچھ نظر آ بھی رہا ہے یا جھوٹی سچی رپورٹس پر چلنے کا خود کو عادی بنا لیا ہے اور سب اچھا کی رپورٹ پر عمل پیرا ہیں؟ جو بھی ہو لیکن گزشتہ تین چار ہفتوں کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد کے بیچ جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے، ایسا کبھی ہوا نہیں، اسے پنڈی کبھی تسلیم نہیں کرے گا اور نا ایسا مستقبل میں ہونے دے گا، عمران خان صاحب نے جو کچھ کیا ہے وہ ایسا زخم ہے جو راولپنڈی ہمیشہ اپنے دل پر محسوس کرتا رہے گا اور جب تک عمران خان سے اس کا بدلہ نہیں لیا جاتا وہ زخم تازہ ہی رہے گا۔

اگر اس تناظر میں بلوچستان میں سویلین کمانڈ یعنی وزیراعلیٰ کی تبدیلی کو دیکھیں تو بھی اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہے کہ یہ ایک شروعات ہے، جسے دوسرے الفاظ میں عمران خان اور ان کی جماعت کے برے دنوں کی شروعات بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس کا منطقی انجام کیا نکلے گا لیکن آپشن کیے ہیں، ہم باقی سب آپشن چھوڑ دیتے ہیں سب سے پہلے ووٹ کو عزت دو یا آئینی آپشنز کی بات کرتے ہیں۔

یوں تو ہمیشہ ہمارا پیارا وطن نازک حالات سے گزرتا رہا ہے، لیکن اب کی بار حالات نازک سے نازک تریں ہو چکے ہیں، ڈالر کی اڑان سے لے کر مہنگائی کے طوفان تک، عالمی تناہی کا شکار ہونے سے لے کر داخلی چیلنجز سے نمٹنے کی ناکامی تک کے معاملات ہیں میں حکومت نے نہ کوئی مہارت دکھائی نہ اپنے دعوؤں کا پاس رکھ سکی۔

وہ ماہرین اب نظر نہیں آتے جن کے حوالے سے انتخابی جلسوں میں بڑے دعوے کیے جاتے رہے کہ ایک سؤ دنوں میں ملکی حالات بدل کر رکھ دیں گے، اب ہم غریب ملکوں کو امداد دیں گے، دوسرے ممالک سے لوگ ملازمتوں کے لئے پاکستان آئیں گے، دنیا میں ہرے پاسپورٹ کی عزت بحال کروائیں گے، وہ سب باتیں آدھی ادھوری رہ گئیں۔ لیکن اب کیا کیا جائے جب ریاست کی عملداری کو روندتا ہوا ایک مسلح جتھا لاہور سے اسی طرح نکلا ہے جس طرح کبھی خان صاحب اور قادری صاحب خود اسلام آباد کو چڑھ دوڑے تھے، اب کی بار تو اسلام آباد اور راولپنڈی کے تاجر سڑکوں پر ہیں، پی ڈی ایم کی ہلکی پھلکی تحریک جاری ہے، پیپلز پارٹی نے بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج برپا کیا ہوا ہے، اس صورتحال میں حکومت کسی نتیجے پر پہنچ نہیں پا رہی ہے، ملک ہیجان، افراتفری اور غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے اور وزرا، مشیران اور ترجمان سب اچھا ہونے کی ڈھارس بندھا رہے ہیں لیکن سب کچھ خراب ہو رہا ہے۔

مذہبی ٹولا جو پنجاب کے راستوں پر ہے جسے ماضی میں میان نواز شریف کو دباؤ میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا اب کی بار اسے کون میدان میں لایا ہے اور اب ہدف کون ہے؟ یہ بات تھوڑی مبہم بن جاتی ہے کیوں کہ اس ٹولے یا تنظیم اور عمران خان کو اقتدار پر لانے والے لوگ ایک ہی ہیں تو اب ان کو راستوں پر لاکر کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ وہ بھی دور تھا جب عمران خان اور اس کے ساتھی اس کالعدم جماعت کے احتجاج کی حمایت کرتے رہے ہیں، شاہ محمود قریشی ان کے دھرنے میں بیٹھے دکھائی دیتے رہے ہیں، شیخ رشید ان کا استقبال کرتے رہے ہیں، خانصاحب خود ماضی میں کہتے رہے ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان والے ہمیں جوائن کرنا چاہتے ہیں، جب نواز شریف کے خلاف یہ ٹولہ میدان میں تھا تو ان کو تحریک انصاف عاشقان کے نام سے پکارتی تھی اب انہیں دہشتگرد، انتہا پسند اور کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے جو بھی ہو تحریک انصاف کو یہ واضح کرنا چاہے کہ وہ پہلے غلط تھے یا اب غلط ہیں؟

بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ کو کیسے بنا کر میدان میں اتارا گیا، ان کی قیادت کے قائد کون تھے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن اب کی بار وہ باپ اور ان کے باپ اتنے کمزور کیسے پڑ گئے کہ اپنے وزیراعلیٰ کو بھی بچا نہیں پائے؟ وزیراعظم عمران خان جام کمال کو بار بار ہدایات دے رہے تھے کہ ڈٹے رہنا کوئی استعفی نہیں دینا، لیکن وہ حربے نہ چل سکے، شاید اصلی باپ نے باپ پارٹی کے سر سے ہاتھ اٹھا لیا اور جام کمال کو استعفی دینا پڑ گیا۔

اس صورتحال میں جو اہم سوالات جنم لے رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ بلوچستان میں جو کچھ شروع ہوا ہے اس کا اختتام وفاق پر ہو گا؟ کیا اگلی باری پنجاب کی ہے؟ کیا عمران خان حکومت کو اقساط میں گھر بھیجا جا رہا ہے؟

کئی اہم لوگوں کی نواز شریف سے ملاقاتیں ہونے کے اطلاعات بھی مل رہے ہیں، مسلم لیگ نواز نئے انتخابات کا مطالبہ کر چکی ہے، نئے انتخابات اس صورت میں ممکن ہیں جب اس حکومت اور اسمبلیوں کا خاتمہ ہو؟ کیا عمران خان صاحب اسمبلیوں کو توڑ کر خود نئے انتخابات کی طرف جانا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب نا میں اس لیے ہے کہ انہوں نے عام لوگوں کے لئے جو مشکل حالات پیدا کیے ہیں، ان کو جس تکلیف میں ڈالا ہے اس صورت میں وہ ووٹ لینے کے لیے انتخابی حلقوں میں بھی نہیں جا سکتے۔

تو لازمی بات ہے عمران خان چاہیں گے کہ یہ سسٹم جب تک کھینچا جا سکے تب تک کھینچا جائے، اب تو ای ووٹنگ سسٹم، نیب چیئرمین، اور ٹارگٹڈ انتقام بنام احتساب والے منصوبے بھی ادھورے رہ جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اگر اپوزیشن نئے انتخابات چاہتی ہے تو اس کے لیے آئینی طریقہ کار وزیراعظم کی حکومت کو گرانا ہی بچتا ہے اور اس کے لئے عدم اعتماد تحریک ہی سادہ سا فارمولہ ہے جس پر اپوزیشن اکٹھی بھی ہو سکتی ہے کیوں کہ یہ تجویز پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات کے وقت سے دے رہی ہے شاید اب اس پر عمل کا وقت آ چکا ہے۔ اور جس طرح کی صورتحال بنتی دکھائی دے رہے عین ممکن ہے اس تجویز پر حزب اختلاف اتفاق بھی کر لے لیکن یہ نسخہ وفاق سے پہلے پنجاب میں آزمایا جائے گا۔

پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سات اراکین ہیں لیکن پیپلز پارٹی جس اعتماد کے ساتھ بات کر رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ ان کا یہ فارمولہ کام دکھا جائے گا کیوں کہ اس کے کئی اور فیکٹر بھی ہیں، پنجاب اسمبلی 371 ارکان پر مشتمل ہے، اس میں پی ٹی آئی، ق لیگ اور دیگر اتحادی ممبران کی تعداد 195 ہے جن پر حکومت قائم ہے۔ اس بریک اپ کو یوں دیکھتے ہیں پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 184 ممبران ہیں، ق لیگ کے دس اراکین ہیں، چار آزاد ارکان بھی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔

اگر پنجاب حکومت یعنی عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد تحریک لائی جاتی ہے تو اس کو کامیابی کے لئے 186 ووٹ درکار ہوں گے۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے 165 ممبران اور پیپلز پارٹی کے پاس سات اراکین ہیں، یہ کل ملا کر 172 بنتے ہیں۔ ان حالات میں جہانگیر ترین کے فیکٹر کو دیکھنے کی شدید ضرورت ہے پھر ق لیگ اڑن چھو کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہے، اگر ق لیگ کے ممبران حکومت مخالف بن جائیں اور جہانگیر ترین کے حامی غیر حاضر ہوجائیں اس صورت میں پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کہاں کھڑی ہوگی؟

اس کے بعد اگر قومی اسمبلی کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو اس ایوان میں بھی ق لیگ، ایم کیو ایم، باپ اور جی ڈی اے کے سہارے سے عمران خان وزیراعظم بنے ہوئے ہیں، یہ تمام وہ جماعتیں ہیں جن کو ایک اشارے کی ضرورت ہوتی ہے، سیاست، اصول، نظریہ، منشور ان کے آگے کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، اگر کل ہی یہ سب ایک پیج پر آ جائیں تو عمران خان اسمبلی میں تو کیا اس ملک میں بھی نظر نہیں آئیں گے۔

قومی اسمبلی میں 342 ممبران پر مشتمل ہے اور حکومت کے پاس اس وقت 178 سے 180 اراکین ہیں۔ سادہ اکثریت کے لیے حکومت کو 172 ممبران درکار ہیں اگر کل قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ہے تو حزب اختلاف کو 13 ممبران کی ضرورت پڑے گی۔ یہاں بھی جہانگیر ترین فیکٹر، اتحادیوں کے حالات اور اپوزیشن کے مستقبل کو دیکھ کر اڑان بھرنے والے ممبران کی پوزیشن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدم اعتماد تحریک کامیاب ہو جائے گی، عدم اعتماد تحریک کی کامیابی کو دیکھ کر عین ممکن ہے عمران خان پہلے ہی استعفی دے کر گھر چلے جائیں اور ملک میں نئے انتخابات کا اعلان ہو جائے۔ یہ تمام فارمولے زیر غور ہیں اور ہو سکتا ہے ان پر جلدی عملدرآمد بھی شروع ہو جائے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments