مناط ( افسانے )۔


افسانہ نگار۔ مطربہ شیخ
مقالہ :: راشد جاوید احمد

اردو افسانہ اپنی پیدائش سے اب تک نت نئے تجربات کی زد میں رہا ہے اور اس کی پہچان اور وسعت میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے جدید دور تک اور پھر آج بھی افسانے میں کئی تجربات ہو رہے ہیں۔ فکشن نگار اپنے زمانے کے حالات، مسائل، موضوع، تکنیک، اسلوب، کردار، زبان اور بیان، میں تجربات کرتے آئے ہیں اور اس لحاظ سے مختلف بھی نظر آتے ہیں۔ مطربہ شیخ بھی ان افسانہ نگاروں کی صف میں آ کھڑی ہوئی ہیں۔

ادب اور محبت سے مجھے بھیجا گیا یہ افسانوں کا مجموعہ محترمہ مطربہ شیخ کی کاوش ہے۔ اور یہ کاوش کافی جرات رندانہ لئے ہوئے ہے۔ اس مجموعے میں اکیس افسانے ہیں اور ایک درجن افسانچے۔ میں نے ان سب کا مطالعہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ان پر بات کی جا سکتی ہے۔

ابراہیم اور ردابہ : اس مجموعے کی سب سے پہلی کہانی ہے۔ پدر سری معاشرے میں مرد اپنی اہمیت اور حاکمیت جتانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں اور ایسا موقعہ دور سے ہی سونگھ لیتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اور یہی اس افسانے کا موضوع ہے۔ گھوڑا تو بہت معمولی چیز ہے۔ کہانی کا امیر زادہ بیوی کی جس بات کو بھانپ گیا تھا اس کے لیے تو جہاز بھی خرید سکتا تھا۔

لڈو کی ٹوپی :: انسانوں کے انسانوں کے ساتھ جعلی روابط اور تعلقات پر ایک روایتی قسم کا افسانہ ہے۔

کڑوے سیب :: بھوک پیٹ کی ہو یا جسم کی اگر مٹ نہ سکے تو کافی برا حال کرتی ہے۔ اس کہانی کی مرکزی کردار کو کچھ ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے جسے بہت خوبصورت قلم سے تخلیق کیا گیا ہے تاہم کہانی میں کچھ واقعاتی کمزوریاں موجود ہیں جیسے کہ بنک میں فی الفور ملازمت ملنا۔ اور پھر گاڑی بھی حاصل کر لینا۔ ایک گاہک کو پہلی ہی ملاقات میں بنک کی بجائے اپنی جیب سے قرض فراہم کرنا وغیرہ۔

باکرہ :: اپنے موضوع اور ٹریٹمنٹ کے حوالے سے بہت خوبصورت کہانی ہے۔ کہانی کے اندر پوشیدہ مسئلے کو جس عمدگی سے حل کیا گیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔

روشن ہے نظریہ :: اس میں کسی نظریے کی کوئی تشریح نہیں کی گئی اور کہانی میں کہیں فٹ بھی نہیں ہوتا۔ آبائی گھر کو بیچنے کے لیے گھر کا ایک فرد بیرون ملک سے آتا ہے جس کا بظاہر کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ یہ کام وہ وہاں سے بھی کر سکتا تھا۔ میری نظر میں یہ ایک کمزور کہانی ہے۔

نوادرات:: یہ افسانہ بظاہر تو کرونا وبا کے پس منظر میں لکھا ہوا لگا تھا لیکن پھر کسی اور طرف چلا گیا۔ مرکزی کردار ایک امیر کبیر شخص ہے لیکن منشی کی بیٹی سے اس کی شادی سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسے شخص ان معاملات میں ماں کی بھی نہیں سنتے۔ رہا نوادرات کا شوق، تو ایسے متمول شخص ہی نوادرات سمیت سب کچھ خریدنے کے اہل ہوتے ہیں۔

پرانا گدا :: لوئر مڈل کلاس کے ملازم پیشہ لوگوں کی زندگی گزارنے کے ڈھنگ، اخلاقیات اور نفسیات کو اس کہانی میں بہت عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

آدھا پہاڑ :: افسانہ نگار کے مشاہدے کا اچھا نمونہ ہے۔ پرکھوں کی وراثت ہو یا بغیر محنت کے پیسہ حاصل ہو تو رشتوں کا خون ہی ہوتا ہے۔ یہ کہانی ایسے ہی لوگوں کا کچا چٹھا کھولنے والی کہانی ہے۔

لوم :: اس افسانے میں افسانہ نگار نے جو واقعات دکھائے ہیں ان میں کہیں کہیں تضاد نظر آیا ہے۔ لوم اوپریٹر کہتا ہے کہ لوم کی خرابی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔ لیکن معافی مانگنے باس کے گھر آتا ہے۔ لوم کی خرابی کی اصل وجہ بھی سامنے نہیں لائی گئی۔ لوم اوپریٹر، جنرل مینیجر سے کہتا ہے کہ لوم گودام میں پھرنے والا چوہا جنرل مینیجر کا وہم ہے جبکہ بڑی محنت مشقت کے بعد چوہا مار بھی دیا جاتا ہے۔ لوم اوپریٹر کا معافی کے بعد واپسی میں ٹریفک حادثے میں مر جانا اور جنرل مینیجر کی ماں کا حادثے بارے خواب دیکھنا۔ سمجھ نہیں سکا کہ اس کہانی کی مقصدیت کیا ہے۔

شبن کی دلہن :: یہ شاید اس زمانے کی کہانی ہے جب لوگوں کو علم نہیں تھا کہ ڈیپ فریزر بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ بجلی کے آلات، حادثات کا باعث بنتے ہیں لیکن کسی با ہوش و حواس انسان کا ڈیپ فریزر میں بند ہو جانا اور مر جانا، حیرت کی بات ہے۔ ہاں یورپ امریکہ کی جرائم پر مبنی فلموں میں ایسے واقعات ملتے ہیں۔

کتے والا بشر :: دو کہانیوں کو ایک کہانی میں ضم کرنے کی کوشش لگی ہے مجھے۔ وبا کا اب جہاں کہیں بھی ذکر آئے گا اسے کرونا ہی سمجھا جائے گا۔ وبا کے ساتھ مذہبی دہشت گردی اور مخالف مسلک کے بندے مارنے کی بات غالباً پڑوسی ملک کی ہے۔ اس کے نتیجے میں جو انسانی رویے تشکیل پاتے ہیں انہیں اجاگر کیا گیا ہے۔ نظر ثانی سے ایک اچھی کہانی بن سکتی ہے۔

گل لالہ :: آج کے دور کی تازہ بہ تازہ کہانی ہے۔ حامد جیسے لوگ اپنی اصل زندگی میں اتنے ہمت والے نہیں ہوتے جتنے سوشل میڈیا پر دکھائی دیتے ہیں۔ فیس بک یا میسنجر پر جنس مخالف کی کسی بھی حرکت یا کو منٹ کو حوصلہ افزائی سمجھ کر غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی اخلاقیات بگڑ جاتی ہے۔ عمدہ کہانی ہے۔

تسخیر :؛ یہ افسانہ آنے والی کل کا افسانہ ہے۔ مطربہ شیخ نے بھانپ لیا ہے کہ کمپیوٹر سائنس کی ترقی اور وسعت کا گراف اوپر ہی کی طرف جا رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب افسانوں کے مرکزی کردار کسی چپ کی وجہ سے روبورٹس کی طرح سماج میں چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔

مسترد:: کہانی کا بیانیہ اچھا ہے۔ کوئی مرد بھلا کتنا بھی مسترد کیوں نہ کیا جائے وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا جو اس کہانی کے مرکزی کردار نے کی۔ کم از کم کوئی مرد تو ایسا نہیں کرے گا۔ ریپ منٹیلیٹی کا مسترد یا منظور ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔

الماری:: مڈل کلاس کے میاں بیوی کی کہانی، ان کے مسائل سے آگاہ کرتی ہوئی لیکن تواتر سے جن حادثوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کا کہانی میں کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ الماری جب اپنے پاؤں پہ درست طور پہ کھڑی نہیں ہو پا رہی تھی تب ہی پتہ چل گیا تھا کہ یہ افسانے کو بھی حادثے کا شکار کر دے گی۔

جرات اظہار :: انسان میں جینز کی منتقلی جس خاموشی سے ہوتی ہے وہ اس افسانے سے عیاں ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار فطری طور پر ایک کمزور شخص ہے۔ فرائض منصبی کی ادائیگی میں تو بہت چست ہے لیکن جنس نازک سے بات کرنے میں بہت ہچکچاہٹ سے کام لیتا ہے۔ یہ بھی ایک وراثتی جبر ہے ورنہ کسی بھی خاتون سے اس کی مرضی پوچھنا نہ غیر اخلاقی ہے نہ اس میں کوئی قباحت ہے۔ اس موضوع کو بہت عمدگی سے لکھا ہے مطربہ شیخ صاحبہ نے۔

سابقہ :: یہ کہانی دو کلاس فیلوز کے آپسی تعلق کی ہے جس میں ان کے جسمانی تعلق کا ذکر ہے۔ ضروری نہیں کہ جسمانی تعلق کے پیچھے محبت بھی ہو۔ جسم کے اپنے تقاضے ہیں۔ عنوان کہانی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔

کدال :: ایک بہت اچھا افسانہ ہے۔ کرونا وبا کے ذکر کے بغیر بھی یہ ایک اچھی کہانی ہی ہوتی۔ لکھا تو اس موضوع پر بھی بہت گیا ہے لیکن ایک تازگی ہے اس کے بیانیے میں۔ کسی سیاسی جماعت کا یا جعلی حکمران طبقے کے کسی فرد کا قول دہرانا اور مذہبی تعلیمات سے سند لانا، افسانے کو مجروح کرتا ہے۔ ان کا ذکر اگر ضروری تھا تو بین السطور ہونا چاہیے تھا۔

ذات کی کٹیا :: آج سے تیس، چالیس برس قبل اس قسم کے افسانے لکھے جاتے تھے اور وہ بھی خواتین کے قلم سے۔ حالات تو آج بھی ایسے ہیں لیکن یہ موضوع بہت گھسا پٹا ہے اور میرے خیال میں اس کو نئے طریقے سے لکھنا کار دارد ہے۔ البتہ اس کہانی میں ایک کمزور سا پیغام ہے کہ لڑکیوں کو شادی کی نسبت تعلیم اور پھر معاشی آزادی پر زیادہ توجہ دینا چاہیے لیکن یہ پیغام اس کہانی میں اگر جلی حروف میں ہوتا تو اچھی کہانی بنتی۔ روایتی افسانہ اور روایتی بیانیہ ہے۔

خواہش :: بہت خوبصورت کہانی ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں ”فاصلہ“ رکھنے اور بن مانگے کی مہربانیوں کو دھتکارنے کا عمدہ سبق ہے۔ یہ کہانی ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو عورت کی ناں کا کچھ اور مطلب لیتے ہیں۔ عورت جب ”ناں“ کہتی ہے تو اس کا مطلب ناں ہی ہوتا ہے۔ اس افسانے کے لیے داد۔

مناط :: اس افسانے کے نام پر ہی کتاب کا نام رکھا گیا ہے۔ اس میں بھی کرونا گھس آیا، بلکہ پوری طرح چھا گیا اور پھر حالات بہتر بھی دکھائے گئے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار والد کی وفات کے بعد مستقل ملک میں رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تو ظاہر ہوا کہ مناط بھی وہیں کی باسی ہے۔ آج کے دور میں مرد عورت جنسی آسودگی یا جسم کی بھوک مٹانے کے لیے وقتی سمجھوتے کرلیتے ہیں۔ شاید آج سے سینکڑوں برس پہلے سے ایسا ہو رہا ہو۔ لیکن سوشل میڈیا اور کچھ روشن خیالی نے اب ان کو پردے میں نہیں رہنے دیا۔

کئی افسانوں میں یہ تعلق یا اولڈ ایج گیپ رومانس، ڈھکے چھپے لفظوں میں ملتے ہیں لیکن مطربہ شیخ نے یہاں جرات رندانہ سے کام لیا ہے لگی لپٹی رکھے بغیر اور یہ ایک قابل تحسین کام ہے۔ ہاں کہانی میں پارک میں ملنے والی عورت والا قصہ غیر ضروری لگا اور افسانہ طوالت کا شکار ہوا۔ اس کے بغیر افسانہ زیادہ سمارٹ بنتا۔

اس کتاب کا ایک ایک افسانہ اس بات کا گواہ ہے کہ افسانہ نگار، مطربہ شیخ، ماڈرن سینسبیلٹی کی مالک ہے۔ مشاہدے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ افسانوں کے محل وقوع کی مکمل تفصیلات سے آگاہ ہے۔ کرداروں کی نفسیات، ان کے رویے، مزاج، کمزوریوں، شوق، پسند نا پسند کو اس طریقے سے افسانوں میں سمویا گیا ہے کہ یہ کردار تخلیق نہیں کیے گئے بلکہ مطربہ کے ارد گرد موجود ہیں اور وہ شطرنج کے مہروں کی طرح جس کردار کو چاہتی ہیں افسانے میں درست طور سے فٹ کرتی جاتی ہیں۔

یہ بہت خوش آئند ہے کہ آج کی خواتین افسانہ نگاروں نے ساس بہو اور کہانی گھر گھر کی قسم سے افسانے لکھنے بند کر دیے ہیں اور اگر کسی نے لکھا بھی ہے تو نئے ٹریٹمنٹ کے ساتھ۔ مطربہ شیخ نے اپنی دیگر ہم عصر افسانہ نگاروں کی طرح زیادہ تر آج کے موضوعات اور ان کے کرداروں کی نفسیات پر افسانے بنے ہیں۔ جو چیز مطربہ کو ان سے الگ کرتی ہے وہ مطربہ کا اسلوب اور کہانی کہنے کا انداز ہے کہ یہ ہے صاف صاف بات، یہ ہم ہیں اور یہ ہمارا ماحول اور سماج۔

جعلی قسم کی اخلاقیات کی دیوار کو مسمار کرتے ہوئے مطربہ نے سچ لکھا ہے۔ اس حقیقت نگاری پر میں انہیں ”بولڈ“ افسانہ نگار کا خطاب نہیں دوں گا کہ ہمارے ہاں بولڈ لکھنے والے بے شمار لوگ اپنے آپ کو منٹو ثانی یا عصمت دوم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور نقاد حضرات بوجوہ یا دوست احباب اس کی توثیق کرتے نظر آتے ہیں۔ مطربہ شیخ کو حقیقت کا ادراک ہے اور اس کا اظہار ایک جرات رندانہ ہے۔ اس جرات رندانہ کو افسانے میں بیان کرنے کے لیے مطربہ شیخ کے لیے بہت سی داد۔

کتاب میں شامل بارہ افسانچے میں نے پڑھے۔ وہ بھی کہانی پن لیے ہوئے ہیں لیکن میں ان پر اس لئے بات کرنے سے گریز کر رہا ہوں کہ افسانے کی یہ صنف ابھی پاؤں پاؤں چل رہی ہے، اس کا پاؤں پر کھڑے ہونے کا انتظار ہے۔

(کوئی دوست کتاب حاصل کرنا چاہیں تو 03439444888 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments