بہتر شہر، بہتر زندگی


اکتیس اکتوبر ـ ”شہروں کے عالمی دن“ کی مناسبت سے

دنیا بھر کے شہر، مسلسل آب و ہوا سے متعلقہ آفات مثلاً: سیلاب، خشک سالی، سطح سمندر میں اضافے، گرمی کی لہروں (ہیٹ ویوز) ، تودے گرنے (لینڈ سلائیڈنگ) اور طوفانوں کے اثرات کا شکار ہو رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں، ساحلی سیلاب سے دنیا کے کم از کم 130 بندر گاہی شہر متاثر ہونے کی توقع ہے اور اس وقت غیر رسمی شہری بستیوں میں ایک ارب لوگ خاص طور پر خطرے میں ہیں۔ زیادہ پائیدار، آب و ہوا کے لئے لچکدار معاشروں کی تشکیل میں غربت میں کمی، بنیادی خدمات کی فراہمی، یقینی روزگار، قابل رسائی، سستے اور مناسب گھروں کی فراہمی، بنیادی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، بستیوں کی درجہ افزائی اور ماحولیاتی نظام کا مناسب انتظام شامل ہے۔ کامیاب اور عمدہ انداز میں حکومت کرنے والے شہر اپنی آبادی کے لئے آب و ہوا سے متعلق خطرات کو بہت حد تک کم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس سال منائے جانے والے ”شہروں کے عالمی دن“ کا نعرہ (تھیم) ہے : ”بہتر شہر، بہتر زندگی“ ، جبکہ اس سال کا ذیلی تھیم ہے : ”موسمیاتی لچک کے لئے شہروں کو اپنانا۔“

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر 68 / 239 کے ذریعے 31 اکتوبر کو ”شہروں کا عالمی“ دن قرار دیا تھا۔ اس موقع پر دنیا کی باشعور اقوام سے توقع کی جاتی ہے کہ بین الاقوامی ”شہر کاری“ میں عالمی برادری کی دلچسپی کو فروغ دیا جائے، ”اربنائزیشن“ کے چیلنجز سے نمٹنے اور دنیا بھر میں پائیدار شہری ترقی کے سلسلے میں کردار ادا کرنے کے مواقع بڑھانے کے لئے مختلف ممالک و اقوام کے درمیان تعاون کو بڑھایا جائے۔

اس ضمن میں ایسے افکار و عمل کی اشد ضرورت ہے، جو ’شہر کاری‘ میں سماجی شمولیت کی نئی شکلوں کا امکان فراہم کرتے ہوں، جن میں معاشرتی مساوات، خدمات تک رسائی اور نئے مواقع حاصل کرنے کی غرض سے مشغول و متحرک ہونے جیسے اقدامات شامل ہیں، جو شہروں، ممالک اور دنیا کے تنوع کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان تمام امکانات کے باوجود بھی یہ شہری ترقی کا حتمی طریقہ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ سماجی عدم مساوات اس کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

شہر (سٹی) کیا ہے؟

شہروں کو آبادی کے دوسرے مراکز مثلاً: قصبوں اور مضافاتی علاقوں سے نسبتاً بڑے سائز، کام، آبادی اور حکومت کی طرف سے ملی ہوئی حیثیت کی وجہ سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ ایک شہر کی تعریف ایک ”مرکز آبادی“ کے طور پر کی جاتی ہے، جس کا جغرافیائی رقبہ اور آبادی کسی عام آبادی سے زیادہ ہو۔ شہر ایک ایسا گنجان آباد علاقہ ہے، جس کی قانونی خواہ انتظامی طور پر معین ایک حد ہو اور اس کی آبادی، ذرائع روزگار کے حوالے سے غیر زرعی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہو۔

ایک شہر کو کسی ملک کا سب سے ترقی یافتہ مرکز آبادی سمجھا جاتا ہے، اور یہ جدید انفراسٹرکچر سسٹمز بشمول رہائش، نقل و حمل، مواصلات اور دیگر سماجی سہولیات کا حامل ہوا کرتا ہے۔ زیادہ تر شہروں میں مرکزی کاروبار کے مساکن ’ضلع‘ (ڈسٹرکٹ / سی بی ڈی) ڈاؤن ٹاؤن، یا سٹی سینٹر ہوا کرتے ہیں، جو سیاسی، اقتصادی اور مذہبی مراکز کے طور پر کام کرتے ہیں۔ شہروں میں عوامی مقامات مثلاً: شاپنگ مالز، تفریحی مقامات، پارکس اور کھیلوں کی سہولیات والی جگہیں بھی کثیر تعداد میں ہوا کرتی ہیں۔

مختلف ممالک یا ان کی ریاستوں (صوبوں ) کے دارالحکومت کے طور پر پہچانے جانے والے شہر، ایک ایسا مرکز ہوتے ہیں، جو اس ملک یا ریاست کے انتظامی مرکز اور حکومت کی نشست کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مثلاً: کراچی، اسلام آباد، واشنگٹن ڈی سی، نیروبی، لندن، روم، پیرس اور بیجنگ وغیرہ دارالحکومت ہیں۔ مکۂ مکرمہ اور یروشلم جیسے شہر ”مذہبی دارالحکومت“ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، جبکہ کراچی اور نیو یارک جیسے شہر، ”اقتصادی دارالحکومت“ کے طور پر۔

دنیا کے تقریباً تمام شہر جغرافیائی سائز اور حدود کے لحاظ سے مسلسل بڑھ رہے ہیں اور اپنے ارد گرد کے علاقوں میں ضم ہو کر ”میٹرو پولیس“ علاقوں کی حیثیت پا رہے ہیں۔ چین، امریکا، برازیل اور جاپان جیسے ممالک میں ”میگا سیٹیز“ کا تصور بھی موجود ہے، جن شہروں کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہوتی ہے، اسے ”میگا سٹی“ کہا جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں شہری مراکز کو شہروں کے طور پر نامزد کرنے کے مختلف طریقے اور معیار ہیں۔ امریکا میں شہر کی تعریف، ایک ایسا مقام ہے، جس کو قانونی اختیارات ”کاؤنٹی“ یا ریاستی حکام نے تفویض کیے ہوں۔ برطانیہ میں، آبادی کے کسی بھی مرکز کو ملکہ یا بادشاہ کی طرف سے ”شہر“ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح، کسی بستی کو شاہی فرمان کے بغیر ”شہر“ نہیں کہا جا سکتا۔

قصبہ (ٹاؤن) کیا ہے؟

شہر کی طرح ”قصبے“ کی بھی کوئی ایک مخصوص تعریف نہیں ہے۔ اس لئے شہر اور قصبے کے درمیان امتیاز، اکثر جگہوں پر واضح نہیں ہے۔ تاہم، ایک قصبے کی تعریف عام طور پر ایک ”شہری بستی“ کے طور پر کی جاتی ہے، جو گاؤں سے بڑی، لیکن شہر سے چھوٹی ہو۔ یہ قصبے ایک ہی ملک کے شہروں کے مقابلے میں جغرافیائی حجم اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ہوا کرتے ہیں۔ ابتدائی اور تاریخی طور پر، ایک قصبہ ایک دیوار یا باڑ کی مدد سے بند کی ہوئی جگہ ہوا کرتی تھی، جس میں کچھ حد تک ترقی ہوا کرتی تھی۔

نیدرلینڈز میں، ایسی جگہ، امراء کے لئے ایک باغ ہوتی تھی۔ انگلینڈ میں، قصبہ وہ بستی تھی، جس میں اکثر میلے لگا کرتے تھے، اور بازار ہوتے تھے۔ تاہم، اس دور میں قصبے (ٹاؤن) کی اصطلاح سے مراد پرانے بازار والے قصبوں، ٹاؤن کونسلز کے زیر انتظام علاقوں، یا شہری مراکز کی ہے، جنہیں بادشاہ کے ذریعے ”شہر“ کے طور پر نامزد کیا جائے۔

امریکا میں کسی قصبے کی کوئی سرکاری تعریف مقرر نہیں ہے، اور اس اصطلاح کا استعمال و معٰنی ہر ریاست میں مختلف ہے۔ وہاں کی چند ریاستوں مثلاً: ”الاباما“ میں، ایک شہر کی تعریف آبادی کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، وہاں 2,000 سے زیادہ لوگوں والی بستی ”شہر“ کہلاتی ہے، جبکہ 2,000 سے کم لوگوں والی آبادی ”بستی“ کہلاتی ہے۔ اسی طرح ”لوزیانا“ میں، قصبہ ایک ایسی کمیونٹی ہے، جس میں پانچ ہزار سے کم افراد رہتے ہوں۔

کچھ ریاستوں میں، قصبہ ”میونسپل حکومت“ کی ایک شکل ہے، جس کی قانونی طور پر معین مخصوص سرحدیں ہیں۔ الگ الگ حکومتوں کے قصبوں کو ضم شدہ قصبوں کے نام سے جانا جاتا ہے، جبکہ باقی علاقے غیر منضبط شہروں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں دو طرح کے شہر ہیں۔ مردم شماری کے لحاظ سے دیکھے جانے والے شہر اور قانونی شہر۔ وہاں ایک قانونی قصبے میں میونسپلٹی، شہری انتظامیہ کا ادارہ، یا میونسپل کارپوریشن ہوتا ہے۔ مردم شماری کے لحاظ سے شہر سمجھا جانے والا علاقہ، کم از کم 5,000 باشندوں کی آبادی پر مشتمل ہوتا ہے، جہاں آبادی کی کثافت 400 افراد فی مربع کلومیٹر ہو۔ نیز، اس تعریف کے مطابق وہاں کی 75 فیصد مرد آبادی کو غیر زرعی سرگرمیوں میں مشغول ہونا چاہیے۔

اکتوبر 2014 ء میں ”یو این ہیبیٹاٹ“ نے ”اربن اکتوبر“ نامی ایک منصوبے کی داگ بیل ڈالی، تاکہ دنیا کے شہری چیلنجوں سے نمٹا جا سکے اور نئے شہری ایجنڈے کی طرف بین الاقوامی برادری کو متوجہ اور شامل کیا جا سکے۔ اس ضمن میں پائیدار ترقی کا ہدف نمبر 11، جو شہروں اور انسانی بستیوں کو جامع، محفوظ، لچکدار اور پائیدار بنانے کے عزائم کو وضع کرتا ہے، ہی ”یو این ہیبیٹاٹ“ منصوبے کا محور و مرکز ہے۔ تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے شہروں میں عدم مساوات 1980 ء کے بعد سے بڑھی ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے شہر بھی اکثر سب سے زیادہ غیر مساوی پائے جا رہے ہیں۔ اس سال کا موضوع نئے شہری ایجنڈے کی کارروائی اور اس پر عمل درآمد پر مشتمل ہے، جس میں شہروں کی جامع منصوبہ بندی (ٹاؤن پلاننگ) کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ شہری تبدیلی کے لئے اکتوبر 2016 ء میں، جنوبی امریکا کے ملک ”ایکواڈور“ کے دارالحکومت، ”کوئٹو“ میں منعقد ہونے والی ”ہیبیٹاٹ۔ 3“ کانفرنس، میں اس سلسلے میں ایک نیا فریم ورک اپنایا گیا، جو شہروں کی منصوبہ بندی، نظم و نسق اور آباد کاری کے طریقۂ کار پر نظر ثانی کرتے ہوئے، دنیا کو پائیدار شہری ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔ نیا شہری ایجنڈا اس بات کی رفتار بھی طے کرے گا، کہ اگلی دو دہائیوں میں شہر کاری کے چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے، اور اسے 2030 ء کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے کی توسیع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس پر ستمبر 2015 ء میں اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک نے اتفاق کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس کا ”شہروں کے عالمی دن“ پر پیغام ہے کہ ”جب شہری برادریاں پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں مصروف ہوں، اور انہیں مالی وسائل بھی حاصل ہوں، تو نتائج زیادہ جامع اور پائیدار ملتے ہیں۔ آئیے! اپنی کمیونٹیز کو مستقبل کے شہروں کا محور و مرکز بنائیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments