چین کی پہلی فیمینسٹ: چھوئے چن


یہ اس کے آبائی گاؤں Shanyin کا پھانسی گھاٹ میدان تھا۔ 15 جولائی 1907 کا دن۔ گراؤنڈ میں مقامی لوگوں کا ہجوم تھا۔ شاہی فوج اور مقامی پولیس کے سپاہی تھے۔ اس نے تفتیشی افسر کو دیکھا اور جو اباً کہا۔
خزاں کی ہوائیں
خزاں کی بارشیں
انسانی روح کے ٹکڑے کر دیتی ہیں
اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا تھا۔ اکتیس سالہ دل کش چھوئے چن مٹی کے فرش پر دو حصوں میں کٹی پڑی تھی۔

اس کی تمنا تھی کہ اس کا نام تاریخ کی کتابوں میں درج ہو۔ دور دیسوں کے لوگ اس کے بارے جانیں۔ خواہش تو پوری ہوئی۔ دنیا کی کتابوں میں نام کی گونجا۔ اب ایسے ہی تو مجھ جیسی ایک سیاح بیجنگ کی اس Foreign Languages University کی اردو ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ چاؤ یو آن Zhou Yuan جس کا دوسرا پاکستانی نام نسرین ہے سے اس کے بارے جاننے اور اس پر لکھی کتابیں دیکھنے نہیں آئی تھی۔

تو نسرین اور میں اس کے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے تھے۔ اور چھوئے چن ایک صدی پہلے وقت کی ٹنل سے نکل کر ہمارے سامنے آ بیٹھی تھی۔

اس کے اندر ایک متحرک روح تھی۔ عورتوں کے مساوی حقوق کی علمبردار، اپنے وقت کی ایک بیدار مغز انقلابی شاعرہ، ناول نگار، مضمون نگار۔

پیدا 8 نومبر 1875 میں ہوئی اور صرف اکتیس سال کی عمر میں 15 جولائی 1907 میں دنیا سے چلی بھی گئی۔

چین کے مشرقی صوبے ’شی آمن‘ Zhejiang کے ایک شہر میں بڑے بھائی اور چھوٹی بہن کے ساتھ اپنے آبا و اجداد کے محل نما گھر میں پلی بڑھی۔ ’شی آمن‘ میں دادا باپ اعلی حکومتی عہدے داران تھے۔ ادب اور سیاست دونوں کا گھر میں چرچا رہتا تھا۔

روایتی انداز میں ہی ابتدائی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ ایک کھاتے پیتے امیر گھر کی بیٹی جس نے سکول میں پڑھا۔ گھڑ سواری کی اور نوجوان چینی عورتوں کی طرح اس تکلیف کو بھی سہا کہ جب پاؤں کو سخت کپڑوں میں باندھنا پڑتا تھا کہ وہ چھوٹے رہیں۔

اس تشدد پر وہ ہمیشہ سراپا احتجاج رہی۔ شاعری میں، تقریروں میں اور اپنے منشور میں بھی۔
ذرا شاعری میں ایک جھلک دیکھئیے۔
اپنے پیروں کو آزاد کرتے ہوئے
میں ہزاروں سالوں کا زہر صاف کرتی ہوں۔
جوش و جذبے سے بھرے دل سے
عورتوں کی روح بیدار کرتی ہوں۔

شاعری تو ابھی لڑکی ہی تھی جب شروع کردی۔ لکھنے سے اسے عشق تھا۔ اپنی زندگی کے اس حصے میں اس نے پھولوں، موسموں، کی باتیں کیں۔ تاریخی جگہوں، جیالی عورتوں ان کے حوصلے، جرات اور جذبوں پر مبنی کارناموں پر لکھا۔

لیکن مصیبت تو یہ تھی کہ اس کی خواہشات کا ٹکراؤ چین کی ان روایات سے ہوا تھا جو معاشرے میں بہت گہری تھیں۔ جو عورت کے گھر میں رہنے پر ایمان رکھتی تھیں۔ اور وہ عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہونے اور کام کرتے دیکھنے کی تمنائی تھی۔

شادی کے لیے چھوئے چن کے والد نے جس لڑکے کو چنا۔ وہ Hunan صوبے کے ایک امیر تاجر کا چھوٹا بیٹا وانگ ٹنگ چن Wang ting Chin تھا۔

اب یہ مقدر کی بات تھی کہ اس جیسی حساس، دلیر، شاعرانہ مزاج لڑکی کو جو ساتھی نصیب ہوا وہ اس کے خوابوں اور خواہشوں کے قطعی برعکس تھا۔

اسے اس بات کا بھی دکھ تھا کہ وانگ Wang اسے پرکاہ برابر اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اس کا اعتماد، اس کی اپنی شاعری کو منوانے کی تڑپ اور جذبہ اس کے متعصبانہ رویوں کا شکار ہو گئے تھے۔ اس کا ایک ہی حل اس کو سمجھ آتا تھا کہ وہ اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ سے زیادہ حصہ پڑھنے لکھنے میں گزارے اور وہ ایسا ہی کر رہی تھی۔

یہQing بادشاہت کا زمانہ تھا۔ جب اس کے شوہر کا تبادلہ بیجنگ کے لیے ہو گیا۔ 1903 میں نوجوان جوڑا اپنے دو بچوں کے ساتھ بیجنگ شفٹ ہوا۔

شاہی دارالحکومت میں آ کر اسے محسوس ہوا کہ شہر کی زندگی زیادہ فعال ہے۔ اس کی ہم خیال عورتوں سے دوستی اور خیالات کے تبادلوں نے اسے مائل کیا کہ وہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لے۔ اس نے پاؤں کھولے۔ کثرت سے شراب نوشی کی۔ لباس کی تبدیلی اور تلواری کھیل میں حصہ بھی لینا شروع کر دیا۔

یہ 1904 تھا جب اس نے اپنی زندگی کو سمیٹنے اور کسی بڑے مقصد کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں شادی کو داؤ پر لگانے کا فیصلہ اس وقت حتمی طور پر ہو گیا تھا جب اسے معلوم ہوا کہ اس کا شوہر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی تعطیلات گزارنے کسی دوسرے شہر کے قحبہ خانے جا رہا ہے۔

اس نے خود سے کہا، ”یہ دن اسے اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے چاہیں تھے مگر وہ طوائفوں کے ساتھ گزارنے چلا گیا ہے۔“

بس تو طے ہو گیا۔ بچوں کو الوداع کہا شوہر کو چھوڑا زیورات بیچے۔ جاپان کا ٹکٹ خریدا۔ اور اجنبی سرزمین پر جا اتری۔ ٹوکیو میں اس کا جاپان کا چینیوں کے لیے بنائے گئے ادارے میں داخلہ ہوا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی جاپان نے چین کی نسبت مغربی اثرات کو تیزی سے اپنانا شروع کر دیا تھا۔ یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ اس نے بہت سی خفیہ سوسائٹیز میں شمولیت کی جن کا مقصد موجودہ چینی حکومت کو ختم کرنا تھا۔

اس نے مارشل آرٹس سیکھا اور مردانہ لباس پہننا شروع کیا۔ ہاتھ میں تلوار تھام کر خود کو Jin Xiong سمجھا جس کا مطلب یہی تھا۔ مردوں کے ساتھ مقابلہ۔

میرا جسم بے شک
مرد کی طاقت کے معیار کا نہیں ہو سکتا
لیکن میرا دماغ مرد سے زیادہ طاقتور ہے
مایوسیوں میں ہیرو ہی تکالیف برداشت کرتے ہیں
اس وسیع و عریض سماج میں مجھے کہاں سے ایک سچا دوست مل سکتا ہے

جلد ہی چینی طلبہ کی لیڈر کا کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیا۔ یہیں اپنی تعلیم اور قیام کے دوران اس کی شاعری نے لوگوں کی توجہ کھینچی۔ اس نے کہا۔

اگرچہ میں مرد پیدا نہیں ہوئی
مگر میری مرضی ان سے زیادہ طاقت ور ہے
ایک اور نمونہ دیکھیے۔
یہ تو ان کی ظالمانہ چال ہے کہ ہم عورتوں کو نسوانیت میں قید کریں
ہم جیت نہیں سکتیں
قابلیت و لیاقت کے باوجود
مرد ہی اعلی ترین عہدے سنبھالتے ہیں
لیکن ہمارے دل عہدے دار مردوں سے زیادہ خالص ہیں
میرا اندر اس زیادتی پر آگ کی طرح جلتا ہے
عیار مرد مجھے جاننے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں
دلیری اس نوع کے عوارض کو کب جانتی ہے
ایسے گلے سڑے معاشرے میں اچھے دوست کے ملنے کا
تصور بھی میرے آنسو لے آتا ہے

دسمبر 1905 میں چینی لوگوں کے مجمع میں ایک شعلہ بار تقریر کی۔ اپنی اس نظم کو بھی پڑھا جو ان دنوں لکھی گئی تھی۔

ہماری عورتوں کی دنیا کی غرقابی بہت گہری ہے
ہماری کون مدد کرے گا
مادر وطن سے جدا ہو گئی ہوں
ایک ہزار سال کے زہر کی صفائی کے لیے
میں نے اپنے پیروں کو آزاد کر دیا ہے
میں عورتوں میں بیداری کی روح جگاتی ہوں
سینکڑوں پھل کھل اٹھتے ہیں
افسوس یہ نازک سا رومال
آدھا خون سے آلودہ ہے
اور آدھا آنسوؤں سے گیلا ہے

پھر وہ وقت آ گیا جب ان انقلابی خیالات نے عملی صورت اختیار کرلی۔ وہ 1906 میں 2000 چینی طلبہ کے ساتھ نئے جوش و جذبے سے وطن لوٹی تھی۔

اس کی سر گرمیوں کا مرکز اب کن Qing سلطنت کے مخالف دھڑوں سے ملنا اور عورتوں میں شعور اور آگاہی بیدار کرنے کام تھا۔ فوراً ہی پہلا فیمنسٹ میگزین نکالا۔ یہ چین میں اپنی نوعیت کا پہلا رسالہ تھا۔ اس کام میں اس کا بہترین معاون اس کا دست راست اس کا کزن شو شی لن Xu Xilin تھا۔ وہ اپنے اہداف، اپنے منشور بارے بڑی واضح تھی۔ عورتوں کی تعلیم، انہیں برابری کی سطح پر لانا، شادی کا حق اور پسند، چین کی 200 ملین عورتوں کو باعزت ان کے حقوق دینا۔ اور لوہے کے جوتے پہنانے والی غیر معمولی قبیح رسم کا خاتمہ جیسی اصلاحات کا اعلان تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مرد غالب معاشرے میں عورتوں کے بہتر مستقبل کے لیے ایک نئی ماڈرن گورنمنٹ Qing بادشاہت کی جگہ ضروری ہے۔

مگر اس کی خواہش کے راستے میں بہت روڑے تھے کہ عورتیں پڑھی لکھی نہ تھیں اور اس کی بات کو اس طرح نہیں سمجھتی تھیں جسے وہ سمجھانا چاہتی تھی۔ اب تقاریر کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔

اپنے اس دائرہ کار کو مزید وسیع کرنے کے سلسلے میں اس نے yangtze ڈیلٹا کا چکر لگایا۔ بے شمار انقلابی لوگوں سے ملی اور جانی کہ انقلاب کے لیے کن کن حربوں کی ضرورت ہے۔ معلومات اور بم بنانے کا طریقہ سیکھا۔ Yu Fei کی قبر پر حاضری دی۔ Yu Fei بارہویں صدی کا وہ شہید تھا جو شمالی حملہ آوروں سے چین کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔

گرمیوں میں اس نے Datong اکیڈیمی کی پرنسپل شپ سنبھال لی جو کہ بظاہر ترقی پسندوں کا سکول تھا مگر دراصل انقلابی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اس کا کزن شی شو لن Xu Xilin اس ادارے کا ڈائریکٹر تھا اور انقلابی سرگرمیوں کا بھی سرخیل تھا۔ چند دن پہلے اسے حکومت نے گرفتار کیا تھا۔ تحقیقات کے نتیجے میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

اب چھوئے چن بارے بھی حکومتی ارکان کو بہت ساری باتوں کا پتہ چل گیا تھا۔ شاہی عملے، سپاہیوں اور فوجی دستوں نے Shaoxing پر ہلا بول دیا تھا۔

اور پھر وہ دن آ گیا۔ 15 جولائی کا المناک دن جب اسے پھانسی میدان میں حاضر ہونا تھا۔ کس جی داری سے وہ تیار ہوئی۔ اس نے سفید قمیض پہنی۔ سادہ سیاہ جیکٹ اور پینٹ اور چمڑے کے جوتے اور سوئے مقتل آئی۔

مجمع کے سامنے اپنی دو نظمیں پڑھیں۔ اس کے ہاتھوں کو پشت کی جانب باندھ دیا گیا۔ ٹانگوں کو آہنی کرسی کے ساتھ۔ اور پھر برق سی کوندی اور اس کا خوبصورت سر تن سے جدا ہو گیا۔

اس پر بہت کچھ لکھا گیا۔ اس کی زندگی کے ہر ہر پہلو پر لکھا گیا۔ اس سلسلے میں مجھے ہاورڈ یونیورسٹی کے خولیانگ کی تحریروں نے بہت متاثر کیا۔

وہ Burning Autumn میں لکھتا ہے کہ چھوئے نے اپنی زندگی ایک عظیم مقصد کے لیے قربان کی۔ ایک ایسے وقت میں جب گردوپیش کی دنیا ظلم، جبر و استحصال کے خلاف قربانیاں دے رہی تھی کہ ایک بہتر اور پرامن دنیا لوگوں کو دے سکیں۔ چھوئے کی اس نظم نے بھگو دیا ہے جو اس نے اپنے شوہر کے لیے لکھی تھی۔ جو یہ بتاتی ہے کہ وہ صرف انقلابی فائر برانڈ ہی نہیں تھی بلکہ جذبات و احساسات رکھنے والی ایک انسان بھی تھی۔ جس نے محبت اور اس کی تلخیوں اور شیرینی کو محسوس کیا۔ اس وقت بھی جب وہ بڑے مقصد کے لیے کام کر رہی تھی اور اس پر یقین رکھتی تھی کہ وہ راستی پر ہے۔ اپنے شوہر کے لیے لکھی ہوئی اس کو نظم ذرا پڑھیے۔

میرے دل میں مچلتے جذبات کا ہجوم
غائب نہیں ہو سکتا
ہماری محبت ایک مستقل عذاب میں بدل گئی تھی
جس میں واپسی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔
پلٹ کر اس دن کو دیکھنا بڑا دکھ بھرا ہے
جب ہم جدا ہوئے تھے
میرے اس گونگے دل سے ابھی تک
ازدواجی زندگی کی تلخیاں اور شیرینی نہیں نکل سکیں
اگر زندگی میں کہیں حقیقتاً افسوس ہے
تو اسے ہوا اور بارش کی افسردہ آوازوں سے بچنا چاہیے

چین نے اسے اپنی جون آف آرک کہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments