پاکستان بمقابلہ انڈیا میں جام کمال آؤٹ ہو گئے


ایک فلمی سین ہے کہ ایک بہت بڑے ڈاکو گبر سنگھ نے اپنے ڈاکووں کے ایک گروپ کو ایک گاؤں کو لوٹنے کے لیے بھیجا مگر وہ سب بری طرح مار کھا کے واپس آ گئے۔ یہ گبر سنگھ کی توہین تھی کہ اس کے ساتھیوں کے ساتھ ایسا برا سلوک ہوا۔ گبر سنگھ نے اپنے وفادار سامبھا سے پوچھا، ارے او سامبھا کتنے آدمی تھے؟ زخمی سامبھا نے جواب دیا سردار دو تھے تو سردار اس پر چیخ اٹھا کہ دو بندوں سے مار کھا کر آ گئے۔ اس فلمی سین میں جئے اور ویرو کی جوڑی نے جو کچھ ڈاکووں کے ساتھ کیا اس سے کہیں زیادہ برا برتاؤ بابر اور رضوان کی جوڑی نے انڈٰین کرکٹ ٹیم کے ساتھ کیا۔

انڈین ابھی تک حیران ہیں کہ ان کے ساتھ آخر ہوا کیا وہ ہار کیسے گئے اور یہی حیرت سرحد کے اس پار بھی ہے کہ آخر ہوا کیا اور ہم جیت کیسے گئے۔ اسی حیرت کی کیفیت میں بہرحال ہم شاندار طریقے سے جیت چکے ہیں۔ اس ضمن میں کھلاڑیوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ ایک ایسی جیت تھی جس پر پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

اور خوشی ہونی بھی چاہیے کہ روایتی حریف سے جیتنا بلاشبہ ایک خوش کن مرحلہ ہے۔ کھیل تو کھیل ہوتے ہیں مگر جب مقابلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہوتو دونوں طرف کی عوام کا جوش اور جذبہ دیدنی ہوتا ہے۔ گو کہ کرکٹ دونوں ملکوں کا قومی کھیل نہیں ہے مگر اس کھیل کا جنون ان ممالک میں قومی کھیل سے کہیں زیادہ ہے۔ دونوں طرف کے لوگ اس کھیل کے سحر میں گرفتار ہیں اور جب پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے ہوں تو دونوں ٹیمیں تو کیا عوام بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتی ایسے میں دونوں طرف کے کھلاڑی شدید دباؤ میں کھیلتے ہیں۔

مگر اس بار گرین شرٹس نے پریشر نہیں لیا اور نتیجہ یہ کہ ایک شاندار فتح ان کا مقدر بنی۔ اسی میچ کے دوران قومی ٹی وی نے خبر دی کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال مستعفی ہو گئے ہیں اور ان کا استعفیٰ گورنر نے منظور بھی کر لیا ہے بعد ازاں اس کی تصدیق جام کمال نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بھی کردی۔ حیرت یہ ہے کہ انڈیا پاکستان کے میچ کے دوران جام کمال آؤٹ ہو گئے۔

بلوچستان کا کافی دنوں سے چلنے والا سیاسی بحران اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ سب کہہ رہے تھے کہ سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، چیئرمین سینٹ کی سفارت کاری بھی کام نہ آئی۔ جام کمال ناراض اراکین کا مذاق اڑاتے رہے کہ یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں ان کی تعداد پوری نہیں ہے، یہ طاقت کے حصول کے لیے جمع ہیں، تحریک عدم اعتماد کا سامنا کروں گا جیسے بہت سے بیانات دیے۔ ایسے بیانات جو ہر حاکم اقتدار کے اختتامی دنوں میں دیتا ہے۔

جام کا جانا طے ہو گیا تھا اب یہ الگ بات کہ جام میخوار کے ہاتھوں سے گرا یا ساقی کی لاپراوہی سے ہر دو صورتوں میں نقصان جام کا ہوا۔ اب اگر جام کو یہ غلط فہمی تھی کہ اس کے بغیر میخانہ نہیں چلنے والا تو شاید جام میخواروں کی طبعیت سے ناآشنا ہے۔ یہ تو وہ بلانوش ہیں کہ ہاتھوں سے کٹوروں کا کام لے کر میخانہ ہی خشک کر دیں۔

مروجہ سیاست میں بلوچستان حکومت سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں پر اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔ تو پھر جام سرکار کا جانا کیا مقتدر حلقوں کی منشا کے مطابق ہوا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کس کو راضی کرنے کے لیے بلوچستان کی حکومت کی قربانی دی گئی ہے۔ بالفرض اگر یہ کسی ڈیل کا نتیجہ ہے تو پھر اس کا اگلا مرحلہ کیا ہو گا۔ کس عہدے یا حکومت کی تبدیلی کا نمبر آ گیا ہے۔ کیا جام کی تبدیلی کپتان کو قبول ہو گئی اور پھر کیا نئی حکومت کو کپتان کی آشیر باد حاصل ہوگی یا نہیں ہوگی یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آنے والے دنوں میں ہر کوئی جاننا چاہے گا۔

واقفان حال تو کب سے کہہ رہے تھے کہ تبدیلی کا آغاز بلوچستان سے ہو گا اور ایسا ہی ہوا اور وہاں پر تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ گئی ہے۔ اگر کسی طے شدہ فارمولے کے تحت یہ تبدیلی شروع ہوئی ہے تو کپتان کو علم ہونا چاہیے کہ یہ تبدیلی دعاؤں اور مناجاتوں سے رکنے والی نہیں ہے اس کے لیے واپس آ کر عملی طور پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ واپس آ کر نا صرف جوتے پہننے ہوں گے بلکہ جوتوں کے تسمے کس کر باندھ کے سیاست کے پرخار راستوں پر چلنا ہو گا

ان پرخار راستوں میں ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں اور واپسی پر سب سے پہلا امتحان تو ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کا ہے۔ پہلے بھی دست بستہ عرض کی ہے کہ ہو گا وہی جو ٹویٹ میں لکھا گیا ہے۔ یہ محکمانہ ٹرانسفر پوسٹنگ ہیں یہاں خواہشات پر نہیں تجربے اور قابلیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل ہو جائے تو بہتر ہے اور اگر یہاں پر بھی سیاسی بنیادوں پر اور پسند نا پسند پر فیصلے ہونے لگ جائیں تو اس محکمے کا حشر بھی ملک کے دیگر محکموں جیسا ہو گا۔ آئی جی اور دیگر انتظامی افسران کی بار بار تبدیلی نے عادتیں خراب کردی ہیں۔ پولیس اور فوج میں فرق کو جاننا بہت ضروری ہے اگر نہیں سمجھے تو ہاتھ کنگن کو آر سی کیا بہت جلد سمجھ آ جائے گی۔

قصہ مختصر پاکستان اور انڈیا کے میچ کا تذکرہ چل رہا تھا جس کے شور میں جام کمال آؤٹ ہو گئے۔ یہ ٹورنامنٹ تو کافی دن چلنا ہے اور بہت سے اہم میچز کھیلے جانے ہیں کپتان کو فکر کرنی چاہیے اور معاملات کو سنبھالنا چاہیے یہ نا ہو کہ کسی اور اہم میچ کے دوران کپتان کا کوئی اور کھلاڑی جام کمال کی طرح آؤٹ ہو جائے۔ وکٹیں اگر اسی طرح گرتی رہیں تو کوئی شک نہیں پاکستان کی جیت کے امکانات بڑھتے جائیں گے، جوش و خروش بڑھتا جائے گا اور ہر گرنے والی وکٹ پر عوام اسی طرح خوشی سے سڑکوں پر آ کر دھمالیں ڈالے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments