مفتی صاحب صحافیوں کی دکان کی بجائے فتووں کی دکان پر توجہ فرمائیں


آخر کار حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔ مفتی منیب الرحمن صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ جوش ہوش پر اور جذبات معقولیت پر غالب آ گئے تھے لیکن اب فریقین نے بیدار مغزی دکھاتے ہوئے آپس میں معاہدہ کر لیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہر کچھ عرصہ بعد جوش اور جذبات بالترتیب ہوش اور معقولیت کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو چنگیز خان مفتوحہ علاقوں سے کیا کرتا تھا۔ اور اس کے بعد کئی جانوں اور ارب ہا ارب روپوں کے نقصان کے بعد قوم کو کامیاب مذاکرات کی پر خوش ہونے کا ارشاد ہوتا ہے۔ اگر اس مسئلہ کا کوئی حل نکالا جاتا تو ہماری قوم کا کافی بھلا ہوتا۔

ہم اس کالم میں اس معاہدے پر خوشی کا اظہار تو کرتے لیکن قوم کو یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا معاہدہ ہوا ہے؟ کیا شرائط طے پائی ہیں؟ بس خوش ہونے کا ارشاد ہوا ہے۔ جس طرح کسی زمانے میں بعض علاقوں میں نکاح سے قبل لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ نکاح خوان لڑکے سے دریافت کرتا تھا ”اندھی لنگڑی کانی قبول“ یعنی لڑکی جیسی بھی ہے تمہیں قبول ہے اور وہ منہ پر رومال رکھ کر کہتا تھا کہ ”قبول“ ۔ اور لڑکی پر تو اس سے بھی زیادہ ظلم ہوتا تھا، اس سے تو کوئی یہ بھی پوچھنے کا تکلف نہیں کرتا تھا۔ کچھ اسی طرح قوم کو یہ معاہدہ ”قبول“ کرنے کا ارشاد ہوا ہے۔ مفتی صاحب نے صحافیوں کو ارشاد فرمایا:

”ہمارے میدان صحافت کے تجزیہ نگار ہوں، کالم نگار ہوں، دیگر حضرات ہوں جنہوں نے معقولیت کا مشورہ دیا میں تہہ دل سے ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور ان سب حضرات کی تائید اور کوشش سے یہ ماحول پیدا ہوا۔ میں میڈیا کے دوستوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک دو دن اگر آپ کی دکان پر مندی ہو جائے تو ملک و ملت کی خاطر اور اس پیارے پاکستان کی خاطر اس کی قربانی دے دیجئے گا اور منفی کھور کرید میں پڑنے کی بجائے مثبت پہلوؤں کو سامنے لانے کی کوشش کیجئے گا۔“

یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا یہ بحران کسی صحافی کی کارستانی یا یوٹیوب پر نشر ہونے والے کسی پروگرام کے نتیجہ میں پیدا ہوا تھا۔ یا جو پولیس والے شہید ہوئے وہ تحریک لبیک کے کارکنان کی گولیوں سے نہیں بلکہ کسی لکھاری کے قلم کی ضرب سے شہید ہوئے تھے۔ جہاں تک مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کا تعلق ہے تو بہتر ہو گا شہید ہونے والوں کے بچوں اور بیواؤں کو اس چھٹے دھرنے کے مثبت پہلو سمجھانے کی تکلیف مفتی منیب الرحمن صاحب اور تحریک لبیک کے قائدین خود فرمائیں۔

مفتی صاحب نے تو ذہنوں پر قفل لگانے کی نصیحت فرمائی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ ہر کچھ عرصہ بعد کوئی نہ کوئی مذہبی گروہ پاکستان کی حکومت سے تصادم کا آغاز کیوں کر دیتا ہے؟ اس عمل کے بار بار دہرائے جانے سے پاکستان کی بنیادیں کمزور ہو گئی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان ہو یا تحریک نفاذ شریعت یا اس منظر پر تحریک لبیک کی تازہ آمد، ایک کے بعد دوسری مذہبی تنظیم ملک میں بغاوت کا علم بلند کرتی ہے اور اس کے بعد مسائل اور المیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

مختلف مذہبی تنظیمیں کس طرح اپنے کارکنان کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں کہ وہ اپنی ہم مذہب کے خلاف بغاوت شروع کر کے خون خرابہ شروع کر دیں؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ تمہارے حکمران ”کفر بواح“ یعنی واضح کفر کے مرتکب ہوچکے ہیں اور اب وہ مسلمان نہیں رہے۔ اس لئے اب ان کے خلاف خروج یعنی جہاد کرنا ضروری ہے۔ 1924 میں ترکی میں اتا ترک پر یہ فتویٰ لگایا گیا اور پھر جب انور السادات صاحب نے اسرائیل سے صلح کی تو مصر کے اسلامی جہاد نے انہیں مرتد قرار دیا تاکہ ان کے خلاف بغاوت کروائی جا سکے۔ اور پاکستان میں لال مسجد کے واقعہ کے بعد القاعدہ کی مجلس شوریٰ نے پاکستانی حکومت کے کفر کا فتویٰ دیا تاکہ ان کے خلاف بغاوت کی جا سکے۔

(Inside Alqaeda and Taliban by Salim Shehzad p 46 & 131)
(A Debate on Takfeer and Khurooj , edited by Safdar Sial p 18 & 49)

مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت کروانے کے لئے تو یہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے صف اول میں جو سپاہی لڑ رہے ہوتے ہیں وہ تو مسلمان ہوتے ہیں۔ اور یہ سب جانتے ہیں کہ مسلمان کا خون بہانا بہت بڑا گناہ ہے۔ دہشت گردوں کو ان کا خون بہانے پر کیسے آمادہ کیا جائے؟ جس طرح تحریک لبیک کے دھرنے کے شرکاء نے کئی پولیس والوں کو شہید کر دیا۔ جب 2004 میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوا تو اس وقت بھی باغیوں کو یہ مسئلہ درپیش تھا۔

اور تکفیر کے ایک مبلغ شیخ عیسیٰ المصری صاحب نے لال مسجد کے مولوی عبد العزیز صاحب کو آمادہ کیا کہ اب ان پر فرض ہو چکا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے خلاف فتویٰ دیں۔ چنانچہ ان کے مدرسے کی دیوار پر یہ فتویٰ آویزاں کیا گیا کہ جو پاکستانی فوجی جنوبی وزیرستان میں نام نہاد مجاہدین سے لڑتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں ان کی نماز جنازہ اور مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین جائز نہیں۔

اس شر انگیز فتوے کی داد بھی بیرون ملک سے ہی ملی۔ ازبکستان کی اسلامی تحریک کے قائد طاہر یالدو وچ نے مولوی عبد العزیز صاحب کو لکھا کہ آپ نے خوب فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ اب ایک اور نیک کام یہ کریں کہ مدارس کے طلباء کو اس بات پر آمادہ کریں کہ کشمیر کا جہاد چھوڑیں، اس کی بجائے جنوبی وزیرستان میں پاکستان کی فوج سے لڑائی کریں۔ یہ ایک مثال ہے کہ پاکستانیوں کو کس طرح خود اپنی ہی فوج کے خلاف لڑنے پر اکسایا جاتا ہے۔

(Inside Alqaeda and Taliban by Salim Shehzad p 160)

حکومت اور فوجیوں سے تو اس طرح نمٹ لیا گیا۔ لیکن جب تک آئین موجود ہے تو ایک حکومت جائے گی تو دوسری حکومت اس کی جگہ لے لیگی۔ عدالتیں موجود ہیں، ان کا کیا ہو گا؟ اگر انتخابات ہوں گے تو ان کے ذریعہ ان تنظیموں کا اقتدار میں آنا مشکل ہو گا؟ اس مسئلہ کا کیا حل ڈھونڈا جائے؟ اس کا حل بھی موجود ہے۔ پاکستان میں پہلی پر تشدد مذہبی شورش 1950 کی دہائی میں مجلس احرار نے شروع کی تھی اور بعد میں دوسری مذہبی جماعتیں ان کے ساتھ شامل ہوتی گئیں۔ مجلس احرار کے قائد عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے پاکستان بننے سے چند ماہ قبل ہی اپریل 1947 میں ایک جلسہ میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہمارا دین مکمل ہے اور اب مزید قانون سازی کفر ہوگی۔ [رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 ص 228 ]

تحریک نفاذ شریعت کے صوفی محمد صاحب نے ان سب مسائل کا ایک آسان حل نکالا تھا۔ انہوں نے جمہوریت کو ہی کفر قرار دے دیا۔ جب جمہوریت ہی کفر ہے تو کیسا آئین اور کون سا آئین؟ کیسی حکومت؟ اب تو ہر بغاوت اور خون خرابہ جائز۔ عدالتوں کا حل انہوں نے یہ ڈھونڈا کہ یہ عدالتیں تو بتوں کی پرستش کے مقامات ہیں۔ اور حکم صادر فرمایا کہ مالاکنڈ ڈویژن اور کوہستان سے سب جج باہر نکل جائیں۔

(Inside Alqaeda and Taliban by Salim Shehzad p 174)

یہ درست ہے کہ تحریک لبیک کا مسلک مندرجہ بالا مثالوں سے مختلف ہے۔ لیکن اس کی اٹھان کو سمجھنے کے لئے مذہبی دہشت گردی کے طریقہ واردات کو سمجھنا ضروری ہے۔ تحریک لبیک اس پلیٹ فارم پر نسبتی طور پر تازہ آمد ہے۔ اس کے طریقہ واردات کے مسلسل مطالعہ کی ضرورت ہے۔

حیرت ہے کہ جن مسالک کے علماء مختلف ادوار میں عوام کو مختلف حکومتوں کے خلاف بھڑکاتے رہے ہیں، انہی مسالک کے علماء نے ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کی اطاعت اور حمایت میں بہت سے فتاویٰ جاری کیے تھے اور اس میں بریلوی علماء بھی شامل تھے۔ یہ حقائق آئندہ کسی کالم میں پیش کیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments