فری سواری


طلوع آفتاب سے قبل ہی فرسٹ ائر کا یہ طالب علم ہلکی خنکی میں اپنا بہترین ( میسر وسائل کے مطابق ) لباس پہنے ٹائی لگائے ستیانہ روڈ فیصل آباد کی اس وقت کی محصول چونگی کے سامنے واقع فیصل آباد کے آخری گھر سے پیدل چلتا سرکلر روڈ ( مابین ریل و کچہری بازار ) پر واقعہ بس سٹینڈ پہنچ مطلوبہ بس سروس کا دفتر یا بکنگ آفس ڈھونڈتے فخریہ جالندھر کوآپریٹو بس سروس کے بکنگ کلرک کے سامنے تھا کہ آج وہ فیصل آباد کی اس وقت کی معروف بس کمپنیوں کے پارٹنر کے بھتیجے کے طور بطور وی آئی پی مسافر فیصل آباد سے لاہور ”فری سفر“ کرنے والا تھا۔

ابا جان شیخ دوست محمد شمس قیام پاکستان کے بعد کلکتہ سے لائے تمام سرمایہ یہاں کے حالات سے ناواقف ہوتے مختلف شراکت داریوں میں مکمل ضائع کر خالی ہو چکے اور اب ہم تینوں بھائی دوبارہ زیرو سے آگے بڑھنے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ ایسے میں ہمارے تایا محترم شیخ فضل الہی صاحب کا چند ہفتوں کے لئے ( ہماری ہوش میں پہلی اور آخری مرتبہ ) ہمارے گھر قیام کے لئے آنا ہمارے لئے انتہائی خوشی کا باعث تھا۔ تایا جی کا جالندھر میں پٹرول پمپ تھا تھا مگر قیام پاکستان سے قبل ہی لاہور آ کر انارکلی میں پنجاب کلاتھ ہاؤس میں برادر نسبتی کے ساتھ شراکت کر لی تھی۔

جب تایا جی کو پتہ لگا کہ میں اپنے بڑے بھائی متعلم کنگ ایڈورڈ کالج کو ملنے جانے کا ارادہ رکھتا ہوں تو فرمایا۔ بیٹا میں تو جالندھر سے ہی دو ٹرانسپورٹ کمپنیوں میں شیئر ہولڈر ہوں۔ کل ہی چیئر مین چوہدری عبدالحق سے ملاقات ہوئی۔ تم میرا رقعہ لے جاؤ اور ”ٹھاٹھ“ سے اپنی بس میں بیٹھ ”فری“ لاہور جاؤ اور آؤ۔

بکنگ کلرک نے رقعہ پڑھ تفصیل پوچھ قریب کھڑے ہاکر کو بلا مجھے کمپنی دفتر لے جا وہاں سے ”فری پاس“ جاری کروانے کی ہانک لگائی۔ فری پاس چوہدری صاحب کے دستخط سے جاری ہونا تھا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد چوہدری صاحب کے آنے پر شفقت سے مسکراتے کلرک کو ”فری پاس“ لانے اور دستخط کے بعد ہمارے حوالے کرتے ہمیں اڈہ سٹینڈ انچارج کے حوالہ پہلی بس میں بٹھا عزت سے بھجوانے کی ہدایت ہو گئی۔ جالندھر کوآپریٹو، چناب کوآپریٹو، اور ڈسٹرکٹ کوآپریٹو بس سروس میں سے دو میں تایا ابا کے شیئر تھے اور چوہدری عبدالحق شاید تینوں کے سربراہ تھے۔

تینوں کمپنیوں کی بسیں لاہور سے آتیں اور خالی ہونے سے پہلے مسافر گھس جاتے اور اڈہ انچارج ہمیں اگلی بس تک انتظار کی تلقین کرتا اور کوئی چار گھنٹہ انتظار کے بعد ہاکر نے ہمیں بائیں جانب فرنٹ سیٹ سے پچھلی نشست پر بٹھاتے باہر کھڑے ڈرائیور کو اونچی آواز میں ہدایت دی۔ ”چیمہ صاحب ایہہ فری سواری اے تے خیال رکھنا“ ۔

بس روانگی کا وقت آیا تو بکنگ کلرک اپنی فہرست اٹھائے اندر آیا۔ ”ہاں بھائی دیکھنا کوئی سواری بغیر ٹکٹ نہ ہو۔ ہاں وہ فری سواری کہاں ہے“ ہم کھڑے ہو چکے تھے۔ اس نے مسافر گنے واؤچر کنڈکٹر کو دیا اور بس چل دی۔ شیخوپورہ روڈ شاید ابھی زیر تکمیل تھی اور سفر براستہ جڑانوالہ تھا۔ اب کنڈکٹر کی باری تھی۔ واؤچر کے مطابق مسافروں کی گنتی کی اور پھر اس کی آواز گونجی

” جی وہ فری سواری کس سیٹ پہ ہے، مجھے پتہ ہونا چاہیے“ ہم پھر کھڑے ہو چکے تھے اور پوری بس اس خود کو وی آئی پی سمجھنے والے مسافر کا دیدار کر رہی تھی۔

بس ”اوا گت“ کے قریب پہنچی تو دیکھا سامنے سے آتی بس نے دور سے ہیڈ لائٹیں جلانی بجھانی شروع کی۔ دونوں بسیں کھڑی ہو گئیں اور دوسری بس سے ایک صاحب کاپی ہاتھ میں پکڑے کان پہ پکی پنسل لگائے ( اب پتہ نہیں آج کسی کو کچی اور پکی پنسل کے فرق کا پتہ ہے کہ نہیں۔ ) اتر ہماری بس میں داخل ہوئے۔ یہ ٹکٹ چیکر تھے۔ آتے ہی ٹکٹ بک وغیرہ چیک کی۔ کھڑے ہو مسافروں کو گننا شروع کیا اور پھر ہمارے کانوں میں پکار گونجی۔ ”وہ فری سواری ذرا چہرہ کرا دے“ ہم کھڑے چہرہ کرا رہے تھے اور ساری بس ہمارا چہرہ دیکھ رہی اور وہ مسکراتے بیٹھنے کا اشارہ کرتے واؤچر پہ نشان لگاتے دستخط کر رہا تھا۔

بس جڑانوالہ کے بس سٹینڈ پہ رکی۔ سواریوں کا تبادلہ ہوا روانگی سے قبل بکنگ کلرک اور کنڈکٹر کے درمیان واؤچر کا تبادلہ اور دستخط ہوتے وہ کنڈکٹر سے اونچی آواز میں پوچھ رہا تھا۔ ”وہ فری سواری کہاں بیٹھی ہے“ اور ہم بے اختیار کھڑے ہو اپنا دیدار کروا رہے تھے۔ اور نئے بیٹھنے والے مسافر بھی ”فری مسافر“ کو جان چکے تھے۔ ہمارا دل اونچی آواز میں بتانے کو چاہا کہ بھائی یہ فری مسافر کمپنی پارٹنر کا بھتیجا اور وی آئی پی ہے۔ مگر سب وی آئی پن ختم ہو چکا تھا۔ بچیکی سے آگے سڑک پر ایک شخص مخصوص انداز میں چھوٹی سی جھنڈی ہلاتا نظر آیا۔ بس روکی گئی۔ یہ صاحب بھی چیکر تھے وہی چکر دوبارہ چلا اور آخر میں ابھی ”فری سواری“ کی ف کی آواز گونجی تھی کہ ہم کھڑے ہو چکے تھے۔

بڑا شوق تھا کہ مانگٹانوالہ کے قریب سڑک کے انگریزی حرف ”ایس“ کی شکل دیتے چار موڑ غور سے دیکھ لئے جائیں۔ کہ جن میں ڈیزائن بنانے والے صاحب نے اپنا نام امر کیا تھا۔ جی، سردار سنت سنگھ سپروائزر، کی اپنا نام مستقل کرنے کے متعلق یہ روایت کالج میں مشہور تھی۔ اب یہ موڑ تو چار عدد سڑک میں تھے۔ آگے آپ کی مرضی جو سمجھیں۔ تاہم اس وقت ان پر غور کی بجائے دماغ کان متوجہ تھے کہ کہیں ”فری سواری“ کی آواز نہ پڑ جائے۔

شرق پور سے نکلتے ہی دوسری بس کا اشارہ دیکھتے ڈرائیور کی آواز گونجی ”اوئے پھر چیکر ہے۔ کاغذ پورے کر لو اور اسے پہلے ہی بتا دینا کہ ایک سواری فری ہے۔

بس شاہد رہ پل پار کرتے لاہور میں داخل ہو رہی تھی اور تازہ پڑھا منٹو کا افسانہ ”کھول دو“ یاد آ رہا تھا اور سلطان کی سرائے بس سٹینڈ پہنچنے سے پہلے کنڈکٹر کو ٹکٹوں سواریوں کی فہرست موازنہ کرتے دیکھ فری سواری کی ف کی آواز سننے سے پہلے ہی ہم نشست سے کھڑے ہو چہرہ کرا رہے تھے۔

بتاتا چلوں کہ آج سے پینسٹھ برس قبل لوکل بس کا ایک آنہ اور فیصل آباد لاہور کا کرایہ پورے دو روپے گیارہ آنے بچا چکا تھا۔ اور میرے لئے اس وقت یہ بہت بڑی بچت تھی۔ مگر فری سواری؟ اور بس سے اترنے سے قبل کمپنی پارٹنر کے بھتیجے کی اکڑ فوں دوبارہ آزمانے کا نسخہ، واپسی کے لئے تایا جان کا لکھا پروانہ پھاڑ کے بس کے اندر پھینکا جا چکا تھا۔

اگلی دو تین دہائیوں کے دوران جب کراچی میں آٹو پارٹس کے معروف ہم عمر دوست دکانداروں نے جو لیرک سنیما اور بمبینو، اسکالا کے مالک تھے، باکس میں بیٹھ فلم دیکھنے کی پیش کش کی تو یہی شرط رکھی کہ آپ کے پاس خود ساتھ جانے کا وقت ہے تو حاضر۔ ورنہ فلم کی طرف توجہ کی بجائے ”فری ٹکٹ والا کون ہے“ کی آواز کا ڈر رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments