بختاور شاہ۔ آزادی گلگت بلتستان کا متوالا


نوکیلی بڑی بڑی مونچھیں، چہرے پر سختی اور آنکھیں لال لال، تصویر دیکھ کر ہی ہیبت طاری ہوجاتی ہے نہ جانے سامنا کرنے والوں پر کیا بیتی ہوگی۔ بختاور شاہ کا تعارف کچھ اور انداز سے ہوا ہے مگر لمحوں میں دنیا بدل گئی اور پھر تاریخ میں اپنا نام رقم کر گئے۔ گلگت میں چھٹی جموں و کشمیر انفینٹری کے شیر دل حریت پسند کرنل مرزا حسن خان، کرنل احسان علی، کیپٹن محمد جرال، لیفٹیننٹ محمد حیدر وغیرہ آزادی کا نعرہ مستانہ بلند کر کے ڈوگرہ فوج کو للکار رہے تھے وہیں پر گلگت سکاؤٹس کے میجر بابر خان، کیپٹن شاہ خان اور دیگر سپاہی بھی جاں ہتھیلی پر لئے خطے کو آزادی دلانے پر تلے ہوئے تھے۔

ایک طرف بونجی چھاؤنی پر قبضہ جمایا گیا تو دوسری جانب گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا گیا یوں گلگت بلتستان کی آزادی کی راہ کا تعین ہوا۔ ایسے میں بونجی چھاؤنی سے ڈوگرہ سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد سکردو کی طرف فرار ہوئی کیونکہ سکردو میں ڈوگرہ فوج کرنل شیر جنگ تھاپا کی قیادت میں تعینات تھی نیز بلتستان سمیت کارگل، دراس اور لداخ کا پورا علاقہ ان کے قبضے میں تھا۔

ان ڈوگرہ سپاہیوں کا بھاگنا اتنا آسان نہیں تھا وہ اس لئے کہ یہ بھاگی ہوئی فوج سکردو پہنچ کر وہاں موجود ڈوگرہ فوج کو مزید تقویت فراہم کرتی ساتھ ساتھ گلگت بغاوت کی خبر پہنچ جاتی جس کے بعد حفاظتی اقدامات سخت کر دیے جاتے نیز کرگل و لداخ سے مزید کمک منگوائی جاتی۔ یوں گلگت سکاؤٹس اور مجاہدین کی سکردو کی جانب پیشقدمی بھی ناممکن نہ سہی تو انتہائی مشکل ضرور ہو جاتی بلکہ گلگت کی آزادی بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ اس گمبھیر صورتحال میں فرار شدہ ڈوگرہ سپاہیوں کا پیچھا کرنے اور انہیں سکردو پہنچنے سے پہلے گرفتار کرنے کے مشکل ٹاسک کے لئے نظر انتخاب بختاور شاہ پر پڑی جن کا تعلق حراموش سے تھا جو کسی جھگڑے کی وجہ سے ان دنوں قید تھے۔

بختاور شاہ نے اپنے نام کی لاج رکھی اور بہادری کا وہ کارنامہ سر انجام دیا جسے جی ایچ کیو کی جانب سے 1948 میں شائع شدہ ملٹری ہسٹری The Kashmir Campaign میں، کرنل مرزا حسن خان کی کتاب ” شمشیر سے زنجیر تک“ میں بڑی شان سے بیان کیا گیا ہے۔

بختاور شاہ نے ڈوگرہ سپاہیوں کا پیچھا کیا اور روندو کے مقام پر انہوں نے مفرور فوجیوں کو گھیر لیا اور ان پر گولیاں برسائی۔ کئی سپاہی لمحوں میں ڈھیر ہو گئے جبکہ باقیوں نے جان بچانے کی تگ و دو کی۔ اس معرکے کی صحیح تفصیل جاننے کے لئے ذرا The Kashmir Campaign کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان الفاظ میں بختاور شاہ کا تذکرہ ملتا ہے۔

”بختاور شاہ ڈوگرہ سپاہیوں پر ایسے پل پڑے جیسے چیتا اپنے شکار کو دبوچ لیتا ہے اور تکہ بوٹی کر دیتا ہے۔ پلاٹون کے کچھ سپاہی رسیوں والے پل کو پار کرنے لگے تو بختاور شاہ نے فائر کر کے اس طرح گھیرا کہ انہوں نے بختاور شاہ کے آگے سرنڈر کیا“

کتاب میں مزید لکھا ہے کہ ”بختاور شاہ نے تن و تنہا ان سب کے رائفلز اور مشین گن اپنے قبضے میں لے لیا اور گولیاں خالی کر دیں۔ بعد ازاں ایک جمعدار اور اکیس مفرور سپاہیوں کو قید کر کے واپس بونجی پہنچایا۔ ان کو انعام کے طور پر خصوصی بندوق دی گئی“

صرف اس مہم پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بختاور شاہ نے بعد میں سکردو کی طرف پیش قدمی کرنے والی کرنل احسان اور میجر بابر کی سپاہ کا بھی ساتھ دیا اور ژھری کے مقام پر سکردو گیریزن سے آئی ہوئی ڈوگرہ فوج کے ساتھ جو تصادم ہوا اس میں بھی جانبازی دکھائی۔ کرنل مرزا حسن خان اپنی کتاب میں اس واقع کے بارے میں لکھتے ہیں ”۔ کیپٹن نیک عالم ژھری کے نزدیک دریا کے دائیں جانب مورچہ سنبھالے ہوئے تھے جبکہ دریا کی دوسری جانب کیپٹن کشن سنگھ اپنی نفری کے ساتھ مورچہ زن تھے۔ نیک عالم ساتھیوں کی مدد سے گرفتار ہوئے اور کشن سنگھ کی گرفتاری مجاہد بختاور شاہ کی کئی دنوں کی ناکہ بندی کی وجہ سے عمل میں آئی۔ مجاہد بختاور شاہ نے ان دونوں افسروں کو رسی میں کس کر بطور تحفہ جنگ کرنل احسان علی، میجر بابر اور سلطان شاہ کے حوالے کیا“

احمد حسن دانی اپنی کتاب History of Northern Areas of Pakistan میں بختاور شاہ کی بہادری اور کارناموں کو سراہتے ہوئے رقمطراز ہیں

“This was an example of individual bravery for which act dare. devil man, Bakhtawar Shah, needs to be remembered in history


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments