پائلو کوئلو کی پینسل اور زندگی کی تحریر !


الکیمسٹ سے، ساری دنیا میں نام کمانے والے پائلو کوئلو، جنہیں اپنے فکر انگیز خیالات اور دلچسپ مشاہدات کے لئے ادبی حلقوں میں عموماً بہت سراہا جاتا ہے، اپنی ایک مختصر تحریر میں پینسل کی کہانی کی ابتدا کچھ یوں بیان کرتے ہیں :

ایک بچہ اپنی نانی کو کچھ لکھتے ہوئے دیکھ کر پوچھتا ہے، ہم نے جو کچھ کیا ہے، کیا آپ اس بارے میں لکھ رہی ہیں۔ اس کہانی کا کیا مجھ سے تعلق ہے۔

نانی نے لکھنا روک کر، بچے سے کہا کہ میں تمہارے ہی بارے میں لکھ رہی ہوں لیکن میرے لکھے ہوئے ان الفاظ سے زیادہ اہم، یہ پینسل ہے جو میں استعمال کر رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ جب تم بڑے ہو گے تو تم بھی اس پینسل کی طرح ہو گے۔

بچے نے پینسل کو اہم نہ گردانتے ہوئے، حیرانی سے جاننا چاہا کہ یہ پینسل بھی تو ویسی ہی ہے جیسی میں نے ہمیشہ دیکھی ہے۔

یہاں سے پائلو کوئلو کی پینسل کی کہانی شروع ہوتی ہے، مگر اس کہانی سے پہلے، کہانی کی اپنی کہانی بھی سنتے چلیں۔

کہانی کی دلچسپ کہانی یہ ہے کہ یہ، کہانی ہوتے ہوئے بھی، درحقیقت، حقیقت کی زبان بن جاتی ہے۔ انسانی ذہن، زندگی کے وہ پہلو جو بار بار نظر انداز کر دیتا ہے، کہانی وہ ہی باتیں، یاد دہانی کی خاطر، انھیں، بار بار نظروں میں لانے کے لئے وجود میں آتی ہے۔ کہانی الفاظ کا وہ اشتراک ہے، جو معنی کی نشاندہی کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔

لکھنے والا اور پڑھنے والا، اس عمل میں، وہ دو بنیادی کردار، جو کہانی کو اس کی ظاہری سطح سے بلند کر کے دل اور ذہن کی رفاقت سے ہمکنار کرتے ہیں۔ ایک کردار تخلیق کے مراحل طے کرتا ہے اور دوسرا کردار، تعمیل کے ارادے سے، تحریر کی بین الاسطور جاننے کا خواہشمند! اس طرح یہ کہانی، کہانی ہوتے ہوئے بھی، ایک بار پھر حقیقت کا سانچہ دکھائی دینے لگتی ہے۔

کہانی کار کے تخیل سے نکلے یہ تصورات، مشاہدات کی صورت میں، اس کے ہاتھوں کی گرفت میں آ کر، منتخب الفاظ کے پیراہن میں، جگنوؤں کی طرح منظر پر جگمگانے لگتے ہیں۔

عصر حاضر کے نامور کہانی کار کی حیثیت سے جنہیں شہرت اور پسندیدگی، ان کے آبائی ملک برازیل کی حدود سے نکال کر، دنیا بھر میں ادبی ذوق رکھنے والوں کی ریڈنگ لسٹ میں لے آئی ہے، دراصل ان ہی الفاظ ( کی وکالت کرتے ہوئے ) ان میں چھپے محرکات کو سمجھنے اور اپنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

پینسل کی کہانی، لکھے جانے والے الفاظ، ان الفاظ کی تخلیق میں آنے کے مراحل اور اس سارے عمل میں معاون کے طور پر پینسل کے استعمال کی علامتی توجیہہ ہے۔ ہر چند کہ اس کہانی میں، بات پینسل تک محدود ہے اور ان اشاروں میں قلم کا کہیں ذکر نہیں، مگر اپنی ذمہ داریوں اور طریقہ کار میں مماثلت ( اور مطابقت ) رکھنے کی وجہ سے پینسل کی یہ کہانی، یقینی طور پر، قلم اور قلم کاروں کے لئے بھی اتنی ہی معنویت اور اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں ہی انسانی رویوں اور معاشرتی فضا میں، شعوری اور غیر شعوری طور پر، بہتری اور خوش نمائی کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔

پائلو کوئلو، پینسل کی کہانی کے توسط سے پینسل کی پانچ خصوصیات بیان کرتے ہوئے، اس عزم (اور امید) کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر ان سے وابستگی برقرار رکھی جائے تو دنیا میں ہمیشہ سکون کے ساتھ رہا جاسکتا ہے۔

پینسل کی پہلی خوبی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہم بلاشبہ بڑے بڑے کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کوئی طاقت ہے جو قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ یہ خدا ہی ہے جو اپنی منشا کے مطابق، راستے دکھاتا ہے۔

پینسل کی اپنی ضرورت ہے کہ اسے کبھی کبھی تراشا جائے، اس سے ( بہ ظاہر) اسے تھوڑا نقصان ہوتا ہے مگر اس کے بعد یہ مزید تیز ( اور بہتر ) ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہمیں بھی زندگی میں دکھ اور غم برداشت کرنا، سیکھنا چاہیے۔ اس سے ہم بہتر انسان بن سکتے ہیں۔

پینسل ہمیں موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنی کی گئی غلطیوں کو مٹا دیں۔ گویا کسی چیز کی اصلاح، ضروری نہیں کہ ایک برا عمل ہو، اس طرح شاید ہم انصاف کے راستے پر گامزن رہ سکتے ہیں۔

پینسل میں سب سے اہمیت کی حامل شے، اس کا لکڑی سے بنا بیرونی حصہ نہیں، بلکہ اس کا اندرونی گریفائیٹ ہے، اس لئے ہمیں، ہمیشہ اس بات کو اہمیت دینی چاہیے کہ ہمارے باطن میں کیا ہے۔

حتمی طور پر، پائلو کوئلو کہتے ہیں، پینسل ہمیشہ کوئی نقش چھوڑتی ہے، اسی طرح ہمیں بھی یہ شعور ہونا چاہیے کہ زندگی میں ہمارا ادا کیا ہوا ہر عمل، ایک نقش ہے، لہٰذا اپنے ہر عمل کے حوالے سے ہمیں محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

اس طرح پینسل ( اور پینسل کی کہانی ) کو موضوع بنا کر، یہ بات واضح ہوتی نظر آتی ہے کہ تحریر اور تحریر کے عمل میں زندگی کے بہت سے راز خود کو منکشف کرتے ہیں اس لئے کہانی اور کہانی کار کے چنے الفاظ گرد و نواح کو خوب صورت اور انسانوں کے لئے بہتر سے بہتر رہنے کی جگہ بنانے کی کوشش کے لئے ہونے چاہیں۔

انسانی شعور کا ارتقا، بجا طور پر اس عہد کے باسیوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ ان کا طرز عمل اور طرز اظہار، پتھر، کانسی اور لوہے کے ادوار سے یقیناً مختلف ہو گا اور ان کے الفاظ کے چناؤ، خیال کی گہرائی اور کردار کے مظاہر میں، پینسل، قلم اور ( بلاشبہ ) کمپیوٹر کے دور کی جھلک، اس بات کو ثابت کرے گی کہ انسانی تہذیب اپنی پوری توانائی اور سچائی کے ساتھ اس کرہ ارض کو اخوت، رواداری اور یگانگت کی جائے پناہ بنانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments