حکومت کے انتالیس مہینے


غریب اور مڈل کلاس طبقے کو سازشی تھیوریوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ نام نہاد کرپشن اور چور چور کے خوشنما نعروں سے کبھی کسی غریب کا پیٹ نہیں بھرا۔ خندقیں کھودنے اور آئین سے کھیلواڑ کے بدنما کھیل میں سرکاری ہسپتالوں میں سسکتے پرچی کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کی امراض کا افاقہ ممکن نہیں۔ موجودہ دھرنے کے حامی وزیراعظم اور کابینہ کے ممبران کچھ لوگوں کے بغض میں اسی دھرنا دینے والوں کو تھپکیاں دیا کرتے تھے۔ اس وقت کے وزراء کو گولیاں ماری گئی۔ ان پر کالی سیاہی پھینکی گئی۔ حتی کہ منتخب وزیراعظم کو جوتا مارا گیا۔ آج اپنی اس ہڈی کو نہ نگل سکتے ہیں اور نہ اگل۔

ملک بدترین افراتفری کا شکار ہے۔ مہنگائی تاریخ کے سب سے اونچے ترین سطح پر ہے۔ بدانتظامی عروج پر ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی شروع کی ہوئی نفرت اور گالی گلوچ کی سیاست نے معاشرے کو انتہا پسندانہ سوچ کی گہری کھائی میں ڈال دیا ہے۔ خارجہ پالیسی ہو یا معاشی پالیسی، دونوں پستی کا شکار ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندرون خانہ اقتدار کے شوقین موقع کے انتظار میں، کہ کب بیچارے عمران خان کو دھکا دے کر نرم کرسی پر بیٹھنے کی سعادت ملے۔

بڑے بڑے چیلنجز جیسے سکڑتی معیشت، ماحولیاتی تبدیلی، ایشیا اور دنیا میں ابھرتے ہوئے نئے اتحاد اور نئے محاذوں کی تشکیل، افغانستان کا سمجھتا ہوا قضیہ، دہشت گردی کی ابھرتی ہوئی لہر، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بیروزگاری کی خطرناک صورتحال، ادارا جاتی مسائل، صحت کا گرتا ہوا نظام، چین کے ساتھ بہتر تعلقات میں سرد مہری، اداروں اور گورننس کے لئے بہترین پالیسیوں کی عدم دستیابی، جیسے مسائل حل کرنے کی بجائے حکومت وقت منفی ایجنڈے کے فروغ اور بغض اپوزیشن میں ملکی مفاد کو ہی بھول چکی ہیں۔

گزرے ہوئے 39 مہینے حکومت کی سرد مہری کی نظر ہو چکے ہیں جو کرنا تھا وہ نہ کر سکے۔ ملک کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے لے کر گئے ہیں 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے بارے سے ہوا نکل چکی۔ بہتر ہوتا کہ یہ نا اہل حکمران کھوکھلی نعروں اور سازشی جالوں کی بجائے عوامی مسائل کا حل کرنے میں اپنی توانائیاں خرچ کرتی۔

کیا کبھی ہم اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے؟ کیا پالیسی ساز اس امر پر غور کرے گے کہ موجودہ حکومت رحمت کی بجائے زحمت بن کر عوام پر بوجھ بن چکی ہے؟ کیا اس پر کبھی غور ہو سکے گا کہ ان 39 مہینوں میں معیشت کا جو بیڑہ غرق کیا گیا ہے۔ ان کی تلافی کتنے برسوں میں ہو سکے گی؟

اب بھی وقت ہے۔ غلطیوں کی اصلاح ہی سے اقوام ترقی کے منازل طے کرتی ہیں۔ بشرطیکہ ناکام پالیسیوں سے سیکھ کر نئی پالیسیاں بنا کر، جمہوری رویوں کو فروغ دے کر، جمہوریت کو توانا اور پارلیمنٹ کو طاقت کا سر چشمہ بنا کر، ذاتی انا کی قربانی دے کر نیک نیتی سے آگے بڑھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments