تنقید کی روایت کا دم توڑنا


اپیکیورس کا کہنا ہے کہ زندگی سادہ گزارنی چاہیے۔ مال و دولت کی فراوانی اور تعیشات کی افراط سے انسان کی حقیقی مسرتوں میں اضافہ نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے برعکس خواہشات کی کمی اور فطرت سے ہم آہنگ سادہ زندگی بسر کرنے سے انسان دلی اطمینان حاصل کرتا ہے۔

اپیکیورس نے افلاطون کے افکار سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے دبستان کی بنیاد ڈالی۔ اس نے ایک ایسی درسگاہ قائم کی جہاں غلاموں اور عورتوں کو بھی آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اپیکیورس اور اس کے ساتھی نہایت سادہ خوراک کھاتے اور رہن سہن کے سادہ ترین طریقوں کو فروغ دیتے تھے۔

اپیکیورس جن فلسفیوں سے متاثر تھا ان میں ڈیموکریٹس اور ارسطپوس کے نام اہم ہیں۔ اپیکیورس کی تصانیف 300 سے زیادہ تھیں ؛ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یونان کی فضا تنقید اور تحقیق کے لیے کتنی سازگار تھی۔ دراصل تنقید کے بغیر تحقیق کا تصور ہی محال ہے۔

یورپ نے تنقید کی روایت یونان سے حاصل کی۔ یونان میں ارسطو اور افلاطون سے پہلے بھی تنقید کی روایت موجود تھی لیکن کسی ترتیب میں دستیاب نہ ہونے کے باعث ان سے کوئی باقاعدہ نظریہ اخذ نہ کیا جا سکا۔ افلاطون کی ”جمہوریہ“ میں نہ صرف شاعری پر کڑی تنقید دیکھنے کو ملتی ہے بلکہ زندگی کے دوسرے شعبہ جات کے حوالے سے بھی ان کے تنقیدی نظریات سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح ارسطو نے بھی دیگر فلسفیوں کی طرح افلاطون کے نظریات سے اختلاف کیا۔

ارسطو کے استدلال سے ہمیں یونانی تنقید کے قاعدے اور طریقے کار کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یونانیوں کی جس چیز نے نت نئے نظریات پیش کرنے میں سب سے زیادہ معاونت کی وہ ”تنقید“ ہے۔ اسی کی بدولت وہ تلاش اور دریافت کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ سائنسی تھیوریز پر مضبوط تنقید سے حقائق کی توثیق ہو جاتی تھی اور نقائص کھل کر سامنے آ جاتے تھے۔ یوں غور و فکر کا خود کار نظام وجود میں آتا گیا جس نے طب، منطق فلسفہ اور ادب جیسے میدانوں میں ناقابل فراموش کارنامے سر انجام دیے۔ یہ بات بلا شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ اگر یونانی تنقید کی طرح نہ ڈالتے اور اس کو اپنے اجتماعی فکری نظام کا حصہ نہ بناتے تو کبھی علمی کارنامے انجام نہ دے سکتے۔ انھوں نے علم کو دریافت کرنے اور مظاہر فطرت کا مطالعہ کرنے کے لیے تنقید کو بطور اساس اپنائے رکھا۔

یورپ میں تنقید کی بنیاد یونانی طرز پر رکھی گئی۔ ادب اور فنون لطیفہ پر تنقیدی نظریات کی بنت سے لے کر فلسفیانہ افکار اور سائنسی نظریات تک سب تنقید کی بھٹی میں پکنے لگے۔ نشاۃ ثانیہ سے یورپ میں مختلف نظریات کھل کر سامنے آنے لگے جنھیں نہایت لچکدار انداز میں دیکھا اور پرکھا جانے لگا۔ یوں مختلف شعبوں میں جذباتی لگاؤ اور اندھی تقلید کے دروازے بند ہوتے گئے۔ معاشرتی سطح پر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کے رویوں میں تحقیق اور تقابل جیسی خوبیاں پیدا ہونے لگیں۔ نتیجتاً مختلف خیالات و افکار کو جگہ دی جانے لگی اور تحمل سے حقائق کی تلاش کا عمل تیز تر ہوتا گیا۔

تنقید کی رو اتنی تیز تر ہو گئی کہ مذہب تک اس کی زد میں آ گیا۔ کانٹ وہ پہلا فلسفی بن کر ابھرا جس نے مذہب پر تنقید کے دروازے کھولے۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح کھرے کھوٹے کو پرکھا جا سکے گا اور سچ کی تائید کی جا سکے گی۔ اس عمل سے یورپی معاشرے نے بہت سی من گھڑت روایات اور رسومات سے نجات پائی اور معاشرے میں مکالمے کی فضا پیدا ہوئی؛ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنا، پرکھنا اور بہتر کا انتخاب کرنا آسان ہوتا گیا۔

دوسری جانب مطلق العنان بادشاہتوں اور جابر حکومتوں میں خوشامد کی روایت نے زور پکڑا۔ عوامی نظریات اس قدر مبالغہ آمیز ہوتے گئے کہ ان میں عام آدمی کو دیوتا بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ ہندوستانی معاشرے میں خوشامد کی درباری روایت کئی صدیوں تک قائم رہی۔ موروثی بادشاہتوں کے ختم ہونے کے بعد بھی جن درباری باقیات کو فروغ حاصل ہوا ان میں خوشامد سر فہرست ہے۔ ایسے معاشرے میں تنقید ایک ناقابل معافی جرم بن جاتی ہے جہاں خوشامد کا بول بالا ہو۔ نتیجتاً کھرے کھوٹے کو پرکھنا، تحقیق و جستجو کرنا اور اختلاف رائے رکھنا یا طے شدہ نظریے سے ہٹ کر سوچنا سب ختم ہوتا جاتا ہے۔

عوام بلند مرتبہ افراد کی خوشامد کرتے ہیں۔ حتی کہ حکام اور صاحبان ثروت کے وہ اوصاف بھی گنوانے لگتے ہیں جو ان میں پائے ہی نہیں جاتے۔ عوام میں مفاد پرستی، موقع پرستی اور منافع خوری جیسی خصلتیں پیدا ہونے لگتی ہیں اور انھی کو کامیابی کی کنجی تصور کیا جاتا ہے۔ غلطی کی نشاندہی نہیں کی جاتی اور حقائق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لہذا معاشرہ تحقیقی و تخلیقی سطح پر جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ سر سید نے مغلوب ہندوستانیوں میں خوشامد کی بیماری پھلتے پھولتے دیکھی تو اس پر مضامین لکھنا شروع کر دیے مگر ایک زمانہ گزرنے کے بعد بھی اس مرض کا علاج نہ کیا جا سکا۔

بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں تنقید کی جگہ خوشامد اور تحقیق کی جگہ اندھی تقلید نے لے لی۔ خوشامد پسندی نے عوام سے وہ اخلاقی جرات بھی سلب کر لی ہے جس سے غلط کو غلط کہا جا سکتا ہو؛ کسی نظریے، فلسفے یا طریقہ عمل سے اختلاف کیا جانا جرم تصور کیا جانے لگے تو فکری ترقی کے در بند ہو جایا کرتے ہیں۔ ایسے میں اصلاح کی گنجائش کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کو فکری بانجھ پن سے نجات دلانے کے لیے مطلق العنان بادشاہوں کے رویوں کو چھوڑنا ہو گا اور تنقید کو بطور روایت قبول کرنا ہو گا۔

سید بابر علی زیدی
Latest posts by سید بابر علی زیدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments