حرف تہجی” خ” اور انسان


انسان بھی عجیب شے ہے،
بچپن میں ”خوشیوں“ کے پیچھے بھاگتا ہے،
لڑکپن میں ”خواہشات“ کے پیچھے بھاگتا ہے،
جوانی میں ”خزانے“ کے پیچھے بھاگتا ہے،
اور! موت کے ”خوف“ سے
بڑھاپے میں ”خدا“ سے دور بھاگتا ہے،
انسانی زندگی ایک حرف تہجی ”خ“ میں بند ہے،
جس طرح ایک قیدی جیل میں قید ہوتا ہے، بالکل انسان کو بھی ایک قید کا سامنا ہے،

یہی ”خ“ پھر ”خرابیاں“ پیدا کرتا ہے، تو انسان ”خود غرض“ بن جاتا ہے، وہ معاشرے میں دندناتا پھرتا ہے، درندوں کی طرح شکار کرتا ہے، اور اپنی طرز کے منفرد نوکیلے دانتوں سے شکار کو نوچ ڈالتا ہے۔

وہ مقصد سے بھٹک گیا ہے، جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا، ایک عظیم مقصد جس کا محور ”خدا“ کی ذات تھی یہی تو کھلا تضاد ہے، انسان نے اصل خ کو چھوڑ کر بالکل پس پشت ڈال کر عارضی اپنے بنائے ہوئے مٹی کے بتوں کی پوجا شروع کر دی ہے، جن کے نام اس نے خ سے رکھ لئے ہیں، تاکہ خدا کو دھوکا دیا جا سکے، مقصد سے تو دور ہے ہی انجام سے بھی ڈرتا ہے، ڈرتا بھی ہے اور پھر اکڑتا بھی ہے۔

وہ ”خاک“ میں ملنا نہیں چاہتا، وہ ”خاص“ اہمیت کا حامل انسان بننا چاہتا ہے، جسے موت نہ آئے، وہ ہمیشہ زندہ رہے، موت سے دور تو ”خانہ بدوشوں“ کی طرح بھاگتا ہے، لیکن یہ خانہ بدوش پھر عربوں کا مالک بھی بننا چاہتا ہے، دنیا خرید کر لوگوں کو دکھانا چاہتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے۔

محلوں میں رہنا پسند کرتا ہے، حقیقت سے اسے ”خارش“ ہوتی ہے، جسے انگریزی میں الرجی کہا جاتا ہے، وقت ایک جیسا نہیں رہتا وہ سویاں بدلتا رہتا ہے، تاکہ آگے بڑھ سکے، ایک جگہ ساکن رہنے سے تو پانی بھی گدلا ہو جاتا ہے، وقت رک جائے گا تو دنیا ختم ہو جائے گی، لیکن اس پاگل انسان کی آرزو تو دیکھیں وہ وقت کو روکنا چاہتا ہے، تاکہ وہ دنیا میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکے حالانکہ ایسا کرنا تو اختتام کی جانب پہلا قدم ہو گا۔

شادیاں کرتا ہے، جنسی تعلق کو انجوائے کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے، انہیں بڑا کرتا ہے، ہزاروں خواہشیں پوری کرتا ہے، حرام حلال میں تمیز کو ساکن رکھ کر دن رات کام کرتا ہے، خواہشات نفسانی کے پیچھے قتل تک کر ڈالتا ہے، وہ ایسا ہی ہے ز خون ریزی کرنا شاید انسانی فطرت ہے، طاقتور بننا ہے معاشرے میں ہمیشہ کی غرض سے جینا ہے، ذخیرہ اندوزی اس قدر کرنی ہے کہ نسلیں بیٹھ کر کھا جائیں پھر بھی ختم نہ ہو، لیکن یہ نسلیں اور سے اور کی دور میں بہت اگے نکل جاتی ہیں،

جوانی ختم تو بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے، اور یہ وقت اتنی شدت سے آگے بڑھتا ہے جس شدت سے عورت کی جوانی ڈھلتی ہے، پھر اسے ”خوابوں“ سے بھی نفرت ہونے لگتی ہے،

اسے کسی نہ کسی حقیقت کا ”خوف“ ہر وقت کھائے رکھتا ہے، اور یہ خوف موت کا خوف ہوتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا، دانت گر جاتے ہیں، خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے، چہرے کے نقوش ڈھیلے ہو جاتے ہیں، زندگی ختم ہونے کا ڈر واپس اسے آندھی وادیوں میں گھسیٹ کر لے جاتا ہے، خاموشی کا راج اس کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے،

ساری زندگی سکون کے لئے بھاگ دور میں گزار دیتا ہے، اور ایک دن اسی سکون سے اسے نفرت ہونے لگتی ہے، نفسیاتی طور پر دباؤ میں آ جاتا ہے، جس سے وہ ”خطرات“ میں گھرا ہوا نظر آتا ہے، ”خلوتی“ میں رہنا پسند کرتا ہے،

”خطرناک“ ترین صورتحال کا شکار ہو جاتا ہے، لیکن پھر بھی اکڑ میں رہتا ہے،
جس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ”خود کشی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments