میثاق جمہوریت کی فتح: نوشتہ دیوار


پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بظاہر بہت الجھا ہوا دکھائی دے رہا ہے، لیکن سیاسی بصیرت کی دوربین سے ائندہ برسوں کا منظر صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ مخلوط حکومت کا نظریہ اپنی عمر پوری کرچکا، مستقبل کا نقارچی میثاق جمہوریت میں طے کیے گئے اصولوں کی فتح کا دف بجا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کو یہ بات آئیڈیل ازم پر مبنی خوش فہمی لگے، لیکن حقیقت پسندی پر مبنی وسیع البنیاد سیاسی تجزیہ مستقبل کے اسی منظر نامے کی نشاندہی کرتا ہے۔

1988 میں ضیا الحق کی موت کے نتیجے میں بحالی جمہوریت کا سفر منطقی تسلسل کے ساتھ اگے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کی تفہیم حاصل کرنے کے لئے اور مستقبل کی شفاف بینی کے لئے گزشتہ 23 سال کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنرل ضیا الحق، ذوالفقار علی بھٹو کے قتل اور ان کی سیاسی جماعت کے خاتمے کے لئے تمام ریاستی قوت کے استعمال کے باوجود، جب پیپلز پارٹی کی مقبولیت ختم کرنے میں ناکام ہو گیا، تو مقتدرہ نے ضیا الحق کو منظر سے ہٹانے کا واحد اپشن استعمال کرتے ہوئے، کسی قدر غیرجانبدارانہ انتخابات کے بعد حکومت بے نظیر بھٹو کو منتقل کر دی۔ لیکن اس سے پہلے بے نظیر کے راستے محدود کرنے کے لئے آئی جے آئی تشکیل دی جا چکی تھی۔ اور نواز شریف کو لیڈر بنا کر پیش کیا گیا۔ بے نظیر کو چونکہ مجبوری کے تحت وزیراعظم تسلیم کیا گیا تھا، لہذا جلد ہی ان سے جان چھڑا لی گئی، اور اپنے آدمی نواز شریف کو بطور وزیراعظم نصب کر دیا گیا۔ لیکن اس کا کیا جاتا کہ وہ بھی سولین تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے ساتھ بھی اختلاف پیدا ہوا اور انھیں بھی چلتا کیا گیا۔ بینظیر پھر وزیراعظم بنیں، لیکن مقتدرہ کی سازشوں اور بھٹو خاندان کے داخلی اختلافات کے باعث، پہلی بار اپنی مقبولیت کھو بیٹھیں، برطرف کی گئیں اور مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ سیاسی حریف کی کمزوری سے ہمت پاکر نواز شریف نے وزیراعظم کے اختیارات استعمال کرنا شروع کیے تو مقتدرہ کو براہ راست مخالفت کا راستہ اپنانا پڑا۔ نواز شریف نے تحریری سمجھوتہ کر کے، خاندان سمیت جدہ میں پناہ لینے میں ہی عافیت جانی۔

اسی دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے، یکساں قسمت کے شکار نواز شریف کو، جمہوریت کے تحفظ کے لئے، سیاسی جماعتوں کے مابین سمجھوتے کی تجویز دی۔ اب نواز شریف کو بھی زمینی حقائق کا ادراک ہو چکا تھا، اور یوں میثاق جمہوریت طے پایا۔ اگرچہ اس دستاویز پر کئی دیگر جماعتوں نے بھی دستخط کیے ، لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ہی، اس میثاق کی اصل طاقت ہیں۔

یہاں ایک نقطہ قابل غور ہے کہ مشرف مخالف عوامی تحریک اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ، چونکہ پرویز مشرف انتہائی غیر مقبول ہو گئے تھے، لہذا 2008 کے انتخابات میں جنرل مشرف اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کرسکے۔ ایسا اس لئے ہوا کہ مقتدرہ عوام کی ناپسندیدگی کا ہدف نہیں بننا چاہتی تھی۔

2008 اور 2013 کے انتخابات کے بعد بالترتیب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو حکومتیں سونپی گئیں۔ نواز شریف نے پرویز مشرف پر مقدمہ چلانا شروع کیا تو 2014 میں اسلام آباد میں دھرنا دلوایا گیا۔ 80 کے عشرے کے منصوبے کا اعادہ کرتے ہوئے ایک اور شخص کو سیاسی میدان میں اتارا گیا، لیکن اس بار جس آدمی پر دست کرم رکھا گیا وہ بہت ہی زیادہ اناڑی تھا، اتنا گھامڑ کہ دھرنے کے دوران ہی اپنے کرم فرماؤں کو اور خود کو، بارہا بے نقاب کرتا رہا۔ قصہ مختصر، جیسے تیسے کر کے نواز شریف سے بھی جان چھڑوا لی گئی اور انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کر کے عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی پر نصب کر دیا گیا۔ اس شخص نے حکومت میں آنے سے قبل جو فریضہ انجام دیا، وہ دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت، اور جمہوری نظام کو گالیاں دینا تھا۔ مقتدرہ کا گمان تھا کہ عمران ہماری مکمل حمایت سے اچھی اداکاری کے ذریعے اپنا سکہ جما لے گا۔ یہاں اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملکی اور عالمی صورتحال کے پیش نظر مقتدرہ نے پس پردہ رہتے ہوئے، سیاست کی طنابیں اپنے ہاتھ میں رکھنے کی پالیسی اپنائی تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام تک اس پالیسی پر بڑی کامیابی سے عملدرآمد کیا گیا۔ لیکن مشکلات تب پیدا ہونا شروع ہوئیں جب اس سول ملٹری مخلوط حکومت کو چلانے کی باری آئی۔ تب بے نظیر بھٹو کا وہ خدشہ درست ثابت ہوا جب انھوں نے عمران کی بنیادی ذہانت پر شبے کا اظہار کیا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد بھی وہ ایک جا رہا نہ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے رہے اور حکومتی ایوانوں کو کسی 20 اوور کے کرکٹ میچ کے میدان میں تبدیل کر دیا۔ گزشتہ 3 سالوں میں، یہ چھپی حقیقت آشکار یو گئی کہ عمران سیاست اور انتظامی امور سے متعلق کسی بھی طرح کی صلاحیت سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ اور جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو اس کی اوپر کی قیادت اپنے لیڈر کی طرح نالائق ہے۔ اور اس جماعت کے کارکن عمران خان کی ذات کے پرستاروں کے ہجوم کے سوا کچھ نہیں۔

اقتصادی شعبے میں حکومت کی پے در پے ناکامیوں کے باعث معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا، نتیجتاً روز افزوں مہنگائی نے عام آدمی کی حالت بہت خراب کردی۔ سونے پر سہاگہ یہ کی انتظامی امور، داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی میں بھی ایک کے بعد ایک ناکامی نے، عوامی ناپسندیدگی کو آہستہ آہستہ عوامی ناراضگی اور غصے میں بدل دیا۔

اس صورتحال میں نواز شریف کے سیاسی بیانئے کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ وہ یوں کہ نواز شریف پنجاب کے مقبول ترین راہنما ہیں، لہاذا ان کے بیانئے کو پنجاب میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ نواز شریف کے پیغام کو بڑھاوا دینے میں مریم نواز نے ملک میں رہتے ہوئے، عوام کے ساتھ براہ راست رابطے کے ذریعے اہم کردار ادا کیا۔ ادھر بلاول بھٹو زرداری نے بھی وزیراعظم کے لئے سلیکٹڈ کی اصطلاح عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنی ذات بارے ان تمام منفی حوالوں کو مقبول عام کرنے میں خود عمران خان اور ان کی ٹیم کی نا اہلی نے مرکزی کردار ادا کیا۔ پنجاب اکثریتی آبادی والا صوبہ ہونے کی وجہ سے مرکزی حکومت کے قیام میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ نون لیگ کے کارکنوں کے علاوہ مسائل میں گھرے پنجاب کے عام آدمی نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا کے سلیکٹڈ کی تمام ناکامیوں کی وجہ دراصل سلیکٹرز ہیں، جو اس نا اہل حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لہاذا مقتدرہ نے بدنام حکومت سے فاصلہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اکیلے رہ جانے کے خوف کی وجہ سے عمران نے آخری حربے کے طور پر فوج کی اعلی قیادت کو تقسیم کرنے کی کوشش کی، جس میں ناکامی کے بعد ان کا جانا اب تقریباً ٹھہر چکا ہے۔

یہاں یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلاشبہ آج بھی اقتدار اور اس کے ذرائع پر مقتدرہ کی آہنی گرفت مضبوط ہے، بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ لیکن کوئی بھی طاقت لامحدود اور غیر مشروط نہیں ہوتی۔ لہاذا کسی بھی ملک کی مقتدرہ کی طرح ہمارے وطن عزیز کی مقتدرہ بھی عوام کی مخالفت مول نہیں لے سکتی۔ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت کو غیر مقبول بنانے کے لئے پروپیگنڈا کے تمام ممکنہ ذرائع کو استعمال کیا گیا۔ لیکن ہائبرڈ سیاست اور حکومت کیں ہت عرق ریزی سے تیار کیے گئے منصوبے کی مکمل ناکامی نے، مقتدرہ کو اس منصوبے کو ترک کر دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس لئے ملک کو درپیش انتہائی پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کے لئے، زمین پر موجود دو بڑی اور حکومت کا تجربہ رکھنے والی سیاسی جماعتوں پر انحصار کے علاوہ، سردست کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ جماعتیں اقتدار میں زیادہ اشتراک کی کوشش کریں گی۔

یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مقتدرہ اقتدار سے بے دخل کی جا سکتی ہے۔ ایسا تو امریکہ، برطانیہ اور بھارت جیسے ممالک میں بھی نہیں کیا جا سکا، اور نہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جب تک ریاستی وجود موجود ہے، دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ملکی سلامتی کے دفاعی شعبہ میں افواج کی رائے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن سیاسی ارتقا کے تمام اشاریے اس امر کی جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ مقتدرہ کو اقتدار میں سیاسی حکومتوں کو زیادہ حصہ دینا پڑے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments