الٹوپیا


انسان کی سستی ترین عیاشی تخیل گردی ہے۔ افلاطون نے تخیل کی طاقت استعمال کرتے ہوئے ایک مثالی و خیالی ریاست یعنی یو ٹوپیا کا تصور باندھا تھا۔

آئیں! کچھ دیر کے لیے ہم بھی اس عیاشی سے لطف اٹھاتے ہیں۔ ہم بھی تخیل گردی کرتے ہوئے افلاطونی یو ٹوپیا کے مد مقابل ایک ریاست کو تخلیق کرتے ہیں۔ آپ اس ریاست کا کوئی بھی نام تجویز کر سکتے ہیں لیکن چونکہ ہم نے افلاطون کی خرافات کو ملیا مٹ کرنا ہے تو ہماری اس تخیلاتی ریاست کو الٹو پیا کے نام سے یاد کیا جائے تو بہتر ہے۔

الٹو پیا میں ہر معاملہ الٹا جاری ر ہتا ہے یعنی افلاطونی یوٹوپیا کے بر عکس ریاست الٹوپیا کا بادشاہ دانا و حکیم و فلسفی و کشادہ نظر و حقیقت شناس بالکل نہیں ہے بلکہ الٹوپیا کا بادشاہ احمق ہو نے کے ساتھ ساتھ متکبر المزاج و انا پرست بھی ہے اور گہری فہم و فراست تو دور کنار۔ یہ بادشاہ عقل سلیم سے بھی محروم ہے۔ اس بادشاہ کا ہر سیدھا بیان الٹ نتائج پیدا کرتا ہے اور ہر الٹ بیان غریب رعایا پر مزید الٹ جا تا ہے۔ مثال کے طور پر بادشاہ اگر یہ کہتا ہے کہ میں ریاست کو عوام دوست ریاست بنا دوں گا تو دراصل وہ ریاست کو عوام دشمن بنانے میں سرگرم عمل ہو تا ہے۔ اس کا ہر احمقانہ عمل۔ اس کے منہ سے نکلے ہر پردانش لفظ کا منہ چڑھا رہا ہو تا ہے۔

جہاں تک بادشاہ کے دربار کا قصہ ہے تو شاہی دربار موقع پرستوں، چمچہ گیروں اور ناٹک بازوں سے بھرا رہتا ہے ( جبکہ غریب افلاطون واہیات بات کرتا تھا کہ ریاست کی ڈوریاں فکر و علم و صداقت سے مزمن اعلی ترین دماغوں کو سونپنی چاہییں ) ۔

افلاطون کی کو تاہ نظری کے مطابق ریاست میں تنظیم و عدل قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کا ہر ستون اپنے ذمے کا کام کرے لیکن ریاست الٹوپیا میں سیاست دان کارو بار کرتے ہیں، کاروباری افراد سیاسی شغل رکھتے ہیں اور حفاظتی ادارے ہر فن مو لا ہوتے ہیں۔

یو ٹوپیا میں ریاستی گرفت، اتھارٹی اور رٹ بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے برعکس الٹوپیا میں ریاست کی گرفت تیز و تند ہوا میں پتے کی طرح چکر لگاتی رہتی ہے، کبھی ادھر کبھی ادھر کبھی بس ہوا میں معلق۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments