آریان خان، سیاسی داؤ اور سیکولر سماج


مجھے ذاتی طور پر شاہ رخ خان کی ادا کاری بحیثیت رومانوی ہیرو کچھ زیادہ اچھی نہیں لگتی۔ جس زمانے میں شاہ رخ خان ایک کے بعد ایک سپر ہٹ فلم دے رہے تھے اور سلور سکرین پر نمبر ون کی دوڑ میں سب سے آگے رہتے تھے، میں ان کی اداکاری کو سنجیدہ نہیں سمجھتی تھی۔ مجھے وہ خاصے اوور ایکٹنگ کا شکار لگتے تھے۔ لیکن اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ بالی وڈ کا یہ ”بے تاج بادشاہ“ اپنی غیر معمولی ذہانت، بے انتہا محنت اور سرمایہ کاروں سے تعلقات کے صحیح استعمال کا ہنر جانتا ہے اور اسی لیے ابھی تک اپنی ”سٹارڈم“ کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ لیکن یہاں بات ان کی ادا کاری سے متعلق نہیں۔

پچھلے دنوں اکتوبر میں ان کے تئیس سالہ بیٹے آریان خان کی کروز ڈرگ کیس میں انڈیا کے نارکوٹکس کنٹرول بیورو کے افسر سمیر وانکھیڑے کے ہاتھوں گرفتاری، تفتیش، جیل اور چار ہفتوں کے بعد ضمانت کی خبریں سننے، پڑھنے اور دیکھنے کو ملیں۔ اس کیس کو سمجھنے کی کوشش میں پڑوسی ملک کی عدلیہ، سیاسی نظام، میڈیا اور سول سوسائٹی کے برتاؤ کو نئے سرے سے سمجھنے کا موقع بھی ملا۔

ایک عام تاثر یہ ہے کہ آریان خان کو مسلمان باپ کے ناکردہ جرم کی سزا دی جا رہی ہے لیکن پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ آریان کا کیس لڑنے والے اور ضمانت دلانے والے چوٹی کے تینوں وکلا ستیش مانشندے، امیت ڈیسائی اور مکل روہتگی ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں (جنہوں نے نچلی عدالتوں کے بعد ممبئی ہائی کورٹ میں بھی بحث کی کہ آریان کے پاس سے کوئی نشہ آور چیز نہ تو برآمد ہوئی اور نہ وہ نشہ کیے ہوئے تھے اور ان کا رابطہ کسی بین الاقوامی ڈرگ مافیا سے بھی نہیں جیسا کہ این سی بی کے افسر سمیر وانکھیرے دعوی کر رہے تھے)۔

ضمانت دینے والے جج بھی ہندو ہیں اور ضمانت کا سیکورٹی بانڈ بھرنے والی پیاری فنکارہ جوہی چاولہ بھی ہندو ہیں اور ”منت“ کے باہر ایک مہینے سے حاضر رہنے والے ہزاروں فلمی قدر دان بھی سارے مسلمان نہیں۔ اور تو اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر احتجاج کرنے والے بھی زیادہ تر مسلمان نہیں۔ شتروگھن سنہا، روینہ ٹنڈن، ٹونکل کھنہ اور ان جیسے بہت سے فنکاروں کا تعلق شاہ رخ خان کے مذہب سے نہیں۔ تو پھر یہ معاملہ آخر ہے کیا؟

اسے سمجھنے کے لیے انڈیا کے موجودہ سیاسی دھارے کے بدلتے ہوئے رخ کو جاننا پڑے گا۔

1947 میں بٹوارے کے بعد سے انڈیا میں انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت رہی ہے جس نے سیکولر معاشرے اور جمہوری کلچر کو فروغ دینے پہ اپنی سیاست کی بنیاد رکھی۔ ان کے دور میں انڈین فلم انڈسٹری، بالی وڈ نے ایک انڈسٹری کے طور پر قدم جمائے اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں بہت نام کمایا۔ بالی وڈ جو خاص طور پر نارتھ انڈین علاقوں سے منسلک سمجھا جاتا ہے اور جہاں ہندی اردو میں فلم بنتی ہے وہاں مذہب سے بالا تر ہو کر فن کی قدر کی جاتی رہی ہے اس لیے وہاں سیکولر ازم اور لبرل ازم کو فروغ پانے کے بہت مواقع ملتے رہے ہیں۔

ترقی تو ساؤتھ انڈیا کے ٹالی وڈ نے بھی تامل، تیلگو اور ملیالم زبانوں کی فلموں میں بے انتہا کی ہے لیکن وہ موضوع کا حصہ نہیں۔)

اب جناب جب انڈسٹری کے لوگ سیکولر ہوں گے تو فلموں کے موضوعات بھی سیکولر ہوں گے اور جمہوریت کی آزادی ہو گی تو ظلم پر کھلا احتجاج بھی ہو گا۔ تبھی تو گجرات میں ٹرین جلانے کے خوفناک حادثے پر ”کائی پو چہ“ اور کشمیر کے مظالم پر ”حیدر“ جیسی فلمیں بنتی رہی ہیں۔ رہی سہی کسر ”بجرنگی بھائی جان“ اور ”پی کے“ جیسی فلموں نے پوری کردی۔

طویل مدت تک بائیں بازو کی نظریاتی حکومت، انڈین نیشنل کانگریس کے بعد اب دائیں بازو کی نظریاتی جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی، ( بی جے پی ) کی حکومت بھی عوام کے ووٹوں سے ہی منتخب ہوئی ہے اور اس کا انداز سیاست دائیں بازو والا یعنی بنیاد پر ستیوالا ہے۔ کانگریس کی بنیاد سیکولر ازم پر رکھی گئی تھی اور بی جے پی کو سیکولر لفظ سے چڑ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بالی وڈ سیکولر ازم کا گڑھ ہے۔ ان کے خیال میں چونکہ دنیا بھر کے لوگ فلمی ستاروں کو جانتے اور مانتے ہیں اور ان کا اثر عام ہندوستانی پر بہت گہرا ہے لہذا سیکولر ازم کے جن کو قابو کرنے کے لیے فلم انڈسٹری کو قابو کرنا بہت ضروری ہے

اور قابو کرنے کے لیے کمزور حصوں پہ وار بھی ٹھیک ہے۔ غیر قانونی ڈرگز کا استعمال فلمی دنیا میں عام ہے لہذا کاری وار بھی یہیں بنتا ہے۔ لیکن کاری وار ہر جگہ اوچھا کیوں پڑ رہا ہے؟ ریا چکر وردی، دیپکا پدوکون، سائرہ علی خان اور پھر اننیا پانڈے۔ حاصل وصول صفر بٹا صفر

اور اب آریان خان جس سے برآمد تو کچھ نہ ہوا، الٹا سمیر وانکھیرے گرفت میں آ گئے۔ اب یہ اتفاق کہیے یا بد قسمتی کہ صوبہ مہاراشٹر کا پاۂ تخت، ممبئی جو بولی وڈ انڈسٹری کا گڑھ ہے، بی جے پی کے مکمل کنٹرول میں نہیں کیونکہ یہاں شیو سینا کے اودھو بال ٹھاکرے مکھ منتری ہیں جنہوں نے بی جے پی سے اتحاد ختم کر کے نیشنل کانگریس پارٹی سے مل کر حکومت بنائی تھی۔ نیشنل کانگریس پارٹی کے نواب ملک جو کہ اقلیتوں کے صوبائی وزیر بھی ہیں کھل کر سمیر وانکھیڑے کے خلاف بولے ہیں اور یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ عدالت سے باہر انہوں نے ایسا کیس تیار کیا کہ آریان کو پکڑنے والے وانکھیڑے اب خود اندر جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ اب انڈین نیشنل کانگریس والوں کو تو فلم انڈسٹری کے قریب سمجھا جاتا ہی ہے لیکن نیشنل کانگریس پارٹی اور شیو سینا کے حامی بھی شاہ رخ کے ساتھ ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سیکولر طبقہ کس کے ساتھ ہے۔

انڈیا کے صف اول کے معیاری چینلز جن میں زی ٹی وی اور این ڈی ٹی وی شامل ہیں، کھل کر بات کرتے رہے ہیں۔ اکثر اینکرز نے دلائل کے ساتھ قانون کے مطابق انصاف کرنے کی بات کی، ( گوسوامی کو چھوڑ کر ) بہت سے تجزیہ نگار اسے بی جے پی کی مرکزی

حکومت اور مہاراشٹر میں شیوسینا کی مخلوط حکومت میں کھینچا تانی بھی قرار دے رہے ہیں۔ یو پی، بہار کے حالیہ انتخابات پہ اثر انداز ہونے کے لیے مذہبی کارڈ کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔

ایک اور بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ آریان خان کا کیس سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی میڈیا پر برابر لڑا۔ امید بھری بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے نام لیوا مبصروں کی ایک بڑی تعداد اپنا نقطہ نظر بے خوفی سے بیان کرتی نظر آئی۔ نہیں بولے تو وہ جن سے امید تھی

کاجول دیوگن، امیتابھ بچن، سنجے دت۔ جی ہاں سنجے دت جن کے خلاف ٹاڈا کے کیس اور سزا کے خلاف فلم انڈسٹری سڑکوں پہ نکل آئی تھی اور خود شاہ رخ خان گلے میں بینر ڈال کر پھرتے تھے کہ سنجو کو رہا کرو۔ وہ سنجو اب کہاں ہے؟

تین دہائی پہلے اور آج میں فرق یہی ہے کہ اب وہی بالی وڈ والے پہلے کی طرح باہر نکل کر اپنے حقوق کی بات نہیں کر پا رہے۔

تو کیا کل کے اور آج کے انڈیا میں فرق سیکولر اور غیر سیکولر سیاسی پارٹیوں کا ہے کیونکہ ان کا سماج تو اب بھی سچ کی خاطر احتجاج کا حوصلہ قائم رکھے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments