تذکرہ مہ و سال


گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ساہیوال ایک ایسا تاریخی دانش کدہ ہے جس نے نا جانے کتنے ذہنوں کی فکری سماجی اور اخلاقی آبیاری کی ہے۔ اس کی فضاوٴں میں عجب ترنم ہے جو اس سے محبت کرنے والوں کو محسوس ہوتا ہے۔ اس سے منسوب ہر فرد اس کا طالب علم ہونے پہ فخر کرتا ہے۔ یہ ایسا ادارہ ہے جو ہر نئے آنے والے کو اپنی پہچان بنانے کا جذبہ دیتا ہے۔ یا پھر شاید صرف ان کو جو اپنی پہچان بنا کے اس کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی پرشکوہ عمارت اور کسی کا دل موہے یا نا۔ پر میرا دل اس کے کسی کوریڈور یا کسی کمرے میں رہ گیا ہے۔ جہاں میری زندگی کے بہترین ایام گزرے ہیں۔ اس کے درختوں ان پہ بسیرا کرنے والے طائر یہاں کے پھولوں پتوں گویا کہ ہر ذرے سے مجھے الفت ہے۔

یہاں سے جانے کے بعد لگا تھا کہ شاید اب اس جگہ سے یہ سہانا تعلق استوار نا رہ سکے۔
اب کے بچھڑے تو شاید خوابوں میں ملیں
جیسے سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

مگر جلد ہی ایلومینائی ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سوشل میڈیا پہ یہ ایسوسی ایشن بہت متحرک رہی اور جلد ہی اس عظیم درسگاہ کے گوہر نایاب ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہونا شروع ہو گئے۔

ڈاکٹر افتخار شفیع صاحب کا بے حد شکریہ جنہوں نے مجھے اس کارواں میں شریک ہونے کی سعادت بخشی۔ ایلومینائی ایسوسی ایشن کے قیام اور اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں نا جانے کتنے لوگوں کی کاوشیں ہیں مگر مجھے ماسوائے ڈاکٹر افتخار شفیع، ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب اور محترم عاطف محمود کے کسی کا نہیں پتہ۔ چند ایک نام نگاہوں سے گزرے ہیں۔

”تذکرہ مہ و سال“ بھی انہی صاحبان کی کاوشوں کا ایک عملی نمونہ ہے۔ جس کے مرتب ڈاکٹر افتخار شفیع صاحب ہیں۔ اس کتاب میں 1942 سے لے کر 2021 تک کی یاد داشتوں کو ترتیب دینے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ مختلف شخصیات سے غائبانہ تعلقات استوار ہوئے ہیں۔ اس کالج کے قیام سے لے کر اب تک کا حالات کا جائزہ لینے کے لیے یہ کتاب کسی سرچ انجن سے کم نا ہے۔

محترم الف۔ د۔ نسیم صاحب کا ”ساہیوال“ (کالج میگزین) میں لکھا گیا مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ کتاب کے باب دوم ”نسیم جاں فزا“ میں محترم ڈاکٹر نسیم صاحب کی شخصیت پہ مفصل مضامین موجود ہیں۔ جن کو پڑھنے کے بعد محترم جناب الف۔ د۔ نسیم سے عجیب انسیت محسوس ہوئی۔ آج کل کے دور میں ان جیسے لوگ بہت کم ہیں۔ ان سے انسیت کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ہندوستان کے جس علاقے سے ان کا تعلق ہے میرے دادا جان کے والد محترم بھی اسی سر زمین کے قابل سپوت ہیں۔ الف۔ د۔ نسیم صاحب کی شخصیت میں عجب سحر ہے کہ قاری کا دل چاہتا ہے وہ اس سنہرے ماضی میں کہیں کھو جائے اور پہروں ان کی باتوں سے مستفید ہو۔ ان کے مضامین پڑھنے کے بعد میرا ان سے روحانی تعلق ضرور استوار ہو چکا ہے۔

تذکرہ مہ و سال محض ایک کتاب ہی نہیں ہے بلکہ کئی شخصیات اور کئی زمانوں کو ایک لڑی میں پرو دیا گیا ہے جس کا ہر ایک موتی اپنی مثال آپ ہے۔ ہر مضمون اپنی الگ پہچان رکھتا ہے اور گزرے زمانے سے روشناس کرواتا ہے کہ ان ادوار میں کالج میں کیسی کیسی شخصیات زیر تعلیم و تربیت تھیں۔ اس کی فضائیں کن خوشگوار خوشبووٴں سے معطر تھیں۔ ان زمانوں میں تدریس و تربیت کا معیار کیسا تھا۔ ؟ الغرض ماضی میں جھانکنے کے لیے بہترین دریچے کا کام یہ کتاب سرانجام دے رہی ہے۔

اس کے ہر قلم کار کی الگ پہچان ہے اور اس نے اس کالج میں گزارے اپنے حسین لمحات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر قاری کو پیش کیا ہے جس کو پڑھ کے انسان خودبخود ماضی میں اترتا جاتا ہے اور خود کو انہی ایام کا کوئی گم شدہ مسافر سمجھتا ہے۔ میرا بھی جی چاہتا ہے ٹائم مشین ہو اور میں ماضی میں جا کے ان تمام شخصیات کے روبرو بیٹھ کے ان کو سنوں۔ کالج کے گوشے گوشے پہ اپنے قدموں کے نشاں چھوڑوں اور پھر حال میں آ کے انہی گوشوں میں وہ نشاں ڈھونڈو۔

تذکرہ مہ و سال کی تخلیق تمام ایلومینائی کے ممبرز کے لیے مسحور کن ہے۔ ان تمام کاوشوں کا سہرا جن شخصیات کے سر جاتا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ یہ سلسلہ ان شاء اللہ جاری و ساری رہے گا اور مستقبل میں ہمیں بہت سے گوہر اور ملیں گے جو اس کی سنہری تاریخ کو رقم کرنے میں معاون ہوں گے۔

اس عظیم درس گاہ کے عظیم اساتذہ کو سلام۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

بہاور فرید
Latest posts by بہاور فرید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments