”رواداری“ ۔ اور۔ ”فتنۂ رواداری“


رواداری مسلمانوں کی تاریخ کی ایک روشن روایت، ان کی تہذیب کا جزو لاینفک اور ان کے لیے ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کا اہم وصف ہے۔ رواداری ایک مثبت قدر ہے۔ عدم رواداری اور عدم برداشت ایک منفی قدر ہے۔ رواداری جب حد سے بڑھ جائے تو بے غیرتی و بزدلی بن جاتی ہے اور ضرورت سے بھی کم ہو جائے تو تعصب و تنگ نظری سمجھی جاتی ہے۔ حقیقی مومن رواداری کا راستہ اپناتا ہے اور جاہل مومن تعصب اور تنگ نظری کا۔

رواداری جب اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے بزدلی و چاپلوسی یا حماقت، بے غیرتی اور بے حمیتی کی سرحدوں میں داخل ہوتی ہے تو یہی وہ مقام ہے جب ہم رواداری کو ”فتنۂ رواداری“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ”رواداری“ کا لفظ اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے اور ان پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کے عقائد و نظریات کو برداشت کرنے اور انہیں ان پر عمل کرنے کی آزادی عطا کرنے کے معانی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اگر کوئی اپنے نظریات کو قربان کرتے ہوئے دوسروں کے نظریات کو برداشت کرے اور ہر نظریے اور ازم کو صحیح اور درست قرار دیتا جائے تو یہ رواداری نہیں بلکہ منافقت ہے۔ اور اگر غیر اس کے نظریات پہ حملہ آور ہوں اور یہ اپنے عقائد و خیالات کا دفاع بھی نہ کرسکے اور پھر اسے رواداری کا نام بھی دے تو یہ رواداری نہیں بلکہ بزدلی و بے حمیتی ہے۔

تعجب کی بات ہے کہ حکومت یا افراد اپنے وجود اور اپنی سیاست کے بارے میں رواداری گوارا نہیں کرتے حالانکہ اس میں رواداری لازم ہے۔ جب بات دین و شریعت کی آتی ہے تو رواداری کی تلقین کرنے لگ جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بعض گروہوں کی طرف سے ایک سازش کے تحت شعائر اسلامی کا مذاق اڑایا جاتا ہے، شان رسالت ﷺ میں توہین کا لائسنس طلب کیا جاتا ہے، مقدس شخصیات کی تضحیک و تنقیص کی جاتی ہے اور اگر کوئی اس پر صدائے احتجاج بلند کردے تو اسے رواداری کے نام پر صبر، تحمل اور برداشت سے کام لینے کو کہا جاتا ہے ۔

اسے حقوق انسانی، ترقی پسندی اور اعلیٰ ظرفی کا درس دیا جاتا ہے۔ وہ جو اسلام دشمنی اور اقدار شکنی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں انہیں بنیاد بنا کر اپنے تئیں دائرۂ روشن خیالی سے خارج کر دیا جاتا ہے ۔ لیکن جب ان لوگوں کے ذاتی مفادات پر زد پڑتی ہے اور وہ آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں تو خود رواداری کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں۔ تحمل و برداشت اور رواداری ایسے خوشنما الفاظ ان کی ڈکشنری سے خارج ہوتے ہیں۔ ان میں اتنا حوصلہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ معمولی سی تنقید ہی سن سکیں۔

بر صغیر پاک و ہند میں فتنہ رواداری کا آغاز اکبر کے ”دین الٰہی ’‘ سے ہوا۔“ وحدت ادیان ”کا گمراہ کن فلسفہ ہمارے بعض عجمی صوفیاء اور شعراء اور نام نہاد روادار مفکرین میں خاصا ہر دل عزیز رہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اسی تصور کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس تصور و نظریہ کا عملی اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ مذہبی رواداری کے نام پر ملکی رہنماؤں کا ہندوؤں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہولی اور دیوالی کی تقریبات میں شرکت یقینی طور پر“ فتنۂ رواداری ”ہے۔

اگرچہ دیگر مذاہب کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان بھی رواداری کے جوش میں غیر مسلموں کے عقائد و نظریات اور ان کی مذہبی رسومات کی تائید شروع کر دیں۔ دیگر مذاہب کے عقائد و نظریات اور رسومات کو اسلام کے نظریات کے عین مطابق سمجھنا اور اس کا عملی اظہار کرنا ہر گز رواداری کے مفہوم میں داخل نہیں ہے۔ ان کے مذہبی تہوار میں شرکت کرنا، اچھا سمجھنا اور ان کی تائید کرنا مذہبی رواداری نہیں بلکہ اپنے مذہب سے غداری ہے۔

اسی طرح رواداری کی آڑ میں مسلمانوں کو ہر قسم کی اذیت اور تکلیف برداشت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ جہاں تک انسان کے اپنے ذاتی معاملات کا تعلق ہے، تو وہ برداشت کر سکتا ہے۔ مگر مذہبی معاملات میں برداشت اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ اسلام جس طرح دیگر مذاہب کے مقدسات کی توہین اور ان کی دل آزاری سے منع کرتا ہے اسی طرح دیگر مذاہب کو بھی شعائر اسلام اور مقدسات کی توہین سے منع کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑانے پر ہونٹ سی لینا، شعائر اسلام کے مذاق اڑائے جانے پر خاموشی اختیار کرنا اور مقدسات کی توہین پر چپ سادھ لینا ہر گز رواداری نہیں ہو سکتی۔

مقدسات کی توہین پر رد عمل ایک فطری عمل اور غیرت ایمانی ہے۔ ایک غیرت مند مسلمان اپنی توہین برداشت کر سکتا ہے مگر شعائر اسلام اور مقدسات اسلام کے متعلق کوئی بھی نازیبا لفظ برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ یہاں برداشت ”رواداری“ نہیں بلکہ ”فتنہ رواداری“ کے زمرے میں آجاتی ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ آج کل مسلمانوں کو ”رواداری“ کا جو درس دیا جا رہا ہے اس کا اصل مقصد اپنے اندر توہین قرآن و رسالت اور مقدسات و شعائر اسلام کی تنقیص برداشت کرنے کا مادہ پیدا کرنا ہے کہ غیر مسلم جو چاہیں کریں، آپ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں کیونکہ اسلام صبر اور برداشت کی تعلیم دیتا ہے۔

پورا میڈیا یہی راگ الاپنے لگ جاتا ہے جبکہ منافقت اور بے غیرتی کا عالم یہ ہے کہ جب توہین کا معاملہ ذاتیات پر آتا ہے تو رواداری کا درس دینے والے اور راگ الاپنے والے ”دانشور“ (بالخصوص لبرلز صحافی اور سیاستدان) اپنی توہین ایک منٹ بھی برداشت نہیں کرتے اور سامنے والے پر زبان درازی کرتے ہوئے ہاتھا پائی تک اتر آتے ہیں، نیز ان میں جو تھوڑے بہت مہذب ہوتے ہیں وہ بھی اپنی توہین پر صبر اور برداشت کو بھول جاتے ہیں اور سامنے والے پر براہ راست تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے ”ہتک عزت“ کے مقدمات دائر کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ایسے ”دانشوروں“ کو تو ہر گز زیب نہیں دیتا کہ وہ مسلمانوں کو رواداری کی تلقین کریں۔ مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ”رواداری“ کیا ہے اور انہیں کب، کہاں اور کس طرح ”رواداری“ کا مظاہرہ کرنا ہے۔

نوٹ: مضمون کے نگارشات محمد صدیق شاہ بخاری کی کتاب ”رواداری اور پاکستان“ سے ماخوذ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments