بھائی کی گمشدگی کے چوہتر دن


پولیس نے بھائی کے گمشدگی کی رپورٹ درج کرلی تھی۔ مگر بازیابی نہیں ہو سکی تھی۔ اس دوران ہم نے وزیراعلیٰ سندھ سے لے کر وزیراعظم اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سمیت ریاستی اداروں کو لیٹر کوریئر کیے ۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود کہیں سے کوئی جواب نہیں ملا۔ انسانی حقوق کی ملکی اور عالمی تنظیموں نے مذمت کی اور بھائی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر اس کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔

این جی او کے ایک سینئر دوست نے مشورہ دیا کہ شہر کے بڑے وکیل سے ملیں اور پٹیشن فائل کریں۔ وکیل سے ملاقات کا وقت لیا۔ میں چھوٹے بھائی کے ہمراہ ان کے ڈیفینس میں واقع دفتر پہنچا۔ یہ نامور سینئر وکیل کیس سننے کی بھی فیس لیتے ہیں۔ مگر این جی او کے دوست کی وجہ سے انہوں نے بغیر کسی فیس کے نہ صرف ہم سے ملاقات کی، بلکہ کیس کو سنا اور اپنا قیمتی مشورہ بھی دیا۔

سینئر وکیل نے ہماری بات سننے کے بعد سوالات پوچھنے شروع کیے ۔
” آپ کے بھائی کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے؟“

” وہ کسی جماعت کے کارکن تو نہیں۔ مگر ان کے ایم کیو ایم (یہ وہ دور تھا جب کراچی پر صرف ایم کیو ایم کا اثر چلتا تھا) اور جسقم میں دوست ہیں۔ جن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہتا ہے۔ میں نے کہا۔

” وہ کیا کرتے تھے؟“ سینئر وکیل نے پوچھا۔

” سر وہ بیرون ملک سے اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹے تھے اور یہاں ہوٹل میں سپروائزر تھے۔“ میں نے بتایا۔

ہماری باتیں سن کر سینیئر وکیل مطمئن نہ ہوئے۔ کہنے لگے کوئی تو وجہ ہوگی۔ آپ سوچ کر بتائیں۔ کوئی تو وجہ ہوگی۔ ہو سکتا ہے آپ کو معلوم نہ ہو؟ ”

”میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے تحمل سے جواب دیا“ ہمارے رشتہ دار پڑوسی ملک میں رہتے ہیں۔ وہاں فون پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں۔ ! ”

سینئر وکیل چپ ہو گئے اور سوچنے لگے۔ ہم انہیں دیکھتے رہے۔ کچھ دیر بعد وہ بولے۔

” دیکھیں میں تو پٹیشن فائل کردوں گا۔ مگر سوچ لیں اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے۔ ابھی ایک بھائی اٹھایا گیا تو آپ اس کے پیچھے دوڑ رہے ہو۔ اگر آپ کو اٹھایا گیا تو پھر کیا ہو گا۔ آپ کے لئے کون دوڑے گا؟“

” سینئر وکیل کی بات سننے کے بعد ہم دونوں بھائی کبھی ایک دوسرے کو تو کبھی سینئر وکیل کو تکنے لگے۔ ہمیں ان کی باتوں نے چونکا دیا۔ ہم ڈر گئے کہ اب کیا ہو گا۔

یہ وہ دور تھا جب مسنگ پرسنز پر احتجاج کیا بات بھی نہیں کی جاتی تھی۔ ہر طرف ایک خوف کا عالم تھا۔ پھر یہ خوف کی چادر رفتہ رفتہ ہٹ گئی اور لوگ برملا اس پر بات کرنے لگے۔ احتجاج اور لانگ مارچ ہونے لگا۔ اور سب سے بڑھ کر میڈیا پر یہ ایشو ڈسکس ہونے لگا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ مسنگ پرسنز پر کمیشن بھی بن گیا۔

سینیئر وکیل نے ہمیں یوں پریشان دیکھ کر حوصلہ دیتے ہوئے کہا
” اگر بقول آپ کے آپ کے بھائی نے کچھ نہیں کیا تو پھر اسے فلٹر کر کے چھوڑ دیا جائے گا۔“

سینئر وکیل سے ملاقات کے بعد ہم مایوس گھر لوٹے۔ مگر ہم نے کوششیں ختم نہیں کیں۔ جہاں تک رسائی تھی وہاں تک جستجو کی۔ مگر حکومتی اور ریاستی اداروں میں جس سے بھی گفتگو کی اس نے دوبارہ بات کرنا گوارا نہ کیا۔ یہ نہ صرف ہمارے ساتھ ہوا بلکہ یہ رویہ ان دوستوں کے ساتھ بھی رکھا گیا جن سے وہ اعلیٰ شخصیات اکثر ملاقاتیں کرتی تھیں۔

ان سب باتوں، حالات اور صورتحال سے رتی برابر بھی امید باقی نہیں بچی تھی۔ مگر اس کے باوجود والدہ کو حوصلہ دینے کے لئے ہم روزانہ صبح یہ کہہ کر گھر سے نکلتے کہ آج ہم کسی اہم شخص سے ملنے جا رہے ہیں۔ اور گھر میں بھی ہم پر امید گفتگو کرتے رہے

”ہم جس بھی ملے ہیں اس نے جلد واپسی کی یقین دھانی کروائی ہے۔“

اس تگ و دو میں چوہتر دن گزر گئے۔ یعنی دو ماہ چودہ روز۔ ایک شام نئے نمبر سے کال آئی۔ اٹینڈ کیا تو آواز چھوٹے بھائی کی تھی۔ بھائی کو بالآخر چوہتر دن بعد آزادی مل گئی تھی۔ اسے ویگو میں شہر کے کسی نامعلوم مقام پر پچاس روپے دے کر چھوڑا گیا اور تاکید کی گئی کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا۔ آگے بڑھتے جاؤ۔

بھائی جب گھر پہنچے تو پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ داڑھی بڑھی ہوئی۔ کمزور جسم۔ چلنے، اٹھنے، بیٹھنے اور سونے میں دشواری کا سامنا تھا۔ داڑھی صاف ہو گئی اور ذہنی صدمے سے نکلنے کے لئے ماہر نفسیات کے پاس جانا پڑا۔ مگر تشدد کا اثر اب بھی باقی رہا۔ شاید تاعمر باقی رہے۔

بھائی کے مطابق ”اٹھائے جانے کے بعد کچھ دنوں تک اہلکار پوچھتے تم نے کیا کیا ہے؟ میں کہتا کہ۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ آپ نے اٹھایا ہے آپ بتائیں۔ میرا کیا قصور ہے۔ جس پر وہ غراتے۔ ہم پاگل ہیں جو تم کو اٹھایا ہے۔ کسی اور کو کیوں نہیں اٹھایا۔ تم نے کچھ کیا ہے تبھی تو اٹھایا ہے۔ اور اس کے بعد تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کوئی دن خالی نہیں تھا۔ جب تشدد نا ہو۔ کھانا اچھا کھلاتے۔ مگر سونے نا دیتے۔ کوئی غصہ کرتا، گالیاں بکتا۔ اور پوچھ گچھ کرتا۔ تو دوسرا پیار سے پیش آ کر محبت جتا کر پوچھ گچھ کرتا تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہی رہتی۔ تھی۔ آزاد کرتے وقت بھی پٹی باندھ کر ویگو میں بٹھایا گیا تھا۔

آزادی کے کئی ماہ بعد تک خلائی مخلوق فون کر کے بلاتی رہی۔ نہ آنے پر دھمکیاں دیں۔ اور ملاقاتیں کیں۔
گو کہ واقعے کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ مگر اس کی اذیت کا احساس ابھی تک باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments