تحریک لبیک، حکومت اور معیشت


اپریل 2021ء تحریک لبیک کی جانب سے ملک بھر میں ہونے والے دھرنوں اور مظاہروں کے بعد حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی عائد کردی تھی۔ جس پر متوقع رد عمل کو روکنے کے لیے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو بند کر دیا گیا تھا۔ اسی دوران حکومت اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ اکتوبر 2021 ء کے آخری عشرے میں بارہ ربیع الاول کے ایک اہم اور مبارک دن پر تحریک لبیک نے ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب مارچ اور دھرنے کا آغاز کیا۔ جسے حکومت نے اپنی روایتی نا اہلی سے بگاڑ کی انتہا پر پہنچا دیا۔ حکومتی وزراء لڑکھڑاتی زبانوں سے اپنے موقف کی وضاحتیں دیتے رہے اور وزیر مذہبی امور اس نازک موقع پر بھی ایشو پر بات کی کرنے کی بجائے وزیر اعظم عمران خان کی خصوصیات کے قصیدے پڑھتے رہے۔

پنڈی کا ایک بہروپیا جو ایک زمانے میں تحریک لبیک کے قافلے میں کہنیاں مار کر آگے بڑھ کر اس قافلے کو اچک لینا چاہتا تھا اور اس وقت ناموس رسالت کے سپاہی کا تمغہ سینے پر لگا کر عوام کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ آج وہ ہی بہروپیا وزارت پر آن بیٹھا ہے تو اسی تحریک کے خلاف بودے دلائل دیے جا رہا ہے۔ مظاہروں کی اس لہر میں بھی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور بے شمار زخمی بھی ہوئے۔ مگر آخر میں حکومت نے جو کیا اگر یہ پہلے روز ہی کر لیتی تو نہ ہلاکتیں ہوتیں نہ لوگ زخمی ہوتے، معیشت مزید برباد ہوتی نہ کاروبار زندگی معطل ہوتا۔ دونوں فریقین اس بات پر خوش ہیں کہ فتح ان کی ہوئی اور ان فتوحات کا تختہ مشق بنے عوام اور معیشت۔

آج وطن عزیز میں مہنگائی، بے روزگاری اور غیر یقینی کی صورتحال اپنی بدترین سطح پر ہیں۔ اسٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ”حکومت تین سال تک برسر اقتدار رہنے کے باوجود درآمدات اور برآمدات میں توازن پیدا نہیں کر سکی ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں زر مبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے، مہنگائی کی شرح میں 1.23 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد مہنگائی 14.31 فیصد ہو گئی ہے۔ “ دیگر تجزیوں اور رپورٹوں کا جائزہ لیا جائے تو ایف بی آر روزانہ 24 ارب ٹیکس اکٹھا کرتی ہے۔

جس میں سے دس ارب پنجاب سے اکٹھا ہوتا ہے۔ بیرونی تجارت میں پنجاب کا حصہ 60 فیصد ہے۔ اگر صرف پنجاب میں ایک روز کے لیے کام بند ہو جائے تو 28 ارب روپے کا تجارتی نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں پنجاب کا حصہ 50 فیصد ہے، پنجاب کی فیکٹریوں میں تقریباً 13 ارب روپے کا مال تیار ہوتا ہے۔ اور اگر پنجاب میں ایک روز کے لیے کاروبار بند ہو جائے تو 85 ارب کا کاروبار براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ کھیت سے منڈی تک کے راستے بند ہونے سے کسانوں اور دیگر کاروباری طبقے کو جو نقصان ہوتا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ پھر دیہاڑی دار مزدور جس اذیت سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ نہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو ہے۔ حالیہ واقعات میں پنجاب جزوی طور پر بارہ روز کے لیے بند رہا، جس کے اثرات ملک کی معیشت پر بھی ہوئے۔

مغرب میں آزادی رائے کے نام پر گستاخانہ خاکوں کا جو سلسلہ شروع ہے، ہر مسلمان کا غم و غصے کا اظہار کرنا فطری عمل ہے۔ ہمیں مغرب سے احتجاج بھی کرنا چاہیے اور ہر وہ حربہ بھی اختیار کرنا چاہیے جس سے اسے احساس ہو کہ مسلمانوں کے جذبات کی حساسیت اس باب میں کیا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم آپﷺ کے اسوہ حسنہ کو عام کریں۔ جس کے لیے سب موثر ذریعہ ہمارا عمل ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ ہم اس پیغمبر کی امت ہیں ہیں جو خدا کی حتمی ہدایت کا قیامت تک آخری ذریعہ ہیں۔ مغرب کے فتنہ باز اور گستاخ لاکھ کوشش کر لیں آپﷺکی سیرت مبارکہ کا سورج قیامت تک روشن رہے گا۔

وطن عزیز کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہاں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھا ہی نہیں گیا کہ سیاسی عمل ہی وہ واحد حل ہے جس سے عوام کو جوڑا جاتا ہے، یہ سیاسی عمل ہی سے ممکن ہے کہ قومی معاملات پر عوام کو ہم آواز بنایا ہے جائے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہم نے ہمیشہ اس بنیادی حقیقت سے نظریں چرا کر سیاسی جماعتوں کو جس طرح دیوار سے لگایا ہے، سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور عہدیداروں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ ہماری تاریخ کا ایک باب بہرحال ہے۔

سیاسی جماعتوں کے سربراہ جلسوں میں قتل بھی ہوتے ہیں اور قاتل پکڑے بھی نہیں جاتے، انھیں پھانسیاں بھی دی جاتی ہیں اور بعد میں اس پر ٹسوے بھی بہائے جاتے ہیں۔ انھیں ملک بدر بھی کیا جاتا ہے اور ذلیل و رسوا بھی کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست دان اپنی تمام تر کمزوریوں، کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود ایک سیاسی عصبیت رکھتے ہیں اور یہ ہی سیاسی عمل کا ایک روشن پہلو ہے۔ حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات کر کے دھرنوں کو ختم کیا یہ ہی کام آج سے چند روز قبل ہوجاتا تو ملک میں بے گناہ افراد جان سے ہاتھ دھوتے نہ معیشت مزید تنزلی کا شکا ر ہوتی۔

مکرر عرض ہے کہ تحریک لبیک کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے سلسلے کو مزید وسعت دینی چاہیے اور حکومت ملک کی معاشی اور سماجی بہتری کے لیے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً اپوزیشن کے ساتھ بھی اسی طرح مذاکرات کرے، کرونا کی وبا، ناقص حکومتی پالیسیاں اور غیر یقینی نے جس طرح زوال پذیر معیشت کو مزید نقصان پہنچایا ہے اور عوام کو مصائب سے دوچار کیا ہے ایسے میں اختلافی معاملات کے باوجود قومی اور ملکی امور سیاسی مفاہمت اور اشتراک عمل کا تقاضا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments