جاوید احمد غامدی کے انگریزی بال


کچھ چار پانچ برس پہلے کی بات ہو گی سردیوں میں جب روز اتوار کے ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا کہ وقت بیت جائے۔ وقت دن کے دس ساڑھے دس کا ہو گا۔ تب ٹاک شوز اور نیوز بلیٹن ہی اوڑھنا بچھونا تھے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ دن کو دس گیارہ بجے عموماً رات کے شوز ہی دوبارہ نشر کیے جاتے ہیں۔ اس لیے بے چینی سے چینل تبدیل کر رہے تھے۔ کبھی اس چینل پر تو کبھی اس چینل پر۔ گیارہ بجتے ہی ایک نجی چینل پر خبریں سنی۔ نیوز کاسٹر ایک خاتون تھیں جن کے نقوش خوب صورتی کی معراج تھے۔ خبریں ختم ہونے کے بعد چینل تبدیل نہ کیا کہ اس میں حرج کی بات کیا ہے کہ کاسٹر کا نام جان لیا جائے۔ نام بتاتے ہی کاسٹر نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ اب آپ پروگرام دیکھ سکیں گے، علم و حکمت جاوید احمد غامدی کے ساتھ۔

وقت بے تحاشا تھا اس لیے خیال ہوا کہ پروگرام دیکھنا چاہیے۔ پروگرام شروع ہوا تو دیکھا کہ ایک بابا جی صوفے پر براجمان ہیں، جنہوں نے عمدہ طریقے سے بال ترشوائے ہوئے ہیں اور چہرے پر داڑھی کے آدھے پور برابر چند بال بھی ہیں۔ اچھے کپڑوں کے ساتھ کوٹ ان کی شخصیت کو مسحور کن بنا رہا تھا۔ سب باتیں ایک طرف مگر بابا جی کی مسکراہٹ ایسی دل نشین و ربا تھی کہ ہم اس مسکراہٹ کے ہاتھوں سب کچھ بھول گئے۔ بابا جی کا نام جاوید احمد غامدی تھا جو کہ دین کے عالم تھے۔

اینکر شاید ڈاکٹر زبیر احمد تھے، ڈاکٹر صاحب نے سوالات پوچھنا شروع کیے۔ اب جو غامدی صاحب نے جوابات دینا شروع کیے تو ایک عالم حیرانی تھا کہ ایک عالم دین اس قدر دھیمے لہجے میں کس طرح محو گفتگو ہو سکتا ہے اور ہر لفظ جملے میں اس طرح پیوست ہے کہ گویا پھولوں کی لڑی کہ جس میں سے ایک پھول بھی نکال لیا جائے تو مالا ٹوٹ جائے۔

گفتگو کے آداب بھی ایک طرف، دلائل بھی اس قدر عقلی تھے کہ سبحان اللہ۔ وگرنہ ایک عالم دین سے توقع رکھنا کہ وہ ادبی گفتگو کرے اور پھر اس گفتگو کو دلائل سے مزین کرے۔ اینکر کے سوالات کے بعد سامعین نے سوالات شروع کیے۔ سوالات تلخ بھی تھے اور تیکھے بھی۔ مگر غامدی صاحب کے چہرے پر ناگواری کی شکن تک نمودار نہ ہوئی۔ یہی ادا ان کی دل کو بھائی کہ بات دھیمے لہجے کرو اور ساتھ دلائل کا چٹخارا بھی شامل کر لو۔ اس طرح سے غامدی صاحب سے آشنائی ہوئی۔ بعد میں یہی سلسلہ چلتا رہا کہ اکثر ان کا پروگرام دیکھ لیتے تھے۔ مگر ان کی فکر کا مطالعہ شروع نہیں کیا تھا۔ گزشتہ برس یہ ارادہ باندھا کہ روایتی دینی تعلیم تو کسی حد تک حاصل ہو گئی ہے، لہذا اب کچھ غیر روایتی تعلیم بھی ہو جائے، جو عقل، سائنس، مذہب اور فلسفہ کا حسین امتزاج ہو۔

اسی لیے غامدی صاحب کے لکھے اور ریکارڈ کروائے ہوئے ادب کا مطالعہ شروع کیا۔ غامدی صاحب چوں کہ مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے شاگرد تھے اور بعد میں مولانا امین احسن اصلاحی سے بھی تعلیم لی، اس لیے ان کی نثر بہت شاندار ہے۔ جیسی آبدار شخصیت، ویسی ہی جاندار نثر۔ المیزان اور مقامات تو شہ پارے ہیں جن پر اردو ادب کو ناز ہونا چاہیے۔ وگرنہ تو علماء کی کتب پڑھتے ہوئے عجیب کوفت ہوتی ہے کہ تحریر میں ربط ہے نہ دلیل۔ غامدی صاحب کے ہاں دونوں چیزیں ہمالہ پر ہیں۔ غامدی صاحب اکثر یہ بات دہراتے ہیں کہ آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے، اختلاف کیجیئے۔ اس لیے کچھ باتوں پر ان سے اختلاف روا رکھتے ہیں، جیسا کہ ان کا موقف ہے کہ حضرت امیر معاویہ نے یزید کو خلیفہ نامزد کر کے درست قدم اٹھایا تھا، یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔

یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ روایتی علماء کو آخر کن باتوں پر غامدی صاحب سے اختلاف ہے۔ اسی سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ایک ویڈیو دیکھی جو بنیادی طور پر مفتی فیصل اور دو دیو بندی علماء کے دوران مکالمہ ہے۔ مفتی فیصل دیو بندی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں اور غامدی صاحب کے نظریات کا نہایت گہرائی سے انہوں نے مطالعہ کر رکھا ہے۔ دیو بندی علماء کی پہلی بات ہی یہ تھی کہ غامدی کے نظریات درست نہیں اور وہ گمراہی کا باعث بن رہے ہیں۔

مفتی فیصل نے ان علماء سے پوچھا کہ آپ نے غامدی صاحب کی کون سی کتب کا مطالعہ کر رکھا ہے؟ دونوں علماء نے یہی جواب دیا کہ ہم نے غامدی کی کوئی کتاب بھی نہیں پڑھی۔ پھر مفتی صاحب نے پوچھا کہ آپ نے غامدی کا کبھی لیکچر سنا ہے؟ اب کی بار بھی جواب ناں میں تھا۔ مفتی صاحب پھر گویا ہوئے کہ جب آپ نے ان کی کوئی کتاب ہی نہیں پڑھی اور ان کا کوئی لیکچر بھی نہیں سنا تو پھر آپ انہیں کس طرح گمراہ کہہ سکتے ہیں۔ دیو بندی علماء کہنے لگے کہ ہم نے غامدی کے نظریات لوگوں سے سن رکھے ہیں۔

پڑھے اور سنے بغیر گمراہی کی ٹھپا، کمزوری یہی روایتی علماء کی ہے۔ مفتی فیصل صاحب نے اسی گفتگو میں دو واقعات اور بیان کیے۔ وہ کہنے لگے کہ جب میں غامدی کے نظریات کا مطالعہ کر رہا تھا تو مجھے مولانا طارق جمیل اور مفتی تقی عثمانی سے ملاقات کا موقع ملا۔ مفتی فیصل نے پوچھا کہ آپ دونوں کی غامدی کے متعلق کیا رائے ہے؟ دونوں شخصیات کا جواب یہی تھا کہ غامدی صاحب کے نظریات درست نہیں۔ جب دونوں سے استفسار کیا گیا کہ آپ نے غامدی صاحب کی کون سی کتب کا مطالعہ کر رکھا ہے؟ جواب فقط یہ تھا کہ کسی کتاب کا بھی نہیں۔ عوام کی نظروں میں ایسے جلیل القدر علماء بھی اگر مطالعہ کیے بغیر اعتراض کریں گے تو دوسروں سے کیا توقع کریں۔

اسی طرح کراچی کے بڑے دینی مدرسے کی ویب سائٹ پر ایک مضمون پڑھا جس کا عنوان کچھ یوں تھا، جاوید احمد غامدی سیاق و سباق کے آئینے میں۔ مضمون تو خیر مجبوری میں پڑھنا پڑا مگر مضمون پڑھ کر علماء سے دل اور دور بھاگ گیا۔ اس مضمون میں غامدی صاحب پر ذیل اعتراضات کیے گئے تھے۔

”غامدی صاحب کی ظاہری شکل اور ظاہری نقشہ اس طرح ہے کہ یہ صاحب داڑھی منڈواتے ہیں، ان کے سر کے بال انگریزی ہیں، ان کے پورے بدن پر سر سے لے کر پاؤں تک اسلامی شعار اور زہد و تقویٰ کی کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔ اکثر و بیشتر آزاد منش عورتوں کے جھرمٹ میں نظر آتے ہیں اور ٹی وی چینلوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ ہندوستان کے ایک ملحد و زندیق شخص وحید الدین خان سے غامدی صاحب کے گہرے تعلقات ہیں۔“

یہ اعتراضات ہیں جو شد و مد سے غامدی پر کیے گئے ہیں۔ داڑھی تو غامدی صاحب کی ہے ہی نہیں، گالوں پر فقط چند بال ہیں جن کو منڈوائے بغیر چارا نہیں۔ اور اسلامی بال کون سے ہوتے ہیں، سمجھنے سے قاصر ہیں، کعبہ کے اکثر امام بھی انگریزی بالوں کے حامل ہیں اور ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی۔ اگر کسی کو اسلامی بالوں کے متعلق معلومات ہو تو وہ ارسال فرما کر جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکتا ہے۔ اور خاشع یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ بدن پر زہد و تقوی کی نشانیاں کون سی ہوتی ہیں۔ آخر میں یہ کہ اگر مولانا وحیدالدین خاں صاحب ملحد و زندیق ہیں تو پھر ہم نہیں جانتے کہ مسلمان کون ہے۔

ایک بڑے دینی مدرسے کا اپنی ویب سائٹ پر ایسی جھوٹ اور الزامات بھری تحریر شائع کرنا نہایت افسوس ناک ہیں۔ علم کے میدان میں اختلافات بھی ہوتے ہیں اور اعتراضات بھی، مگر کسی کو زندیق کہہ دینا اور بالوں کو انگریزی کر دینا، شرم مجھ کو مگر نہیں آتی (اگر ”مجھ“ کو آپ نے ”تم“ سمجھا تو یہ آپ کی دماغ کی شرارت ہے ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments