مذہبی جماعتیں اور آئین


جب سے ہوش سنبھالا ہے ملک کے بدترین حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ بجلی، پانی، گیس، مہنگائی جیسے نہ حل ہونے والے مسائل چل رہے ہیں۔ حالانکہ مملکت خداداد میں وسائل کی کمی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کی خوشحالی کے لئے قدرتی وسائل، سمندر، پہاڑ اور معدنیات ضروری ہوتی ہیں اور خوش قسمتی سے پاکستان کو خدا نے یہ تمام سہولیات سے نوازا ہے۔ دنیابھر میں بیشتر ترقی یافتہ ممالک کے پاس قدرتی سہولیات میں سے کسی نہ کسی سہولت کی کمی ہے باوجود اس کے ان ممالک نے ترقی کی اور اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان میں تمام تر سہولیات ہونے کے باوجود بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ موسم کی بات کریں تو گرمی، سردی، بہار، خزاں جیسے تمام موسم موجود ہیں بلکہ گزشتہ چند سالوں سے تو ایک موسم کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ویسے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ ملک ملاؤں کا ملک ہے اور بغیر دھاڑی کے ملاؤں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ بات شاید آپ کے علم میں ہوگی کہ یورپی یونین نے ٹی ایل پی کے دھرنوں اور اشتعال انگیز تقریروں کے باعث پاکستان کے مخالف قرارداد منظور کی جس میں یہ بات بھی درج تھی کہ فرانس مخالف بیانیہ مسلم امہ کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا کے مسلم ممالک سے اتنا سخت ردعمل سامنے نہیں آیا جتنا پاکستان سے تحریک لبیک کیا اور ستم ظریفی یہ تھی کہ ریاست ان کے سامنے ہر مرتبہ بے بس نظر آئی۔

مذہب انسانی زندگی میں اتنا اہم ہے اور اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کی بڑی بڑی تنظیمیں لوگوں کی سوچ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ بس بین المذاہب ہم آہنگی سوچ کے مالک چند لوگ بسا اوقات جمع ہو کر دنیا کا درس دیتے ہیں کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی فعل ہے اور ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ بلاتفریق اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اور فلاح کرنا ہوتا ہے، لیکن شاید حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔

دنیا کی بیشتر آبادی ترقی یافتہ ممالک پر مشتمل ہے اور ان ممالک میں جمہوری طرز حکومت ہونے کے باوجود مذہب ریاستی معاملات پر حاوی ہوتا ہے۔ یورپی یونین کے بعض ممالک آج بھی اس سوچ کے مخالف ہیں اور صرف مذہب کی بنیاد پر دوسرے کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں اور اس حد تک اپنی سوچ میں پختہ ہیں کہ انہیں یورپی یونین سے الگ ہونا پڑے تو شاید وہ یہ فیصلہ بھی کر لیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ ہم دوسرے مذاہب یا کلچر کو لے کر اپنے ملک کے حالات کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔

جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اب جنگیں ہتھیاروں سے کم بلکہ تکنیکی طریقوں سے کام لیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اندر بھی ایک مخصوص طبقہ موجود ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ ریاست کو کسی بھی گروہ کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیے تاہم ان کی حالت ایسے ہی ہے کہ جیسی آج فواد چوہدری کی ہے، کیونکہ انہیں نہ صرف کابینہ کی اس ملاقات سے الگ رکھا گیا بلکہ ٹی ایل پی مخالف بیانات دینے سے روک دیا گیا۔ اس کو آپ یوں سمجھ لیں، ٹی ایل پی تحریک نہیں بلکہ سوچ کا نام ہے جو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو بھی مارنے سے گریز نہیں کرتے۔

آپ سوچیں اگر ریاستی ادارے ایسے افراد کے ہاتھوں محفوظ نہیں تو ملک میں بسنے والی اقلیتیں کیسے محفوظ ہو سکتی ہیں۔ بلکہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ایک ملاء نے تو یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو پہلے ہی زیادہ حقوق دے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ ان کو محدود ہونا چاہیے تھا جبکہ دوسری جانب ملک میں بسنے والی اقلیتیں جبری تبدیلی مذہب کے مجوزہ قانون پاس نہ ہونے کی وجہ سے نالاں ہیں۔ جس پر ہلکا پھلکا ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔

لیکن ظاہر ہے پاکستان میں بسنے والی والی اقلیتوں میں سے کوئی بھی اتنا جذبہ نہیں رکھتی کہ وہ ٹی ایل پی کی طرح سڑکوں پر دھرنا دے اور ریاستی اداروں کا سامنا کرے۔ ویسے تو اس ملک میں یہ روایت بن چکی ہے کہ اگر آپ پرامن احتجاج کریں تو سرکار کے کان پر جوں نہیں رینگتی جب ہلہ گلہ اور دنگا فساد نہ ہو۔ اور یہ سب کرنے کی اقلیتیں متحمل نہیں ہو سکتیں۔ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ بے پناہ قدرتی وسائل کے باوجود ملکی ترقی میں جہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے وہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی زیادہ تر آبادی مذہبی سوچ کی حامل ہے اور ریاست شدت پسند مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں ریاست یرغمال ہے۔

اب یہ بات طے کرنا باقی ہے کہ اگر عوام کی خوشحالی اور ملکی ترقی مقصود ہے تو ریاست کو فیصلہ کرنا ہو گا۔ کیونکہ بہت سے مسلمان ممالک جن کے شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی میسر ہے اور وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، وہاں مذہب ترقی پسند رہنماؤں نے سخت فیصلے کیے ہیں اور ان پر سختی سے عمل کرتے ہوئے تمام شہریوں کی ضروریات کا خیال کیا ہے۔ ورنہ مخصوص اداروں کی اجارہ داری اور شدت پسند تنظیموں کے ہوتے ہوئے بین الاقوامی ممالک میں بیٹھے ہمارے سفارتکار جو مرضی کر لیں پاکستان کا تاثر مثبت نہیں ہو سکتا ۔

اور اس صورتحال میں آپ کشمیر سمیت جو بھی مسائل دنیا کے سامنے رکھیں آپ کی کوئی نہیں سنے گا، یہاں تک کہ مسلم امہ بھی آپ کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی جیسا کہ اب ہے۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ نعرے تو آپ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے مارتے ہیں لیکن پاکستانیوں کو بنیادی سہولیات دے نہیں سکے۔ گیس، پانی، بجلی تو آپ سے پوری نہیں ہوتی، کشمیریوں کو شامل کر کے کیا دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments