ایک نارمل ملک کیسا ہوتا ہے؟ (مکمل کالم)


ایک عام، سادہ، متوسط درجے کا ملک کیسا ہوتا ہے؟ اس کے شہر وں میں کیا ہوتا ہے، وہاں کے باسی کیا کرتے ہیں، کس طرح رہتے ہیں، اُن کی تفریحات کیا ہوتی ہیں، شام کو کیا کرتے ہیں، چھٹیاں کیسے مناتے ہیں، سڑکوں پر کیسے چلتے ہیں، کاروبار کیسے کرتے ہیں، احتجاج کیسے کرتے ہیں، سوگ میں کیا کرتے ہیں، جشن کیسے مناتے ہیں؟میں زیادہ دنیا تو نہیں گھوما مگر پھربھی چھبیس ستائیس ملک دیکھ چکا ہوں، ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ بھی اور اسلامی اور غیر اسلامی بھی۔ ہم جدید ملکوں کی بات نہیں کرتے کہ اُن سے موانہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی غریب اپنی ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل کا مقابلہ کسی امیر کی مرسڈیز سے کرے۔ لیکن ہم اُن ممالک سےاپنا موازنہ ضرور کرسکتے ہیں جن کے پاس ہماری طرح ٹوٹی ہوئی موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی مگر پھر انہوں نے اس کی مرمت کروا لی جس کی وجہ سے اِن’ممالک‘ کو اب نارمل کہا جا سکتا ہے جیسے کہ انڈونیشا، ترکی، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، ملایشیا۔ چند دہائیاں پہلے تک ہم بھی نارمل ہوا کرتے تھے۔ اُس وقت نہ ہمارے ہر رکشے کے پیچھے کسی پیر کے عرس کا پوسٹر چسپاں ہوتاتھا اور نہ ہماری شام کی تفریحات صرف کڑاہی گوشت کھانے تک محدود ہوتی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے ہاں سال میں دو سو فلمیں بنتی تھیں، موسیقی کی محفلیں ہوا کرتی تھیں، لاہور اور کراچی میں نائٹ کلب ہوا کرتے تھے، کیبرے ڈانس ہوتے تھے، غیر ملکی رقاصائیں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں اور پی آئی اے کی میزبان دوران پرواز مسافروں کو وہ مشروب ’سرو‘ کیا کرتی تھیں جس کا نام بھی آج اخبارات میں شائع نہیں ہو سکتا۔ آج کل کبھی کبھار وہ پرانے اشتہارات سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن سے اُس زمانے کی لاہور اور کراچی کی نائٹ لائف کا اندازہ ہوتا ہے۔ واصف ناگی صاحب لاہور پر جو سلسلہ وار تاریخی کالم لکھ رہے ہیں، غالباً اُس کی قسط نمبر تین ہزار پانچ سو چھپن میں انہوں نے لاہور کے نو ریلوے سٹیشنوں کا احوال لکھا ہے، کیا ہی اچھا ہو اگر وہ کسی دن لاہور کے ہوٹلوں اور کلبوں کے بارے میں بھی لکھیں اور ہمیں بتائیں کہ اُس وقت کی نارمل زندگی کیسی ہوا کرتی تھی !

یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے یوں لگ رہا جیسے میں غلط ٹریک پر چل پڑا ہوں کیونکہ اِس ملک میں ایک نسل ایسی پیدا ہو چکی ہے جس کے نزدیک اِن تمام باتوں کا ذکر کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ اِس نسل نے وہ پاکستان ہی نہیں دیکھا جو بقول ان کے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ جس بندے نے یہ ملک اِسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اُس کا نام محمد علی جناح تھا اور بطور گورنر جنرل جب وہ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کیا کرتا تھا تو اُس اجلاس سے پہلے قران پاک کی تلاوت نہیں کی جاتی تھی اور اُس کابینہ کے کئی ارکان غیر مسلم تھے۔ آج اگر خود جناح صاحب زندہ ہو کر آ جائیں اور ایسی کابینہ تشکیل دیں جیسی انہوں نے دی تھی اور اس کا اجلاس بھی ویسے ہی بغیر تلاوت کے منعقد کریں تو اگلے روز اُن پر کفر کا فتوی ٰ لگ جائے۔ پی آئی اے، نایٹ کلب اور کیبرے ڈانس وغیرہ کی جو مثالیں میں نے دی ہیں وہ قبل از مسیح کی نہیں بلکہ اسی پاکستان کی ہیں جو جناح صاحب نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اور جس کے بننے کے تیس سال بعد تک یہ سب کچھ بغیر کسی روک ٹوک کے ہوتا تھا اور کسی کے جذبات بھی مجروح نہیں ہوتے تھے۔ قائد اعظم نے نارمل انسانوں کے لیے ایک نارمل ملک بنایا تھا جہاں ہر کسی کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزاد ی تھی۔ یوں سمجھیں کہ یہ ملک Life, liberty and pursuit of happiness کا مقامی نسخہ تھا۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مختلف طالع آزماؤں نے اِس نسخے میں ملاوٹ شروع کر دی، کسی نے یہ کام سویلین لبادے میں کیا اور کسی نے ورد ی میں، اور آج حال یہ ہے کہ ہم دنیا کا ایک ایسا انوکھا ملک بن کر رہ گئے ہیں جہاں نارمل انداز میں کوئی بات کرنا یا کام کرنا ایک عذاب بن چکا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک انڈونیشیا ہے، وہاں کے ایک صوبے کانام ’بندا آچے ‘ ہے، کسی زمانے میں وہاں طالبان کی طرز پر شریعت نافذ کرنے کی تحریک چلی تھی، بعد ازاں اُس کا حکومت سے معاہدہ ہو گیا اور وہاں ’شریعت ‘ لاگو کر دی گئی۔ سات سال پہلے مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا ور میں نے محسوس کیا کہ وہاں آزادی کا وہ ماحول نہیں جو باقی انڈونیشا میں ہے لیکن اِس کے باوجود اگر میں اُس بند ا آچے کاآج کے پاکستان سے موازنہ کروں تو شاید مجھے دونوں میں زیادہ فرق نہ لگے۔ رہی بات جکارتہ جیسے شہروں کی تو اُن شہروں میں حجاب پہنی عورتیں بھی نظر آتی تھیں اور نائٹ کلب بھی، مساجد بھی اور مساج پارلر بھی، جو مزاج یار میں آئے۔ ترکی آج کل ہمارا بہت پسندیدہ ملک ہے، نارمل دنیا کا کون سا ایسا کام ہے جو ترکی جیسے اسلامی ملک میں نہیں ہوتا!متحدہ عرب امارات والے بھی ہمارے بھائی ہیں، انہوں نے بھی کلمہ پڑھ رکھا ہے، مگر بقول شخصے ہم تو باؤلے ہی ہو گئے ہیں !

ایسا نہیں ہے کہ باقی دنیا نارمل ہے اور ہم مکمل ابنارمل، یا سب کے دودھ کے دھلے ہیں اورہم اکیلے انتہا پسند۔ دور کیوں جائیں، بھارت کی مثال سامنے ہے، آئے روز وہاں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اُس کے لیے نرم سے نرم لفظ بھی شرمناک ہے۔ بی جے پی کے انتہا پسند غنڈے وہاں مسلمانوں کے گلے کاٹتے پھرتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتا۔ اسی طرح پچھلے ماہ بنگلہ دیش میں دو ہندوؤں کو قتل کیا گیا اور اُن کے مندروں پر حملے ہوئے، بنگلہ دیش میں اِس تشدد کے خلاف عوامی سطح پر مظاہرے کیے گئے۔ مذہب کے علاوہ جہاں تک باقی مسائل کا تعلق ہے، انہیں حل کرنے میں بھی ہماری طرح کے غیرترقی یافتہ ممالک اب تک مکمل کامیاب نہیں ہو سکے۔ تھائی لینڈ کی مثال لے لیں۔ سات کروڑ آبادی ہے مگر وہاں اب بھی مارشل لا لگتا رہتا ہےاور یہ مسئلہ وہ حل نہیں کر سکے۔ چین نے معاشی ترقی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے مگر وہاں شخصی آزادی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوریت کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے اُس پر شدید تنقید کی جاتی ہے۔ لیکن اِن تمام ممالک میں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ تمام تر مسائل کے باوجود اِن ممالک نے اپنا کوئی ایک کام سیدھا کر لیا ہے۔ تھائی لینڈ نے سیاحت میں کمال حاصل کیا ہے، دنیا جہان کے سیاح وہاں آتے ہیں، سیاحوں کی جنت اسے کہا جاتا ہے، دنیا کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں جہاں سے بنکاک کے لیے پرواز نہ آتی ہو۔ بھارت اور بنگلہ دیش نے بھی کم از کم جمہوریت کی حد تک اپنا مسئلہ حل کر لیا ہے۔ چین نے استبدادی حکومت تو قائم کر رکھی ہے مگر ساتھ ہی معاشی ترقی کا ایک ایسا ماڈل بھی دیا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اسی طرح ہم بھی اگر اپنا کوئی ایک کام سیدھا کر لیں تو باقی مسائل بھی ساتھ ساتھ حل ہو جائیں گے یا پھر اُن کی شدت میں کمی آتی جائے گی۔ مصیبت مگر یہ ہے کہ جب کوئی طالع آزما، سویلین ہو یا وردی میں، کارکردگی نہیں دکھا پاتا اور نالائقی کا کوئی جواز تراشنا اُس کے لیے ممکن نہیں رہتا تو پھر وہ مذہب کا سہارا لیتا ہے اور لوگوں کے جذبات کو ابھارتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ اُس سے بڑا اسلام کا داعی کوئی نہیں۔ یہ وہ حالات ہوتے ہیں جن میں ایک ضیا الحق جنم لیتا ہے اور ملک کو جہنم میں دھکیل دیتا ہے۔ ایسی جہنم جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments