توقع اور امید میں فرق جاننا کیوں ضروری ہے؟


امیدیں انسان سے لگا کر۔
شکوہ خدا سے کرتے ہو
تم بھی کمال کرتے ہو
کہتے ہیں امید پر دنیا قائم ہے لیکن توقع کسی سے مت رکھو۔

لیکن توقع اور امید کے درمیان فرق کیا ہے؟ حقیقت میں اسی فرق سے لا علمی کی وجہ سے انسان بڑے بڑے صدموں اور مسائل سے دوچار ہو جاتا ہے جیسے، مایوسی، اداسی، ڈپریشن، ناکامی وغیرہ۔

سو کیسے معلوم ہو توقعات کیا ہوتی ہیں۔
اور کیا توقع رکھنا نارمل نہیں ہوتا؟

توقعات وہ غیر حقیقی امیدیں ہوتی ہیں جو ہم اپنے ہی طرح کے دوسرے لوگوں، دوسری مخلوقات اور رشتوں سے رکھتے ہیں جو ہماری طرح خود بھی پر فیکٹ نہیں ہوتے۔

جانتے ہیں ساری توقعات کا آغاز ایک خود غرض لفظ سے ہوتا ہے اور وہ لفظ ہے ”میں“ ۔ مجھے، میرے۔
میرے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہیے۔
میری ایسی عزت ہونی چاہیے۔
میرے ساتھ ایسی محبت ہونی چاہیے۔
میں اس قابل تو نہیں تھا۔
مجھے اور زیادہ چاہیے۔
مجھے پسند ہے۔
مجھے خواہش ہے۔
میں چاہتی ہوں۔
میں محبت کرتا ہوں
میں نفرت کرتی ہوں۔

تو پھر امید کیا ہوتی ہے؟ اور کس سے رکھی جانی چاہیے؟ زندگی میں پر سکون رہنے کے لئے، کامیابی کے لئے، اچھی صحت کے لئے، توقع اور امید کا فرق جاننا لازمی ہے۔

جب بھی کسی امید میں ”حد“ یا ”وقت“ یا شرط شامل ہو جائے تب وہ امید نہیں رہتی، توقع بن جاتی ہے۔ وہ مجھے اتنی عزت کیوں نہیں دیتے؟ وہ مجھ سے کب بات کرنا شروع کریں گے؟ مجھے جاب کب ملے گی، میں کامیاب کب ہوں گا، میری شادی کب ہو گی۔ کاش میرے ساتھ ایسا ہو سکے۔ ایسا ہونا چاہیے۔

امید میں شرائط نہیں ہوتیں، وقت کی حدود نہیں ہوتیں۔

امید خالق سے ہوتی ہے، توقع مخلوق سے۔ خالق خطا سے پاک ہے۔ مخلوق خطا سے عبارت ہے۔ سو امید میں کمال ہے۔ توقع میں زوال ہے۔

توقع پوری ہونے پر خوشی تو ہے لیکن بشرطیکہ سے مشروط ہے۔ ایسا ہوا تو خوش ہوں گا۔ ویسا ہوا تو خوش ہوں گی۔

امید میں ہر حال میں بہتری ہے۔ اگر نتیجے سے بظاہر مجھے خوشی نہ بھی ہوئی تب بھی میرے ساتھ اچھا ہی ہو گا۔ میں ہر حال میں شکر کروں گا، صبر کروں گا، قانع رہوں گی۔ حالت اطمینان میں رہوں گا۔

امید انشا اللہ ہے۔ توقع بڑا بول ہے۔
امید ہے سمندر کے اس پار افق کو دیکھنا۔ توقع ہے بس ابھی ساحل پر کشتی لگ جانے کی خواہش رکھنا۔
توقع بے چینی، بے یقینی اور شک کو جنم دیتی ہے۔ امید سے یقین، سکون اور اطمینان کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
امید ہر حال میں مثبت رہنے کا نام ہے۔ توقع نتیجہ برخلاف آنے پر منفی ذہنیت ہو جانے کو کہتے ہیں۔
توقع ”چاہت“ ہے۔ امید ”ضرورت“ ہے۔
امید فطرت ہے۔ توقع طبیعت ہے، جذبات ہیں۔
توقع انا پرست اور خود غرض ہوتی ہے۔ امید بے غرض ہونے کا نام ہے۔

توقع اکثر مایوسی پر ختم ہوتی ہے اور جلدی ختم ہو جاتی ہے۔ امید اکثر دعا سے شروع ہوتی ہے اور آخری سانس تک رہتی ہے۔

دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر، شام ہی تو ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments