کھو جانے کا غم


بچہ ماں سے دور ہو جائے، یہ احساس نہایت تکلیف دہ اور ناقابل بیان ہوتا ہے۔ کہیں بازار میں جاتے ہوئے، انگلی پکڑے اور پلو تھامے کبھی نگاہیں من چاہتے کھلونے پر جماتا ہے، کبھی نظریں کسی دلکش شے کی جانب گھوم جاتی ہیں۔ اگر کہیں بھیڑ میں ہاتھ چھوٹ جاتا ہے۔ ایسے میں چیزوں کی چمک دمک میں مگن رہنے کے دوران بچہ ماں سے دور ہو کر گم ہوجاتا ہے۔

بچپن میں والدہ سے بچھڑنے کا واقعہ کئی دہائیوں بعد ذہن کے پردے پرایک ایسے منظر کی طرح آیا کہ میرا ڈرنا، خوفزدہ ہونا اور ایک احساس کہ شاید اپنی ماں سے کبھی نہیں مل پاؤں گا۔ کسی دوسرے شہر میں اپنی عزیز خواتین کے ساتھ مجھے شاپنگ کے لئے ایک بہت بڑی مارکیٹ میں لے کر گئیں، میں ایک طرف کسی کھلونے کی دکان پر اپنی توجہ مرکوز کر کے کھڑا ہو گیا، جونہی نگاہیں ارد گرد دوڑائیں وہاں مانوس چہرے دکھائی نہ دیے۔ کچھ فاصلے پر خواتین کھڑی تھیں، کچھ تسلی ہوئی بھاگ کر وہاں پہنچا مگر کسی انجان کو دیکھ کر جیسے ٹانگوں میں سے جان ہی نکل گئی، اپنے تئیں کوشش کی، ادھرادھر بھاگا، لیکن اپنوں کا کوئی اتا پتہ نہیں۔

ذہن ماؤف ہو گیا، خوف کے مارے رونے لگا۔ بار بار یہی لگے جیسے کبھی نہیں مل پاؤں گا۔ بچھڑ جانے کا غم کئی برس بعد اس وقت دوبارہ بڑی شدت سے محسوس کیا، جب اپنا لخت جگر کہنے والی یہی ہستی حقیقی معنوں میں دنیا سے رخصت ہوئی اور ہم سب کے ساتھ ہوتے بھی جیسے کہیں کھو گئے۔

یہ کھو جانے کا دکھ بہت گہرا ہوتا ہے، ایسے واقعات بھی مشاہدے میں آئے جن میں لاپتہ ہونے والے پھر نہیں مل سکے، ایک بچہ تیرہ برس بعد کسی دوسرے شہر سے واپس آیا اور والدین سے ملا۔ یہ واقعہ اس کی زندگی کے اہم دن اور رات چھین کر لے گیا۔ اس کا معصوم بچپن نہ جانے کہاں گزرا، ماں باپ کی محبت بہن بھائیوں کے پیار سے محرومی میں گزر گیا۔

ایک بار کسی بڑے مذہبی اجتماع میں میرا سولہ سال کا بیٹا گم ہو گیا، میں پریشان ہو گیا، میرے ساتھ ایک جاننے والے کے والد صاحب تھے، جنہیں اپنے بازوں کے حصار میں لئے باہر آ رہا تھا، اس دوران میری دعا تھی کہ اے خدا! میں نے جیسے کسی کے والد کی حفاظت کی تو میرے بچے کی خیریت رکھنا، میرا بیٹا مجھے مل گیا، جب میں نے اس سے پوچھا تم پریشان تو نہیں ہوئے چونکہ وہ سمجھ دار ہو چکا ہے، اس کا کہنا تھا مجھے لگا آپ گم ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ احساس اور خوف شاید میرے اندر ہی رہ گیا تھا۔

زندگی میں ہم کئی بار راستہ بھٹک جاتے یا کہہ لیں کھو جاتے ہیں اس کیفیت میں ہونے والی پریشانی شاید اس خوف دکھ کا مقابلہ نہیں کر پاتی۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے کسی پیارے کے کھو جانے کا غم بھی کسی طور کم نہیں۔

زندگی کا سفر اس کھونے کے بعد مل پانے اور اس درمیان والے وقت میں ایک شدید ذہنی کرب کا گزرا عالم نہ جانے آنے والے دنوں میں کب تک تعاقب کرتا رہتا ہے۔

اب ذرا مختلف سوچیں اور اس سب کو دوسرے رخ سے دیکھیں تو بعض اوقات انسان کی ذہنی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ کھویا کھویا سا رہتا اس کھونے میں اردگرد سے ناآشنا ہونا اور خود کو کہیں دوسرے مقام پر موجود پانا۔ ایسی حالت بھی انسان کی پریشانی ہی کا ایک دوسرا انداز ہے۔ یہ کیفیت دکھ یا غم میں لے کر نہیں جاتی لیکن بعض معاملات میں کسی صدمے سے دو چار کر کے زیادہ تکلیف دہ صورت اختیار لیتی ہے۔

بہرطور کھونے کا غم کہیں دل و دماغ میں لگنے والے زخموں کو بھرنے میں بھی وقت لیتا ہے یہ کبھی کبھی بہت گہرا ہوجاتا ہے کہ انسان خود بھی نہیں جان پاتا کہ یہ سب کیسے بھول پائے گا

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments