وحید احمد کی شاعری : ”پریاں اترتی ہیں“


وحید احمد کی شاعری متنوع خیالات و موضوعات کی شاعری ہے۔ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ ”پریاں اترتی ہیں“ تیس نظموں پر مشتمل ان کی چوتھی کتاب ہے۔ اس سے قبل ان کی منظوم شاعری کی جو شاہکار کتب منظر عام پر آئیں ان میں : ”شفافایاں“ ”ہم آگ چراتے ہیں“ اور ”نظم نامہ“ شامل ہیں

پریاں اترتی ہیں ”پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کے اندر ایک متجسس اور بے قرار روح بستی ہے جو کبھی ساتویں صدی قبل مسیح کے ایرانی پیغمبر زرتشت سے انیسویں صدی کے جرمن فلاسفر، نقاد، ادیب اور شاعر فریڈرک نیٹشے کی ملاقات کرواتی نظر آتی ہے تو کبھی اپنے قاری کو صلیبی جنگوں کے ماحول میں لے جا کر انسان کے اندر کی حیوانی صفت کو اجاگر کرتی ہے۔ جو کہ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جلوہ گر ہے۔ اور طاقت کے بل بوتے پر دوسرے انسانوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے در پے ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور مارا ماری کا ماحول صلیبی جنگوں کی یاد تازہ کرتا نظر آتا ہے۔

یہ حساس تخلیق کار آرمی پبلک سکول پشاور پہنچ کر دہشت گردی کا شکار ہونے والے معصوم بچوں کی روحوں کی زبان بن ایک دلگیر نظم نو نہال سوال کرتا ہے کے نام سے اس کتاب میں شامل کرتا ہے۔ نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو:

میرا اسکول تھا کوئی جنگل نہیں تھا۔
تو پھر کیوں اس میں جانور آ گئے؟
میرا چہرہ کٹا، میرا سینہ پھٹا، روشنائی گری صفحہ فرش پر
اور میں خون پر منہ کے بل گر گیا
میرا بستہ بس نوحہ خواں تھا میرا
میرے پہلو میں جو ہو کہ شل گر گیا
ہم جماعت کے گلشن میں بیٹھے ہوئے تھے
کہ اک اک کلی باری باری گری
قرض سارے تو پیپر کرنسی کے تھے
کیوں میرے خون کی ریزگاری گری؟
چار عشروں سے بے غیرتی کی ہوا میں
پنپتی ہوئی
سانس لیتی ہوئی
اے گنہ گار نسلو بتاؤ
میرا کفارہ کس دل سے تم کو قبول اور منظور ہے۔

پوئٹک آرٹ، کرافٹ اور موسیقیت کے اعتبار سے پریاں اترتی ہیں پڑھتے ہوئے بعض اوقات یہ ایک نغموں کی کتاب لگتی ہے۔ ہر شاعر کے اندر موسیقی تو بہر حال ہوتی ہے۔ مگر وحید احمد یقیناً ایک گلو کار بھی ہوں گے ۔ پریاں اترتی ہیں کی نظم عشرہ کشمیر میرے اس احساس کو تقویت بخشتی ہے :

قرۃ العین جنت کشمیر
روح کا چین جنت کشمیر
اک طرف دل تو اک طرف ہے جگر
اور مابین جنت کشمیر
اور بھی ہیں کئی ارم پارے
پر ہے واوین جنت کشمیر
مجھ کو آشوب چشم ہوتا ہے
میں جو کچھ دن نہ اپنا گھر دیکھوں
ہے یہ میری دعا کہ میں تجھ کو
جلد آزاد و مقتدر دیکھوں۔ ”

وحید احمد، جرمن فلاسفر، سماجی نقاد، شاعر اور ادیب فریڈرک نیٹشے سے متاثر ہے۔ وہ نیٹشے کے افکار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس عظیم فلاسفر کو نہایت دلچسپ اور خوبصورت انداز میں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ وحید احمد کی ایک طویل نظم ”سلام نیٹشے“ کا ایک بند ملاحظہ ہو:

نیٹشے کی آنکھ کے ڈھیلے پگھل کر بہہ گئے ”
اور سبز پانی گرم رخساروں کو چھو کر ترمرا کر، چر مرا کر اڑ گیا
پھر اس کا سینہ پھاڑ کر زرتشت ثانی نے زمانے میں قدم رکھا
اور اس کا کاسہ سر توڑ کر
شعلے پروں سے جھاڑتا
شاہین
۔
زرتشت ثانی
اپنے خالق نیٹشے کے بھربھرے ملبے پہ نقش پا بناتا جا رہا ہے
اے زمانے آ!
تماشا کر زمانے!
نیٹشے کا سرخ پیغمبر دمکتی غار سے باہر نکلتا ہے
فراز کوہ سے
پتھر کے زینوں پر قدم رکھتا ہوا
کون و مکاں کی سیاہ وادی میں اترتا جا رہا ہے۔

وحید احمد کی نظر میں کوئی بھی ادیب ایک ذمہ دار دانشور ہوتا ہے۔ وہ معاشرے کا نبض شناس ہوتا ہے۔ اس کو لمحہ موجود میں برپا انسانی تکلیفوں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ اور عوام کی زندگی آسان بنانے کی باتیں کرنی چاہئیں نہ کہ ہوا کا رخ دیکھ کر ہر دور میں اپنے نظریات بدل لینے چاہئیں۔ بد قسمتی سے دور حاضرہ کے اکثر لکھاری اپنے اس فن کو سیڑھی بنا کر اعلی عہدے اور ان سے جڑے مفادات حاصل کرتے ہیں یا دولت اور شہرت کے حصول میں حاکم وقت کی زبان بولتے نظر آتے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے ادیبوں، صحافیوں اور شاعروں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔

اس تکلیف دہ سچائی کو وحید احمد کا قلم بہت دلیرانہ میں پیش کرتا ہے :

ان کی اسی کتاب کی ایک نظم ”دعا“ کے چند اشعار نہایت دلیری اور کاٹ دار انداز میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں :

! اے خدا۔ اے خدا ”
مجھ کو ایسے ادیبوں کے شر سے بچا
جو کہ بازار دانش فروشاں میں ہر شام پیشے سے ہیں
جن کے میلے جھروکوں پہ لٹکی
پھٹی چلمنوں کے مساموں سے رستی ہوئی روشنی میں
بلاوہ ہے
ان مقتدر مورتوں کے لئے
وہ جو خود دوسرے ایک بازار کی سب سے نچلی رکھیلوں کے زمرے میں
جو رگیدے گئے ہیں
مگر اس قدر سخت جاں ہیں
کہ ان کی چھلی ہڈیوں سے حیا کا برادہ نکلتا نہیں
مگر اشتہا ہے کہ مرتی نہیں۔ ”“ ”

ہوئٹک آرٹ، فکری سنجیدگی، متنوع و دلگیر موضوعات اور موسیقیت کے حسین امتزاج کے اعتبار سے وحید احمد اس عہد کے ایک اہم نظم نگار ٹھہرتے ہیں۔ بلا شبہ ”پریاں اترتی ہیں“ اردو شاعری کی صف میں ایک تاریخ ساز اضافہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments