درخواست بنام وزیر اعظم برائے اجتماعی زہر خورانی


آج تک ہم اور آپ نے بہت سی درخواستیں لکھیں ہوں گی، بیماری کی درخواست، شادی، ضروری کام یا کسی فوتگی کی وجہ سے دی جانے والی درخواستیں تو عام ہیں۔ عام طور پر ان درخواستوں میں چھٹی مانگی جاتی ہے کہ کسی خاص وجہ سے ہمیں چھٹی چاہیے۔ اسی طرح سائل کئی طرح کی درخواستیں عدالتوں سے بھی کرتے ہیں اور ریاست کے کئی دوسرے اداروں سے بھی۔ حالات کے تناظر کے مطابق لوگ اپنی اپنی درخواستیں دائر کرتے ہیں اور حسب توفیق مسائل کا حل لیتے ہیں۔ لیکن آج جو درخواست ہم اہل اقتدار سے کرنا چاہتے ہیں وہ صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو پچھلے کئی سالوں سے حکومتی اقدامات کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے (بڑی تیزی سے) جا رہا ہے۔

غربت کی لکیر سے نیچے جانے والے سب سے پہلی درخواست اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے کرتے ہیں۔ چونکہ وہ نئے نئے اس لکیر کو پار کرتے ہیں تو کچھ دوست اس بات سے واقف ہوتے ہیں، کچھ نہیں ہوتے اور وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ شخص شاید حالات کی وقتی سختی کا شکار ہے لہذا وہ اس کی کچھ نہ کچھ مدد یا قرض اسے دے دیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اصل حالات آشکار ہوتے ہیں تو پھر اس شخص کی کی جانے والی مزید درخواستیں دوستوں اور رشتے داروں سے ریجکٹ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پڑی ہوئی عادتوں اور بھگتایا ہوا اسٹیٹس کبھی بھی واپس نہیں جاتا، لہذا غربت کی لکیر کے نیچے جانے والے بھی کئی سال تک اسی لکیر کو پکڑے رہنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر بھلا ہو حکومتوں کا کہ وہ صرف یہی چاہتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس لکیر سے نیچے جائیں اور جلد اس دنیا سے بھی رخصت ہونے کی تیاری کریں۔

غربت کے مارے لوگوں (یا جو نئے نئے اس میں داخل ہوتے ہیں ) کا سب سے بڑا المیہ وہ احساس محرومی ہے جو ان کو چین نہیں لینے دیتا۔ اس کا شکار سب سے پہلے اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ شاید یہ اس کے گناہوں کی سزا ہے (جب کہ گناہوں کی سزا تو نا اہل حکومت کی صورت میں پہلے سے ہی اس پر نازل ہو چکی ہوتی ہے)۔ جو لوگ بابوں، پیروں فقیروں پر اعتقاد رکھتے ہیں ان کی وجہ سے پیر صاحبان کی تو امارت میں اضافہ شروع ہو ہی جاتا ہے لیکن غریب مرید کو اس بات کی سمجھ کم از کم اس دنیا میں نہیں آ سکتی۔

جو نئے نئے غریب ہوئے لوگ قرض میں بھی دبے ہوتے ہیں (اکثر ہی دبے ہوتے ہیں ) وہ قرض خواہوں سے بچنے کے کئی ہزار جتن کرتے ہیں، اس دوران کچھ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اس طرح وہ پولیس، وکلاء اور عدالتوں کے سالوں سال کا رزق کا بندوبست کرتے ہیں۔ لہذا غریب اگر پیر صاحبان کو نہیں پال رہا تو ان کو ضرور پال رہا ہوتا ہے۔

ایک احساس جو سب سے اذیت ناک ہوتا ہے وہ یہ کہ ہر حکومتی وزیر (چاہے وہ کسی بھی بیک گراؤنڈ سے ہو) ہر روز یہ نوید سنا رہا ہوتا ہے کہ جتنی دودھ اور شہد کی نہریں اس حکومت نے بہائی ہیں اتنی تو آج تک کسی نے نہیں بہائیں، اب اگر لوگ ہی جاہل ہیں اور ان کو سمجھ ہی نہیں ہے تو حکومت کیا کرے۔ اس طرح ہر گزرنے والا دن غریب کے گھر کے حالات مزید سخت کرتا جاتا ہے، قرض، بھوک، احساس محرومی اور طعنے اس کے گلے کا پھندا بنتے جاتے ہیں، وہ بھی دوسروں کی طرح اپنی زندگی جینا چاہتا ہے لیکن مواقع نہ ہونے کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتا۔

سب سے بڑا دھچکا اس کو تب لگتا ہے جب ملک کا سب سے اعلی عہدیدار، وزیر اعظم، خود ٹیلی ویژن پر آ کر فرما رہا ہوتا ہے کہ میں نے آپ کے لیے تیس فیصد چینی، آٹا اور گھی سستا کر دیا ہے (پہلے بے پناہ مہنگا کرنے کے بعد ) اب آپ غریبوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ اپنے محلے کے سٹورز پر جائیں ان کو اپنا شناختی کارڈ نمبر دیں اور یہ سند دیں کہ آپ غریب ہو چکے ہیں، آپ کی عزت نہ پہلے تھی جس کی آپ کو فکر ہو گی، اور رہی سہی اب ختم ہو جائے گی، آپ کو ویریفائی کرنے کے بعد ایک مخصوص مقدار میں (اجناس کی شکل میں ) آپ کو زہر دے دیا جائے گا۔ اور پھر ہفتہ یا دس دن کے بعد آپ کو دوبارہ ضرورت ہو گی تو اسی اذیت سے گزرنا پڑے گا۔

اب آتے ہیں اس کے حل کی طرف، تو جناب وزیراعظم صاحب، آپ سے ایک اور طرح کی درخواست ہے کہ ایک دن پھر سے آپ میڈیا کے سامنے تشریف لائیں، اپنے وزراء سے کہیں کہ ہفتہ پہلے سے ہی اس کی تشہیر شروع کر دیں کہ جناب وزیر اعظم غریبوں کے لیے پیکیج کا اعلان فرمائیں گے۔ غریبو! خوشیوں کے شادیانے بجانا شروع کر دو! اس بے بڑا پیکج آج تک کسی مائی کے لعل نے نہیں دیا ہو گا۔ اور آپ اس دن بے شمار ٹیلی ویژن سکرینوں کے سامنے (بوٹاکس کے بے شمار انجکشن لگا کر، خوب اچھے سے تیار ہو کر، ہیلی کاپٹر پر اپنے گھر سے وزیر اعظم ہاؤس آ کر) یہ اعلان فرمائیں کے اے میرے دیس کے غریبو، حکومت تمہیں (تمہاری درخواستوں کو مانتے ہوئے ) اجازت دیتی ہے کہ اپنے اپنے علاقے میں اجتماعی زہر خورانی کرو، اس سلسلے میں تمہارے اوپر رحم کرتے ہوئے اور تمہارا احساس کرتے ہوئے، حکومت تمہیں زہر فراہم کرے گی۔

(اعلان کے ساتھ ہی سب وزراء تالیاں پیٹنا شروع ہو جائیں گے اور واہ وزیر اعظم صاحب کیا بات ہے آپ کے احساس کرنے کی، کا ورد شروع کر دیں گے۔ ) بارہ کروڑ لوگوں کی اجتماعی زہر خورانی کے بعد اس شام ٹیلی ویژن سکرینوں پر پروگرامز ویسے ہی چل رہے ہوں گے جیسے روز چلتے ہیں اور وزراء گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہوں گے کہ بتائیں کوئی وزیر اعظم ایسا آ یا ہے جس نے حکومتی خرچے پر زہر فراہم کیا ہو، اتنا خرچہ صرف ہمارے غریبوں کا احساس کرنے والا وزیر اعظم ہی کر سکتا ہے، ابھی بھی میڈیا والے کہتے ہیں کہ ہمیں غریبوں کا احساس نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments