ہم کم تر عورتیں


مجھے 24 فروری 2012 کی وہ دوپہر یاد ہے جب ایک تربیتی طیارے کو پرواز کرتے دیکھا اور صرف چند لمحات کے اندر یہ بریکنگ نیوز سنی کہ ماڈل ٹاؤن میں ایک پرائیویٹ تربیتی طیارہ گر کر تباہ ہوا۔ اس حادثے میں خاتون پائلٹ اور تربیتی ہوا باز کی جانیں گئیں۔ اس وقت کی نیوز اینکر ناجیہ عشر نے جب ایس پی آپریشنز ماڈل ٹاؤن معروف صفدر واہلہ سے حادثے کے متعلق سوال کیا تو ایس پی صاحب کا پہلا جملہ ہی یہی تھا کہ حادثہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ ہوا باز خاتون تھیں۔ جس کے جواب میں ناجیہ عشر نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا دنیا میں آج تک جتنے فضائی حادثات ہوئے ان سب کی ہوا باز خواتین تھیں، جس کے جواب ایس پی صاحب نے غالباً فون کاٹ دیا۔

ہمارے یہاں صنفی امتیاز پر مجرمانہ حجاب پھینکنا ہو تو ڈھٹائی سے جواب دیا جاتا ہے کہ بینک اور تندور میں عورتوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ تندور کا تو مجھے معلوم نہیں مگر بینک میں مرد و زن کی دو قطاریں تشکیل دی جاتی ہے اور ایک عورت اور ایک مرد کو باری دی جاتی ہے، عورتوں کو مردوں سے پہلے باری نہیں ملتی۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ مردوں نے سماجی زندگی پر اپنی حاکمیت قائم کی اور عورت کو اس کی باریکیوں سے دور رکھا۔ اب جبکہ عورتیں اس کا حصہ بن رہی ہیں تو ان کے کام کرنے کے انداز میں نقائص نکال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے قدرت نے ان کو اس طرح سے تخلیق کیا ہے کہ وہ تکنیکی سرگرمیوں کو سرانجام دینے سے قاصر ہوں۔ یعنی پدرشاہی نے اپنا جرم بھی ارتقاء پر عائد کیا ہے۔ دوسری جانب قدرت کا اصول یہ ہے کہ ہر انسان جس کام کرنے کی مسلسل تگ و دو اور محنت کرتے ہوں وہ اس کو سیکھ ہی نہیں جاتے بلکہ اس میں مہارت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔

ہمارے یہاں خواتین اب بھی بڑی تعداد میں گاڑیاں نہیں چلاتی۔ وہ گاڑیوں کی مالکن تو ہو سکتی ہیں مگر ان کو وہی گاڑیاں چلانا نہیں آتی۔ جب ہی بہت کم تعداد میں خواتین ڈرائیورز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جو خواتین گاڑی چلاتی ہیں، ان کو اچھے سے معلوم ہو گا کہ صرف گاڑی چلانے اور اس کو سڑک پر نکالنے میں لوگوں کے کس قدر منفی اور صنفی رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لڑکیاں موٹر سائیکل نہیں چلاتی تھیں، آج بھی بڑی تعداد میں خواتین موٹر سائیکل نہیں چلاتی، جو موٹر سائیکل سوار دو ماہ سے موٹر سائیکل چلا رہی ہو، اس کی مہارت اور تجربہ برسوں سے موٹر سائیکل چلانے والوں کی طرح نہیں ہو گا۔

اسی طرح دو ماہ سے موٹر سائیکل چلانے والے لڑکے کو وہ تجربہ اور مہارت نہیں ہوگی جو برسوں سے چلانے والے کو۔ لڑکیاں لڑکوں کی طرح گلی محلوں اور میدانوں میں کھلے عام کرکٹ نہیں کھیلتی نہ کھیلنے دیا جاتا ہے، اسی طرح لڑکے اب کھلے عام ہاکی نہیں کھیلتے، اسی وجہ سے پاکستان اس کھیل میں پیچھے ہے۔ پاکستان کے بین الا اقوامی کھلاڑی بڑے ناز سے قومی ٹی وی پر بیٹھ کر خواتین کی کرکٹ کی نفی کرتے آئے ہیں۔ اب اس کا تعلق عورت اور مرد کے درمیان قدرت کا امتیاز نہیں، انسان کا قائم کردہ امتیاز ہے جو مرد کی برتری اور عورت کے بے پردگی اور کمتری پر آ کر ٹوٹ جاتا ہے۔

صرف یہی نہیں، دنیا میں کلنری یعنی کھانا پکانے کی صنعت کے حوالے سے یہ بات عام ہے کہ مرد عورتوں سے اچھا کھانا پکاتے ہیں۔ ہزاروں سالوں سے عورت کو باورچی خانے کی حد تک محیط رکھا گیا اور آج جب مرد کھانا پکانے سے مال و دولت اور شہرت کما رہے ہیں وہاں وہ عورتوں سے اس کام میں بھی خود کو بہترین کہلواتے ہیں۔ ایک طاقتور انسان کا المیہ یہی ہے کہ وہ خود کو اشرف کہلاتا ہے اور اس کا یہ شرف صرف اسی کی نظر میں بیش قیمت رہتا ہے۔ وہ اپنی ہی آنکھ سے خود کو دیکھتا ہے اور اسی خول میں مقید خوش رہتا ہے۔ اسی طرح خواتین ڈرائیورز کو آج بھی اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں عورتوں کا گاڑی چلانا معمول کی بات ہے۔

آج سے چند ماہ پہلے میری بہن کی گاڑی کی بریکس فیل ہو گئی تھیں، اس گاڑی کو چند دن پہلے حادثہ ہوا جس کو حادثے کے وقت میرے والد کے کوئی دفتری ساتھی چلا رہے تھے۔ گاڑی کو جب حادثہ پیش آیا تو صنفی امتیاز کے مجرمانہ رویوں سے سرشار مرد ڈرائیور اور موٹر سائیکل سوار بجائے اس کے کہ حادثے کی شکار افراد کو طبی امداد دیتے یا مدد کرتے، وہ لوگ مجمع بنا کر عورتوں کے ڈرائیور ہونے پر کوسنے سنانے لگے، کھڑے بدتمیزی اور بدکلامی کا مظاہرہ کرتے رہے۔

یہ واضح رہے کہ اس حادثے سے کسی کی املاک کو ذرا برابر نقصان نہیں ہوا تھا نہ کسی اجنبی کو کوئی چوٹ آئی۔ ان تمام مردوں میں سے صرف ایک نوجوان نے آ کر میری زخمی والدہ اور چھوٹی بہن کی مدد کی۔ ان پندرہ بیس مردوں میں صرف ایک پڑھا لکھا اور مہذب نوجوان لڑکا تھا جس میں صنفی امتیاز کی بجائے شعور اور انسانیت موجود تھے۔ کیا کسی ایسے موقع پر ہم آپ کے تندور میں جگہ دینے پر آپ کے حضور سماجی طور پر سر بسجود ہو جائیں؟

یا جا بجا عورتوں کے خلاف جو نفرت کی بنا کر جرائم ہوتے ہیں ان پر اس لئے چپ سادھ کر ”ملکی وقار“ بچائیں کہ تندور میں جگہ ملتی ہے؟ کیا دنیا میں جتنی گاڑیوں کی بریکس فیل ہوتی ہیں ان سب کی ڈرائیور خواتین ہوتی ہیں؟ کیا سڑکوں پر جتنے مرد کار اور موٹر سائیکل سواروں کو حادثات ہوتے ہیں، وہاں لوگ ان کار سواروں کو کوسنا شروع کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ معاشرہ تو واقع ویسا ہے جس کا آئینہ دکھانے پر لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔

آج صبح میری بہن کی ایک سہیلی کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔ گاڑی ایک پھل فرش کے ٹھیلے سے ٹکرائی۔ جہاں پھل فروش کا ٹھیلا بکھرا وہیں کار سوار بھی ہوا میں اچھل کر باہر گریں۔ زخمی دونوں ہوئے، ہڈیاں دونوں کی ٹوٹی ہیں مگر موقع پر جمع ہونے والے حضرات جو صرف مرد ہی تھے نے خاتون کار سوار کی امداد کرنے کی بجائے ان پر برسنا شروع کر دیا، صرف اس لئے نہیں کہ وہ گاڑی کی مالکن تھیں اور ایک غریب کو چوٹیں آئی، وہ ان پر اس لئے برس رہے تھے کہ اگر عورتوں کو گاڑی ”چلانا“ نہیں آتی تو وہ گھر سے نکلتی کیوں ہیں۔

وہ اب بھی اعصابی تناؤ اور ذہنی صدمے میں مبتلا ہیں اور گفتگو نہیں کر پا رہی صرف اس لئے کہ حادثے کے وقت ان کی امداد نہیں کی گئی بلکہ ان پر لوگوں نے ان کو برا بھلا کہا کسی نے نہ اس خاتون کے بہتے لہو کی پرواہ کی نہ زمیں پر گاڑی سے اچھل کر گرنے کی۔ وہ گزشتہ چھ برس سے لاہور کی مصروف ترین شاہراہوں پر گاڑی چلا رہی ہیں۔ لاہور سے باہر سینکڑوں بار آتی جاتی رہی ہیں مگر اس سب کے باوجود وہ ایک بہترین ڈرائیور ہیں جو روزانہ ایک ایک گھنٹہ کی مسافت سے گھر سے یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے گھر جاتی ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ حادثہ جو کسی با صلاحیت ریس کار ڈرائیور کو بھی پیش آ سکتا تھا اس کی ذمہ داری عورت کی صنف پر داغ دی گئی۔ آج تک گاڑیوں اور ٹھیلوں کے ٹکراؤ کے جتنے حادثات رونما ہوئے کیا ان سب کی ڈرائیور خواتین تھیں؟ مردوں کو اگر اس قدر مہارت اور ہنر مندی سے گاڑی چلانا آتی ہے تو پھر دنیا میں مرد کار سواروں کی بدولت حادثات کیوں ہوتے ہیں؟

مجھے یاد آتا ہے کہ جب خواتین کو برا سرجن کہا جاتا ہے جبکہ یہ کہنے والے کہ خواتین ”قدرتی“ طور پر احمق اور کم عقل ہوتی ہیں جو سرجری کرنے سے قاصر ہوتی ہیں، دراصل وہ لوگ خود دور سے بھی طب اور سرجری سے واقف نہیں ہوتے۔ یہ بالکل ویسے ہے جب میں بحیثیت سیاسیات کی طالبہ کے یہ دعویٰ کر دوں کہ مجھ سے بہتر جنگی طیارہ کوئی اڑا نہیں سکتا یا کوئی ریٹائرڈ فوجی افسر خاتون صحافی سے یہ کہیں کہ وہ کسی حیثیت سے صحافت کر رہی ہیں؟

طیاروں کی بات ہو جائے تو اس مدعے کا حال بھی سڑکوں پر خواتین ڈرائیورز سے کم نہیں۔ جیسے ان افراد کے لئے عورت گاڑی نہیں چلا سکتی، وہ اچھی سرجری نہیں کر سکتی ویسے ہی وہ اچھی ہوا باز نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی عورتوں پر تو قدرت نے جیسے خاص لعنت ملامت سے کام لیا ہے، کم از کم معاشرے کی عینک سے دیکھا جائے تو معلوم یہی ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی عورتیں جہاز بھی اڑاتی ہیں، جنگی طیارے بھی، کام بیٹ میں بھی فرائض سر انجام دیتی ہیں، وہ عمدہ بڑھئی اور مکینک بھی ہوتی ہیں، غرض ہر وہ کام کرتی ہیں جو مرد کرتے ہیں مگر پاکستان کی عورت ”قدرتی“ طور پر کچھ زیادہ ہی نازک بنائی گئی ہے؟

بس اگر دنیا کے کسی خطے کی عورت خاص طور پر کم تر ہے تو وہ پاکستانی عورت ہی ہے جو دو کلو کا تھیلا بھی نہیں اٹھا سکتی؟ پاکستان کی عورت منتخب ہو کر تو ایوان نہیں آ سکتی مگر اسی خطے کی عورت کسی مغربی ملک میں صرف مقامی حلقے سے منتخب ہی نہیں ہوتی، بلکہ سیاسی جماعتوں کی سربراہ بھی بن جاتی ہیں۔ گویا نقص قدرت یا عورت کے ذہن کی ہارڈ وائرنگ میں نہیں، یہاں پر موجود عناد میں ہے۔ پاکستان کی عورتیں یہ سب کام کرنے سے قدرتی طور پر خاص طور پر معذور نہیں بلکہ سماجی طور پر معزول ہیں۔

دیہات میں ہی پاکستانی عورت کھیتوں میں فجر سے مغرب تک تندہی سے اپنی نام نہاد جسمانی طور پر نسوانی فطرت کے خلاف کام کرتی ہے، جب کئی کئی کلو وزنی فصلیں وہ کاندھوں پر لاد کر چلتی ہے، وہاں کسی کو اس کی نسوانی کم تری اور جسمانی کمزوری نہیں دکھتی۔ جب وہ اینٹوں کے بھٹے پر تپتی دوپہروں اور یخ سردیوں میں بنا جوتوں کے اینٹیں ڈھوتی ہے وہاں اس کی طاقت پر کوئی بھی سوال نہیں کرتا۔ یہ نزاکتیں خاص مرتب کردہ ہیں جن کے پیچھے پنہاں مقاصد نظر آتے ہیں۔ اس میں جسمانی یا منطقی کمزوری کا عمل دخل کم اور تاریخی صنفی تخصیص زیادہ بروئے کار لائی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments