حکومتی رٹ زمیں بوس ہو گئی


یہ پچھلی صدی کے آخری سالوں کا واقعہ ہے جب میری پوسٹنگ بحیثیت سپرنٹنڈنٹ جیل ساہیوال تھی تو ایک قیدی اس شان سے لایا گیا کہ وہ بکتر بند گاڑی میں بند تھا اور اس کی سیکورٹی پر پولیس کی کافی نفری مامور تھی معلوم ہوا کہ یہ قیدی علاقے کا نامی گرامی جرائم پیشہ شخص ہے جو بھتہ خوری، منشیات، قتل و غارت اور ناجائز قبضوں میں ملوث ہے جب اس کے خلاف صوبائی دار الحکومت میں سنسنی خیز اطلاعات موصول ہوئیں تو اس کی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے پولیس جب اس کی گرفتاری کے لئے گئی تو اس نے ان کو مار بھگایا اور قلعہ بند ہو کر بیٹھ گیا۔

حالات کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے اوکاڑہ، لاہور اور قصور تینوں اضلاع کی پولیس کے اسپیشل دستے اس کی گرفتاری کے لئے متعین کیے گئے۔ دونوں طرف سے متواتر دو دن اور رات فائرنگ ہوتی رہی دو دن کے بعد مشکل سے پولیس اسے گرفتار کر نے میں کامیاب ہوئی چنانچہ اب اتنی سیکورٹی میں اسے ساہیوال جیل پہنچایا گیا تھا۔ اس کا ریکارڈ دیکھ کر میں نے اس کو بیڑیاں لگا کر چکی بند کر دیا تاکہ جیل کے اندر اس کی نقل و حرکت پر پابندی رہے اور قیدیوں سے اس کا رابطہ بھی نہ ہو اور ایک جگہ محدود ہو کر بیٹھ جائے سیکیورٹی کے لئے مستقل عملہ اس پر لگا دیا۔

لیکن میری حیرانی کی حد نہ رہی جب ایک ہفتہ بعد ڈپٹی کمشنر اوکاڑہ کی طرف سے اس کو بی کلاس دینے کی چٹھی موصول ہوئی جس میں بی کلاس کے مطابق اسے بیٹھنے کے لئے میز کرسی مہیا کرنی تھی ہر صبح اخبار مطالعے کے لئے پیش کرنا تھا اور قیدیوں کے عام لنگر کی بجائے سپیشل کھانا تیار کرنے کے لئے ایک قیدی خانساماں بھی مہیا کرنا تھا یہ آرڈر دیکھ کر مجھے جنرل ضیاءالحق کے زمانے کا ایک قیدی یاد آ گیا راؤ رشید جو مغربی پاکستان کا دبنگ آئی جی پولیس تھا اور بھٹو صاحب کے زمانے آئی بی کا انچارج تھا اور جنرل ضیاء نے اسے گرفتار کر کے ہمارے پاس اٹک جیل بھیج دیا تھا اتنے بڑے عہدیدار کو بھی بی کلاس نہیں دی گئی تھی وہ سی کلاس مین عام قیدیوں کی طرح جیل کاٹ رہا تھا لیکن اس نامی گرامی مجرم کو بی کلاس عطا ہو گئی میں نے اس پر عمل درآمد کرنے کی بجائے ڈپٹی کمشنر کو چٹھی بھیجی جس میں اس کے کیس کی نوعیت کی نشاندہی کی ایف آئی آر اور اس میں مندرج دفعات کا حوالہ دیا اور درخواست کی کہ اس کی بی کلاس ختم کی جائے اس طرح کا سماج دشمن عنصر بی کلاس کا مستحق نہیں۔

اس چٹھی کا جواب آیا کہ نہیں اس کو ہر صورت بی کلاس دی جائے اور ہمارا حکم برقرار رہے گا۔ معلوم نہیں ڈپٹی کمشنر کی کیا مجبوری تھی بہرحال میں نے قیدی کو بی کلاس دیدی لیکن اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جیل رولز کے مطابق اس کو بیڑیاں لگا دیں اور چکی بند بھی رہنے دیا چکی کے اندر اس کو میز، کرسی دیدی اور اخبار بھی مہیا کر دیا ساتھ اس کا پرائیویٹ کھانا پکانے کے لئے ایک قیدی کی سہولت دیدی۔ انہوں نے تو بی کلاس اس لیے حاصل کی تھی کہ وہ جیل میں آزاد ہو کر دندناتا پھرے گا، لیکن ان کے عزائم خاک میں مل گئے بعد میں پتہ چلا کہ اس کا بھائی آرمی میں میجر ہے اور ڈپٹی کمشنر بھی سابق کیپٹن تھا۔

اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر ایک روز ایس پی کے ساتھ جیل معائنہ کے لئے آئے اور آفس میں بیٹھ کر مجھ سے پوچھا میں نے ایک بندے کو بی کلاس دی تھی اس کا کیا بنا سنا ہے وہ ابھی چکی بند ہے اور اس کو بیڑیاں بھی لگی ہیں۔ میں نے کہا اس بندے کو بی کلاس کی تمام سہولتیں دیدی گئی ہیں البتہ اس کے جرائم کی سنگینی کے پیش نظر میں نے ضابطہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو بیڑی بھی لگا دی اور چکی بھی بند کر دیا ہے اور انہیں بتایا کہ بی کلاس ایک سہولت ہے لیکن جیل کے اندر اس کی آزادی کا پروانہ نہیں کیونکہ اس کے کیس کی نوعیت بدل نہیں جاتی اور جس طرح اس نے پولیس مقابلہ کیا ہے وہ اس طرح کا کوئی تماشا جیل کے اندر بھی کر سکتا ہے کہاں ایک مجرم جو مختلف مجرمانہ سرگرمیوں کے علاوہ گرفتاری کے لئے دو دن پولیس کا مقابلہ کرتا رہا اور اس کو چند دن بعد بی کلاس کی سہولت دی جا رہی تھی

کچھ اس طرح کا سنگین مسئلہ آج قوم کو درپیش تھا جسے دیکھ کر مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا ملکی سطح پر جس طرح TLP کا جلوس نکلا اور اس شان سے نکلا کہ اس نے کالا شاہ کاکو کی جانب سے پولیس پر ہلہ بول دیا دونوں اطراف سے حملے کے بعد پولیس پیچھے ہٹ گئی مظاہرین نے قابو آنے والے اہلکاروں پر پتھروں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے تشدد کیا ان کے بازوؤں اور ٹانگوں کی ہڈیاں توڑ دیں اہلکار شدید زخمی ہو گئے اور بے یار و مدد گار طبی امداد کے منتظر رہے۔

مظاہرین نے پولیس کی درجنوں گاڑیاں بھی تباہ کر دیں۔ اسی طرح شیخوپورہ میں کالعدم جماعت کے ہزاروں کارکنوں کے جلوس کے سامنے پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینکڑوں مسلح اہلکار بے بس ہو گئے جبکہ آر پی او شیخوپورہ ریجن انعام وحید خاں ڈی پی او شیخو پورہ، احسن سیف اللہ ایس پی، ناصر جاوید کو اپنی جان بچانے کے لئے فیروز والا کے قریب ایک فیکٹری میں پولیس ملازمین کے ہمراہ پناہ لینا پڑی۔ جب وہ جی ٹی روڈ پر جلوس کے ہزاروں مظاہرین کے نرغے میں آ گئے تھے شدید آنسو گیس کے استعمال کے باوجود پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے میں ناکام ہو گئی۔

پتھر لگنے سے ڈی پی او شیخوپورہ زخمی ہوئے، پنجاب کانسٹیبلری کے پچیس ملازمین اور ایک سو پولیس ملازمین شدید زخمی ہوئے اور کالعدم جماعت کے درجنوں کارکن بھی زخمی ہوئے زخمیوں میں افسران اور اہلکار شامل تھے بے شمار اہلکاروں کی ٹانگیں اور بازوؤں کی ہڈیاں توڑ دی گئیں تحریک لبیک کے لانگ مارچ کو روکنے کے لئے دریائے چناب کے قریب بیس فٹ چوڑائی اور بارہ فٹ گہری خندقیں کھودی گئیں، جنرل بس سٹینڈ اور ٹرانسپورٹ کمپنیاں بین کر دی اور بسوں کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا گیا۔

شیخ رشید اور فواد چوہدری کی طرف سے ان پر الزام لگایا گیا کہ یہ دہشت گرد تنظیم ہے اس کے انڈیا سے رابطے ہیں ان کے بیانات ذاتی بیانات نہیں تھے بلکہ کابینہ کے خیالات کا پرتو تھا۔ لیکن عمران خان نے اچانک اس کالعدم تنظیم کے ساتھ کسی طرح مذاکرات کرنے کی خواہش ظاہر کی اور سونے پہ سہاگا یہ کہ سعد رضوی کو جیل سے نکال کر ہیلی کاپٹر پر اسلام آباد لایا گیا اور اس کی موجودگی اور اشیر باد سے سب کچھ طے ہوا۔ اور سیناریو یہ تھا کہ جب عمران خان ان مذہبی لوگوں سے مذاکرات شروع کرتا ہے تو اس میں حکومت نہیں کالعدم تنظیم شرط لگاتی ہے کہ وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات شیخ رشید اور فواد چوہدری کو اجلاس سے نکال باہر کیا جائے وہ جو عمران خان کا امیج بنایا گیا تھا کہ ڈٹ کے کھڑا ہے عمران وہ ان کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے اور دونوں اہم وزراء کو اجلاس سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور اس طرح اس بنانا حکومت کی رٹ قائم کردی جاتی ہے اور بعد میں جو معاہدہ سامنے آتا ہے اس اعلان میں نہ وزیر داخلہ موجود ہے اور نہ وزیر اطلاعات نہ وزیر مذہبی امور نہ طاہر اشرفی۔

اس میں چند غیر متعلقہ لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے اور معاہدہ کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور اس اعلان میں سوال جواب کی بھی گنجائش نہیں رکھی جاتی اس سارے کھیل میں حکومتی ارکان کا کردار نمائشی محسوس ہوتا ہے جبکہ اس پریس کانفرنس کے ہیرو اور روح رواں مفتی منیب الرحمن ہین اور ان کا فرمان ہے کہ یہ معاہدہ کسی کی شکست نہیں معاہدہ اسلام پاکستان اور حب الوطن کی فتح ہے اور مولوی بشیر فاروقی جو کہ سیلامی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ ہیں کا بیان تو اس معاہدے کی تمام پرتیں کھول دیتا ہے کہ یہ سب کچھ جنرل باجوہ کی برکت سے ہوا ہے اور آرمی چیف ایک ہزار فیصد چاہتے ہیں کہ ملک میں امن ہو اور ان کی برکتوں سے ہی سارا کام مکمل ہو گیا مزید کچھ سمجھے اور سوچنے کی ضرورت نہیں رہتی

اب تو عمران خان بھی کہ رہے ہیں کہ میں ملک میں خون ریزی اور تصادم نہیں چاہتا اور ہر مسئلہ کو سیاسی افہام و تفہیم سے حل کرنے پر یقین رکھتا ہوں پھر یہ سارا یدھ مودی کے اشارے پر ہو رہا تھا اور جو وفاقی وزراء بیان دے رہے تھے کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں اور انڈین ایجنٹ ہیں وہ خود سے تو نہیں کہہ رہے تھے بلکہ وہ کابینہ کا فیصلہ تھا خان صاحب قوم کو ہر وقت دبدھا میں رکھنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ اپنا ایک موقف دیں اور کل کے موقف سے اگر وہ غلط تھا اپنی قوم سے معذرت کریں دوسرا قوم کے لئے یہ امر انتہائی پریشان کن ہے کہ اس قدر پولیس افسر جو شہید ہوئے ہین اور سینکڑوں زخمی جن کے بازو اور ٹانگوں کی ہڈیاں توڑ دی گئی ہیں اور عام لوگوں کی پراپرٹی اور ان کی گاڑیوں کو آگ لگادی گئی اور جی ٹی روڈ کو بند کر کے لاکھوں انسانوں کو یرغمال بنائے رکھ گیا اور دکھ کی بات ہے کہ آگ اور اس ہولی کھیلنے والوں کے خلاف نہ حکومت کی طرف سے کوئی مطالبہ ہوا نہ عاشقان اسلام کی طرف سے کوئی آواز اٹھی۔

نہ حکومت کی زبان کھلی اور نہ مصالحت کرانے والوں کی طرف سے معافی طلب کرنے کا مطالبہ ہوا اور نہ ہی قاتل معافی مانگنے کو تیار ہیں کیا کوئی جاندار حکومت اپنے اہلکاروں کے قاتلوں کو معاف کر سکتی ہے یا اس پر چشم پوشی کر سکتی ہے۔ کیا یہ کیڑے مکوڑے تھے کوئی ان کا ذکر کرنے کو تیار نہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ملک میں بقول وزرا شورش برپا کرنے والے دہشتگردوں کو نہ صرف معاف کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے ساتھ انتخابی معاہدے ہو رہے ہیں اور عمران خان ان سے معاہدہ کرنے کے لئے اتنے بیتاب اور اس قدر خوش ہیں جیسے صحرا میں ایک پیاسا شخص پانی ملنے پر خوش ہو سکتا ہے عمران خان کی اس خوشی کی کوئی انتہا نہیں کیونکہ انہوں نے اب ایک وقت کے شدت پسند دہشت گردوں اور انڈین ایجنٹوں کے ساتھ مل کر اگلے انتخابات میں حصہ لینا ہے۔

سینٹر مصطفٰی نواز کھوکھر کا بیان اس حکومت کی نا اہلی کی مناسبت سے کتنا موزوں ہے کہ اس طرح تو کریانہ کی دکان نہیں چلائی جاتی جس طرح حکومت چلائی جا رہی ہے عمران خان کو احساس نہیں تھا کہ جن کی گود میں بیٹھ کر پروان چڑھ رہا تھا اسی گود میں اپنے آقاؤں کی داڑھی کھینچنا اسے کتنا مہنگا پڑے گا۔ اس سلسلے میں ایک موقف یہ تھا کہ موجودہ حکومت حالات سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ ساری مہم جوئی کر رہی ہے، عام طور پر ایسا ہوتا بھی ہے اور اس حکومت کی کم فہمی اور کج فہمی سے کوئی بعید بھی نہیں لیکن حکومتیں ایسا نہیں کرتیں جس سے ان کا رہا سہا وقار بھی خاک میں مل جائے۔

یہ لشکر کشی وہی کر سکتے ہیں جو اس کے ماہر ہوں اس سے دوسرا موقف زیادہ جاندار ہے کہ انہی آتش بجانوں نے ایک دوسری ایم کیو ایم تراشنے کے لئے ایسی مہم جوئی کی ہے تا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کو اپنے مقام پر رکھا جائے جب چاہو ان کے ووٹ توڑ دو جب چاہو ان کے ساتھ مل کر حکومت بنوا لو اور جب حکومت آنکھیں دکھانے لگے تو اس کو حکومت سے علیحدہ کرا کر حکومت کو دھڑام سے گرا دو۔ چنانچہ اس سارے خلفشار کا مقصد اس کالعدم تنظیم کو ایک سیاسی مقام دلانا تھا جو اسے مل گیا ہے اور اس طرح پولیٹکل انجینئرنگ بھی مکمل ہو گئی ہے۔

لیکن وہ جو پہلی انجینئرنگ میں امیج تخلیق کیا گیا تھا ایمانداری اور بہادری کا کہ ”کہ عمران خان ڈٹ کر کھڑا ہے وہ امیج بھی دھڑام سے نیچے گرا ہے اور ساتھ ہی اس کی پوری شخصیت کو واضح کر گیا ہے کہ یہ انا پرست انسان جو سیاسی فہم و بدتر سے تو پہلے ہی عاری تھا حکومت کرنے کے لئے مذہب کارڈ کا استعمال کر رہا تھا خود مذہبی لوگوں کے کارڈ کا شکار ہو گیا اور وہ اقتدار کا بھی وہ اتنا بھوکا ہے کہ ہر صورت اقتدار میں چمٹے رہنے کے لئے حکومتی اعلان کے مطابق قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے معصوم شہریوں کی املاک کو تباہ کرنے فساد پھیلانے، شورش برپا کرنے اور قانون کے محافظوں کا قتل عام کرنے والوں کو نہ صرف معاف کرنے کو تیار ہے بلکہ ان کی خود قائم کردہ غیر قانونی حیثیت کو بدل کر ان کے ساتھ انتخابی معاہدے کرنے کو بھی تیار ہے کہ کسی طور کرسی ہاتھ سے نہ جائے اسی لئے وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے کے لئے اس قدر بے تاب ہے اور وہ ان کے ساتھ معاہدہ کرنے میں اس قدر خوشی محسوس کر رہے ہیں جیسے صحرا میں ایک پیاسے شخص کو پانی ملنے میں خوشی محسوس ہو سکتی ہے اور کیوں نہ ہو وہ اپنی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ ایک وقت کے شدت پسند دہشت گردوں اور انڈین ایجنٹوں کے ساتھ مل کر اگلے الیکشن میں کرپٹ لوگوں کا مقابلہ کریں گے اور حکومت کے اپنے اعلان کے مطابق جن شورش پسندوں نے اتنے روز ملک مین خلفشار برپا کیے رکھا آئین و قانون کو جوتے کی نوک پر رکھا ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا اور انسانوں کا بے دریغ خون بہایا اہم ترین شاہراہ بند کر کے لاکھوں انسانوں کو یرغمال بنایا اس نام نہاد حکومت نے اب ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی بجائے ان کے سارے معاملات خدا کے سپرد کر دیے ہیں اور آگے بڑھ کر ان عناصر کے ساتھ ایک نیا انتخابی معاہدہ طے کر لیا ہے لیکن یہ ہولناک منظر دیکھ کر فضا میں ایک ڈی آئی جی پولیس کی چیخ منجمد ہو کر رہ گئی ہے کہ ابھی تو ہمارے شہیدوں کے ورثا کی سسکیاں ختم نہیں ہوئیں اور تم لوگوں نے معاہدہ کر لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments