ڈینگی بخار کی علامات اور علاج


پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈینگی کی وبا نے پھر سے شدت اختیار کرلی ہے۔ ملک میں اس وبا سے شکار ہونے والوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں صحت و صفائی ناقص ہے جس کی بڑی وجہ غربت اور آگاہی کا نہ ہونا ہے۔ خاص طور پر دیہاتوں میں یہ مرض کافی زیادہ پھیل چکا ہے۔ حکومت نے صحت کے شعبے میں ترجیحی بنیادوں کوئی توجہ نہیں دی جس کے باعث یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ڈینگی کا مرض کیسے پھیلتا ہے، اس کے لیے احتیاطی تدابیر کیا ہیں اور مرض لاحق ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے، آئیے جانتے ہیں۔

ڈینگی کس طرح پھیلتا ہے؟

پاکستان کے مختلف علاقوں میں ڈینگی وائرس کی شکایت عام ہو گئی ہے، یہ بیماری بڑھتے بڑھتے خطرناک شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دراصل ڈینگی انفیکشن یہ ایک خاص قسم کا وائرس ہوتا ہے۔ ڈینگی وائرس انسانوں میں مچھر کے کاٹنے سے منتقل ہوتا ہے، مچھروں کی مخصوص اقسام اس وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہیں۔ یہ بیماری ایک مخصوص مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے جس کو ایڈز ایجپٹی کہتے ہیں۔ ڈینگی عموماً ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔

ڈینگی بخار کا باعث بنے والا مچھر بڑا صفائی پسند ہوتا ہے۔ یہ خطرناک مچھر گندگی پر نہیں بیٹھتا بلکہ یہ بارش کے صاف پانی، گھریلو واٹر ٹینک کے ارد گرد صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں، گلدانوں اور گملوں وغیرہ میں رہنا پسند کرتا ہے جو عام طور پر گھروں میں سجاوٹ کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ یہ مچھر طلوع آفتاب سے غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتا ہے۔ ڈینگی بخار کا علم تین سے سات دن کے اندر ہوتا ہے۔ عام سے نزلہ بخار کے ساتھ شروع ہونے والا یہ بخار شدید سر درد، پٹھوں میں درد، جسم کی مختلف حصوں کو جکڑ کر انسان کو بالکل کمزور کر دیتا ہے، جب اس کی نوعیت شدید ہو جائے تو ناک اور منہ سے خون جاری ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس کی ابتداء بھوک کا مر جانا بھی ہے۔ اس قسم کے مچھروں کی افزائش تالابوں میں بھی ہوتی ہے اور یہ گھر کے اندر بھی افزائش کر لیتے ہیں۔ 80۔ 1979 میں پہلی دفعہ اس بیماری کا پتہ چلا تھا جب تین براعظموں ایشیاء، افریقہ اور امریکہ میں یہ وبا پھیلنا شروع ہوئی۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ اس بیماری سے متاثرہ افراد 1994 ء میں دیکھے گئے۔

احتیاطی تدابیر

یہ وائرس انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ اس سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنے انتہائی ضروری ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ بیماری لاحق ہو جائے تو مریض کو پانی اور دیگر مشروبات زیادہ سے زیادہ سے استعمال کرنے چاہیے اگر مریض کھانا نہ کھا سکے تو پھر ڈرپ لگائی جائے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر لوگوں کی توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے لیکن صاف پانی بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ مچھر دانیوں اور سپرے کا استعمال لازمی کرنا چاہیے کیونکہ ایک مرتبہ یہ مرض ہو جائے تو اس وائرس کو جسم سے ختم ہونے میں دو سے تین ہفتوں تک کا وقت لگ سکتا ہے۔

بارش کے بعد اگر گھروں کے آس پاس، لان، صحن وغیرہ میں پانی جمع ہو تو اسے فوراً نکال کر وہاں سپرے کرنے سے ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے، لہٰذا اس بیماری کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ جہاں مچھر پیدا ہوتے ہیں وہاں اسپرے کیا جائے، پانی کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔ گھروں میں مچھروں کی روک تھام کی تدابیر کی جائیں، گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں میں جالی کا بندوبست کیا جائے، تاکہ ہوا کے ساتھ ساتھ مچھر اندر نہ آ سکیں۔ جن میں مچھر دانی کا استعمال، پانی ڈھانپ کے رکھنا، گھر کے ارد گرد پانی کو جمع نہ ہونے دیں۔

سب سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ مچھر کہاں کس جگہ اور کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کھڑے ہوئے پانی، جوہڑوں کے پانی پر ان کی خوب بہتات ہوتی ہے اور ان کی افزائش نسل ہوتی ہے۔ غلاظت اور کوڑے کے ڈھیر، رکے ہوئے پانی، جگہ جگہ پر پانی کی جمی ہوئی کائی، کھلے ہوئے گٹر غیر صفائی شدہ گھاس مچھروں کی آماجگاہ ہوتی ہے لہٰذا سب سے پہلے اس جگہ کو صاف کرنا شروع کر دیں۔ اپنے میونسپل کمیٹی کے ادارے سے رابطہ کریں ان تمام جگہوں کو صاف ستھرا رکھیں جن سے مچھر کی افزائش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مچھر مار اور کیڑے مار ادویات کا بھی چھڑکاؤ کی جائے۔

اس لیے اب ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں سنجیدگی کا مظاہر کرتے ہوئے مختلف ٹیمیں تشکیل دیں جو دور دراز علاقوں، گاؤں اور گوٹھوں میں جاکر اس بیماری سے متعلق آگاہی فراہم کریں تاکہ اس بیماری سے چھٹکارا پا سکیں، ہنگامی بنیادوں پر کام نہ کیا گیا تو یہ بیماری مزید پھیل سکتی ہے۔ جبکہ اس میں ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھیں، کیونکہ ہماری صحت بہتر ہو گی تو پاکستان بھی ترقی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments