احتساب، ترمیم اور سیاسی سمجھوتے


پاکستان میں احتساب کا عمل ہمیشہ سے سیاسی سمجھوتوں، مصلحت پسندی، عدم شفافیت، مرضی کا احتسابی عمل سمیت کمزور ریاستی اور حکومتی سطح پر عدم ترجیحات کا عکاسی کرتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملک میں احتساب کے عمل میں جس تیزرفتاری سے معاملات سمیت اصلاحات کا عمل آگے بڑھنا چاہیے تھا اس کا ہر دور حکومت میں فقدان نظر آتا ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اصل بحران ملک کی طاقت ور اشرافیہ یا مختلف شعبوں کی سطح پر طاقت ور طبقہ کمزور حکومتوں کے سامنے زیادہ بالادست یا طاقت ور نظر آتا ہے۔

احتسابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے نیب کا اپنا ادارہ بھی وہ کچھ نہیں کر سکا جو اس کی تشکیل کے مقاصد تھے۔ ماضی کی دو بڑی حکومتوں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون شامل ہیں نے عملی طور پر اس ادارے کو سیاسی و قانونی مفلوج بنا دیا تھا۔ لیکن تحریک انصاف کی اپنی حکومت بھی وہ بڑے کام نہیں کر سکی جو اس ملک میں تمام سطح پر بے لاگ اور شفاف احتساب کے عمل کو نئی سیاسی طاقت فراہم کرسکے۔

حالیہ دنوں میں نیب کے قانون میں تیسری بار ترمیم کی گئی ہے۔ اس سے قبل چھ اکتوبر کو دوسری ترمیم کی گئی تھی اور ٹھیک ایک ماہ بعد ہی ہمیں نئی ترمیم کی ضرورت کیونکر محسوس ہوئی۔ دراصل دوسری ترمیم کے بعد فوری طور پر اس پر جو سیاسی، آئینی اور قانونی حلقوں میں ردعمل سامنے آیا تھا اس کے بقول نیب کے جو دو اہم دانت تھے دونوں کو نکال کر اسے لاچار کر دیا گیا تھا۔ اول ملزم کو نوے دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار جبکہ دوئم نیب عدالت کے پاس ضمانت کے اختیار کا نہ ہونا شامل تھا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ 6 اکتوبر کی ترمیم پر خود نیب کے ادارے اور سربراہ کو بھی تحفظات تھے جس کا اظہار بھی کھل کر کیا گیا۔ ایک عمومی سیاسی تجزیہ ہی سامنے آیا کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے مل کر نیب پر سیاسی سمجھوتہ کر کے احتساب کے عمل کو کمزور کیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جو شدید تنقید کا پہلو 6 اکتوبر کی ترمیم پر سامنے آیا تو اسی کو بنیاد بنا کر اب کچھ نئی ترمیم سے اس سیاسی تنقید کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

جو نئی ترامیم کی گئی ہیں ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نئی ترمیم میں نیب کے اس نقطہ کو تسلیم کر لیا گیا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں، مضاربہ، عوام کے ساتھ فراڈ، جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے مقدمات نیب کو دوبارہ واپس کر دیے گئے ہیں یا نیب کے ماتحت کر دیے گئے ہیں۔ اس ترمیم کے تحت یہ ہی امکان پیدا ہوا ہے کہ اب آصف زرداری، شہباز شریف، مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر اہم لوگوں کو کوئی بڑا ریلیف نہیں مل سکے گا۔

جبکہ دوسری ترمیم میں یہ امکان پید ہوا تھا کہ ان کو ریلیف مل سکتا تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں، عوام سے لوٹ مار کرنے والے اور خود آصف علی زرداری منی لانڈرنگ کے مقدمہ میں عدالتوں کے پاس پہنچ گئے کہ ان کو ریلیف دیا جائے کیونکہ نئی ترمیم کی وجہ سے ان کا مقدمہ اب کسی صورت نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ یہ ترمیم اس لحاظ سے عوامی مفاد میں اہم ہے کہ کیونکہ بہت سے لوگوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور دیگر منصوبوں کی بنیاد پر عوام سے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی تھی اور نیب کی تعریف کرنا ہوگی کہ حقیقی معنوں میں انہوں نے نہ صرف عوام کو ریلیف دیا بلکہ ان کی لوٹی ہوئی رقم بھی واپس دلوائی۔

اسی نقطہ کی بنیاد پر نیب سب سے بڑا دعوی کرتا تھا یا ہے کہ اس نے ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ لوٹی ہوئی رقم کی ریکوری کی ہے۔ اس اختیار کا دو بار نیب کو ملنا ایک لحاظ سے اہم اور اچھی ترمیم ہے جس کی حمایت ضروری ہے تاکہ لوگوں کو لوٹنے والوں کا احتساب ممکن ہو سکے۔ اس سے قبل جو ترمیم کی گئی تھی یا آرڈنینس لایا گیا تھا اس سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ منی لانڈرنگ کے مقدمات کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ اسی لیے نئی ترمیم کے ساتھ یہ واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ سے متعلق مقدمات نیب کے دائرہ اختیار میں ہی رہیں گے۔

نئی ترمیم میں سب سے زیادہ تنقید چیرمین نیب کو ہٹانے کے طریقہ کار پر سامنے آئی ہے۔ نئی ترمیم کے تحت چیرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار عملاً صدر مملکت کو دے دیا گیا ہے۔ حکومت کے بقول چیرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار تو آئین میں موجود تھا البتہ ہٹانے کا طریقہ کار موجود نہیں تھا اور اس ترمیم سے اس ابہام کو دور کیا گیا ہے۔ اس کے لیے وہی طریقہ کار رکھا گیا ہے جو سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کا موجود ہے، اس سے قبل جو ترمیم کی گئی تھی اس میں یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کو دیا گیا تھا کہ وہ چیرمین نیب کو اسی بنیاد پر ہٹا سکتے ہیں جس بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج کو ہٹایا جاسکتا ہے۔

تنقید یہ ہو رہی ہے کہ جو اختیار صدر مملکت کو دیا گیا ہے وہ عملی طور پر وزیر اعظم کی مشاورت سے جڑا ہو گا اور چیرمین نیب کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو وزیر اعظم کی خواہش کے برعکس ہو۔ تنقید یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس نئی ترمیم سے چیرمین نیب کی آزادی محدود ہوگی اور وہ حکومتی یا وزیر اعظم کے کنٹرول میں زیادہ ہو گا۔ جبکہ معروف قانون دان و سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے بقول آئین کی شق 48 / 2 کو دیکھیں تو اس میں کہیں نہیں لکھا کہ جو کام صد مملکت نے کرنے کے ہیں ان میں صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس یا مشاورت کا پابند نہیں۔ اسی طرح اگر سپریم جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار دینا ہے تو پھر اس میں آئینی ترمیم درکار ہے اور ویسے بھی یہ اس کا اختیار ہی نہیں کہ وہ نیب کے سربراہ کا احتساب کرے کیونکہ اس کا دائرہ کار اپنے ادارے کی جوابدہی کا پابند ہے، اس لیے حزب اختلاف کی تنقید سمجھ سے بالاتر ہے۔

ایک مسئلہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے نئی ترمیم پر تنقید کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ حزب اختلاف کے بقول ان کو اس نئی ترمیم کی مدد سے سیاسی انتقام یا سیاسی دیوار سے لگایا جائے گا اور حکومت نے اس ترمیم سے خود کو این آر او دیا ہے۔ اصل میں جس نقطہ پر سب سے زیادہ وا ویلا حزب اختلاف کی جانب سے مچایا جا رہا ہے وہ 6 اکتوبر سے پہلے کے تمام مقدمات نیب کے دائرہ اختیار میں رہیں گے جو عملی طور پر حزب اختلاف کو کوئی ریلیف دینے کی بجائے ان پر مقدمات کی تلوار کو لٹکاتا رہے گا۔

حزب اختلاف کا خیال تھا کہ دوسری ترمیم سے ہم بچ گئے ہیں مگر نئی تیسری ترمیم نے دوبارہ ان کو قانونی شکنجوں میں جکڑ دیا ہے۔ بالخصوص شہباز شریف پر جو منی لانڈرنگ کی تلوار لٹک رہی ہے اسے وہ نئی ترمیم میں دوبارہ اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور ان کی شدید تنقید کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ ہمیں تو نیب کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے جب کہ چھ اکتوبر کے بعد کے مقدمات سے نیب کو باہر نکالنے کا مقصد حکومت کا خود کو این آر او دینا ہے۔ کیونکہ حکومت نے تیسری ترمیم کی مدد سے چھ اکتوبر کے بعد کے اقدامات پر نیب کے دائرہ کار کو محدود کر کے ایف بی آر اور ایف آئی کے کردار کو شامل کر دیا گیا ہے تاکہ آج کی حکومت میں شامل لوگ مستقبل میں نیب سے محفوظ رکھ سکیں گے جن میں گندم، ایل این جی، پشاور میٹرو، مالم جبہ جیسے منصوبے شامل ہیں۔

بنیادی طور پر ترامیم کی سیاست کے تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ کیا پاکستان میں شفاف اور بے لاگ احتساب کا عمل آگے بڑھ سکے گا اور کیا حکومتیں اس اہم مسئلہ پر سمجھوتوں کی سیاست سے باہر نکل سکیں گی؟ کیونکہ بنیادی مسئلہ ملک کا منصفانہ اور شفاف احتساب کا عمل ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کے طاقت ور طبقات چاہے وہ حکومت یا حزب اختلاف سے ہوں یا مختلف شعبوں سے سب ہی اس ملک میں کسی بھی قسم کا احتساب نہیں چاہتے۔ وہ سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی کا سیاسی سہارا لے کر احتساب کے عمل کو پیچھے چھوڑ کر ملک میں بدعنوانی اور کرپشن کی سیاست کی آزادی چاہتے ہیں اور یہ ہی ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments