ریلیف پیکج اور ناقص پالیسی


قبلہ عمران خان صاحب نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب میں فرمایا کہ مستحق افراد کو اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستحق افراد کا تعین کیسے ہو گا؟ کیسے پتہ چلے گا کہ سبسڈی لینے والا واقعی مستحق ہے یا کسی مستحق کے حق پر ڈنڈی مار رہا ہے۔ ؟

اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے میرے پاس ایک بڑی واضح اور ٹھوس مثال موجود ہے۔ عمران خان صاحب نے اقتدار میں آتے ہی ایک ویب پورٹل متعارف کروایا جس میں کسی بھی سرکاری ادارے یا سرکاری افسر سے متعلق شکایت کا اندراج کیا جا سکتا ہے اور ویب پورٹل مانیٹر کرنے والے اہلکار متعلقہ ادارے کو انکوائری کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ اب ہوتا کیا ہے کہ جونہی آپ نے کسی پولیس افسر یا کسی بھی سرکاری ادارے کے خلاف شکایت درج کروائی وہ شکایت رلتی پھرتی اسی ادارے کے کسی افسر کے پاس پہنچ گئی۔

اس افسر نے دفتر میں بیٹھے ہی بیٹھے وہ شکایت آگے کسی جونیئر کو بھیج دی اور اس جونیئر نے وہ شکایت متعلقہ ادارے، تھانے یا دفتر میں بھیج دینی ہوتی ہے۔ اب انکوائری کرنے والے اس شخص کے اپنے بھائی بندے ہوتے ہیں جس کے خلاف شکایت کی گئی ہوتی ہے۔ وہ بھاگ کر سیدھا اپنے پیٹی بھائی یا دفتری ساتھی کو اطلاع دیتے ہیں اور دفتری ساتھی یا پیٹی بھائی اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے اس شکایت کو ”حل شدہ“ ثابت کروا کے انکوائری رپورٹ واپس بھجوا دیتا ہے اور یوں مسئلہ جوں کا توں موجود رہتا ہے۔

ہمارے گاؤں کے ساتھ ہی ایک گاؤں ہے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس گاؤں میں قیام پاکستان سے لے کر آج کے اس جدید دور تک بجلی کا نام و نشاں تک نہیں ہے۔ ہم دوستوں نے مل کر اس گاؤں کو بجلی دلانے کے لیے عملی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ویب پورٹل پر بھی شکایت درج کروا دی۔ چونکہ مقامی صاحبان اقتدار یعنی ایم این اے اور ایم پی ایز وغیرہ پر ہم نے اس گاؤں میں بجلی فراہم نہ کرنے کے سبب دبا کر تنقید کر رکھی تھی چنانچہ انہوں نے ویب پورٹل پر کی گئی شکایت کے نتیجے میں قائم ہونے والی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں ”حل شدہ“ لکھوا کر واپس بھجوا دیا اور یوں وہ گاؤں تاحال بجلی سے محروم ہے۔ اب اگر دوبارہ ویب پورٹل پر شکایت درج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ یہ مسئلہ پہلے سے ہی حل کیا جا چکا ہے۔

ویب پورٹل پر کی گئی شکایات کا، ون فائیو پر کی گئی کالز کا اور ہمیشہ کی طرح اشیائے ضروریہ پر ملنے والی سبسڈی کا جو حشر پہلے ہوتا ہے، اس سبسڈی کا بھی وہی حشر بلکہ حشر نشر ہو گا۔ ہمیشہ کی طرح، فائدہ اٹھانے والے اٹھائیں گے، مال اڑانے والے اڑا کر لے جائیں گے اور حق دار طبقہ ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد اور مایوس ٹھہرے گا۔

ون فائیو پر کی گئی کالز کے نتیجے میں جب متعلقہ تھانے کی پولیس موقع یا جائے وقوعہ پر پہنچتی ہے تو سب سے پہلے تو متاثرہ شخص یا کال کرنے والے شخص کو گالیوں سے نواز کر اس بات کا غصہ اتارتی ہے کہ آپ نے تھانے میں آ کر رپورٹ کرنے کے بجائے ون فائیو پر کال کیوں کی؟ دراصل وہ اپنی برتری اور حاکمانہ قوت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ ون فائیو پر کال کر لیں یا کسی اعلی افسر کو فون کر لیں، ہو گا وہی جو ہماری مرضی ہو گی۔

ویب پورٹل پر کی گئی شکایات کے موصول ہونے والے نتائج بھی آپ اوپر ملاحظہ فرما چکے ہیں باقی رہ گئی سبسڈی تو اسی حکومت میں کھاد، چینی، گندم وغیرہ پر دی گئی سبسڈی کے حال احوال آپ سب ہی کو یاد ہوں گے۔ کس نے چینی کی سبسڈی سے مال کمایا، کس نے کھاد کی سبسڈی سے فائدہ اٹھایا اور کس نے گندم پر دی گئی سبسڈی سے اپنی تجوریاں بھریں اس پر مین سٹریم میڈیا اور اخبارات کافی کچھ بلکہ سیر حاصل مواد و مباحثے نشر و شائع کر چکے ہیں۔

کنویں میں سے پانی ہی نکالا جا رہا ہے، مرا ہوا کتا نکالنے کی فکر کسی کو نہیں، نہ پہلے والوں کو تھی نہ اب کسی کو ہے۔ قبلہ محترم خان صاحب! آپ کو کون سمجھائے کہ غریب طبقے کی ضروریات آپ کے محض اعلانات یا ناقص پالیسیوں سے پوری نہیں ہوتیں، آپ کے رعایتی اعلانات یا ناقص پالیسیوں سے کسی غریب کا بھلا نہیں ہونے والا۔ سبسڈی ہمیشہ وہی لے اڑتا ہے جس کی جیب میں پہلے ہی وافر مال موجود ہوتا ہے۔ چھوٹا دکاندار یا نچلے درجے کا صارف جو اصل سبسڈی کا حقدار ہوتا ہے وہ ہمیشہ کی طرح محروم ہی رہ جاتا ہے۔

آپ کبھی کسی چھ سو روپے دیہاڑی کمانے والے مزدور سے بات کر کے دیکھیں، منہ سے کچھ بھی کہنے سے قبل اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو اور اس کے منہ سے نکلنے والی ٹھنڈی آہیں ہی آپ کو آپ کے سوالات کے جواب دے دیں گے۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدے گئے مہنگے کپڑے اور مہنگے جوتے پہن کر، مہنگی گاڑیوں میں سفر کرنے کے بعد ، مہنگے کھانے کی ضیافت اڑانے کے بعد ، عوام ہی کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لینے والے نا اہل اور خوشامدی وزرا اور مشیروں کی تیار کی ہوئی تقریروں کے پلندے تھام کر کیمرے کے سامنے بیٹھ کر پخیں اڑانا آسان ہے جبکہ چھ سو روپے دیہاڑی کما کر ساڑھے تین سو روپے کلو گھٹیا کوالٹی کا گھی اور ایک سو چالیس روپے کلو چینی خرید کر گھر چلانا یا کنبے کی کفالت کرنا انتہائی کٹھن ہے۔

قبلہ فرفر انگریزی بولنے والے امیر المومنین! کوئی ایسی قابل عمل پالیسی لائیے جس کا فائدہ براہ راست ایک عام مزدور کو ہو ورنہ ایسی کئی ناقص پالیسیاں اور ایسے کئی نا اہل حکمران اس ملک کا مزدور پچھلی کئی نسلوں سے دیکھتا چلا آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments