تحریک لبیک کے  بعد تحریک طالبان پاکستان: ریاست پاکستان کا خسارہ   


تحریک لبیک پاکستان  کے ساتھ مفاہمت کے  بعد اب خبر آئی ہے کہ حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھی ایک عبوری معاہدہ پر متفق ہوگئی ہے۔  بنیادی شرط کے مطابق  ٹی ٹی پی کے بعض لوگوں کو رہاکیا جائے گا جس کے بدلے میں تحریک طالبان پاکستان ،  اپنی دہشت گرد کارروائیاں معطل کردے گی۔ ایک ماہ کے دوران  حالات کا جائزہ لے کر بات چیت  اگلے مرحلے میں داخل ہوگی۔   یہ اقدام بظاہر وزیر اعظم عمران خان کے اس اعلان کی روشنی میں کیا جارہا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں  تصادم کی بجائے مصالحت کی پالیسی اختیار کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور جو دہشت گرد عناصر ہتھیایر پھینکنے کا وعدہ کریں گے ، انہیں عام معافی دے دی جائے گی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق   تحریک   طالبان کے ساتھ طے پانے والی افہام و تفہیم میں   جن لوگوں کو رہا کیا جائے گا ان میں  اس گروہ سے تعلق رکھنے والے نچلے درجے کے کارکن  شامل ہیں۔  قائدانہ کردار ادا کرنے والے لوگوں کو رہا نہیں کیا جائے گا۔  تاہم اس ابتدائی مفاہمت کے بعد  حکومت کی خواہش ہوگی کہ وہ تحریک طالبان کے ساتھ کسی ایسے نتیجہ  پر پہنچ سکے  جس کے  مطابق یہ گروہ  تشدد اور دہشت گردی سے مکمل طور سے تائب ہونے کا باقاعدہ اعلان کرے اور حکومت پاکستان   ’ہتھیار  پھینکنے ‘ کے اس  عمل کے بعد گزشتہ دودہائیوں سے ملک  میں  80 ہزار سے زیادہ   فوجی اور سول  افراد کو شہید کرنے  والے گروہ  سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں  کو معاف کرنے، رہا کرنے اور معاشرے کے باعزت شہریوں کے طور پر زندگیاں شروع کرنے  کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کرے۔  وزیر اعظم کے علاوہ صدر مملکت عارف علوی اس بارے میں دو ٹوک الفاظ میں وعدہ کرچکے ہیں۔

اتوار کو تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی طرح تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والی بات چیت یا  افہام و تفہیم کی تفصیلات بھی سامنے نہیں آئی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے   دو روز قبل قوم سے خطاب میں  ٹی ایل پی کے ساتھ ہونے والے معاہدہ اور اس کی وجوہات پر اہل پاکستان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ اسی طرح ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری  مذاکرات کے بارے میں بھی میڈیا کو غیر مصدقہ اطلاعات اور ’نامعلوم ذرائع‘ کے حوالے سے ہی باخبر رکھا جارہا ہے۔ اس حکمت عملی کا  ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قوم کو  اس اہم پیش رفت کے لئے ذہنی طور پر تیار کرلیا جائے۔ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد سرکاری میڈیا  اور سوشل میڈیا پر دسترس رکھنے والے حکومت نواز ڈھنڈورچی عوام کو  ایسے عناصر کو قبول کرنے  کے لئے تیارکرسکیں جن کے بارے میں  تھوڑی  مدت  پہلے تک  شکست دینے اور پسپا کرنے جیسے دعوے سنائی دیتے تھے۔

  ان دونوں تنظیموں کے ساتھ ہونے والی مفاہمت میں  یہ مماثلت بھی موجود ہے کہ تحریک لبیک پاکستان  کے مظاہرین شہری زندگی معطل کرکے اور پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے علاوہ انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے وزیر آباد تک پہنچ گئے تھے اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کررہے تھے۔ جبکہ تحریک طالبان پاکستان  بھی اپنے مطالبات کی تکمیل کے لئے  ایک بار پھر دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ کرچکی ہے اور قبائیلی علاقوں میں تقریباً  روزانہ کی بنیاد پر  عسکری ٹھکانے اور قافلے  ان کے نشانے پر ہوتے ہیں جن میں کثیر جانی نقصان کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ یعنی  حکومت  پاکستان نے یہ دونوں معاہدے  کسی کمزور  مگر ناراض گروہ پر رحم کے  جذبہ سے   ’طاقت کی پوزیشن ‘ پر  رہ کر نہیں کئے بلکہ دونوں صورتوں میں پاکستانی حکومت و ریاست مجبور اور بے دست و پا دکھائی دیتی ہے۔

ٹی ایل پی کے معاملہ میں بات پھر بھی چند پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور چند ارب روپے کے مالی نقصان تک  محدود تھی۔ اس گروہ نے  اگرچہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا اور  اپنے مطالبات منوانے کے لئے  ہر قسم کا  انتہائی ہتھکنڈا اختیار کیا تھا۔ اس کے لیڈروں کی تقریروں اور نعروں کا جائزہ  لیا جائے اور  اس کے مظاہرین اور کارکنوں کی حرکتوں پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ  اپنی بات منوانے کے لئے  تشدد اور لاقانونیت کا ہر راستہ اختیار کرنے پر  آمادہ تھے۔ تاہم پھر بھی  ٹی ایل پی نے ملکی آئین  کو مسترد کرنے اور ریاست یا حکومت کو مکمل طور سے غیر متعلق فریق قرار دینے کی انتہائی پوزیشن اختیار نہیں کی تھی۔ البتہ تحریک طالبان پاکستان کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ نہ صرف پاکستانی آئین کو مسترد کرتی ہے بلکہ  پاک فوج سے نبرد آزما ہونے اور اس کا مقابلہ کرنے کا اعلان کرتی رہی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے  ان کی دہشت گردی میں اضافہ ہؤا ہے۔ اور عام طور سے  ان حملوں کا نشانہ فوجی اڈے اور قافلے ہی بنتے ہیں۔  اس طرح ٹی ٹی پی سے مفاہمت  اور  ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف  جنگ جوئی  کو نظر انداز کرکے معاف کرنے کا رویہ اختیار کرنا ، مستقبل  میں پاکستان  کی  سیاسی و سفارتی پوزیشن کے لئے زیادہ سنگین اور پیچیدہ مضمرات کا حامل ہوگا۔

پاکستانی حکومت ہی یہ اعلان کرتی رہی ہے بلکہ تمام عالمی فورمز پر اس مؤقف کو تسلیم کروانے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ   دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان نے گزشتہ دو دہائی کے دوران پاکستان میں  دہشت  گردی کو فروغ دیا اور سول و عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں  فوجیوں کے علاوہ شہریوں سمیت 80 ہزار افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ ملکی معیشت کو 120 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔  پاکستانی حکومت اور اس کے نمائیندے امریکہ کو اس پاکستانی نقصان کا بالواسطہ ذمہ دار کہتے رہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ جس گروہ نے پاکستان کو اس قدر شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے،  اس کے ساتھ بات چیت کا  آغاز کرتے ہوئے کسی قومی ادارے کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

اس حوالے سے یہ  دیکھنا بھی اہم ہے کہ تحریک  لبیک کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ملک کی سول حکومت  مجبور دکھائی دی تھی۔    حکومت اور ٹی ایل پی میں ثالثی کروانے والے مفتی منیب الرحمان نے  وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک تازہ انٹرویو میں اعتراف  کیا ہے کہ  وہ  اس معاملہ میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملے تھے اور انہوں نے اس معاملہ کو کسی تصادم  کے بغیر پر امن طریقے سے حل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس بار ہونے والا معاہدہ پہلے سے یوں  بھی مختلف ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات ہیں کیوں کہ ’اس بار  ضمانت انہوں نے دی ہے جو اس کا اختیار رکھتے ہیں‘۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ قرار دے رہے ہیں کہ ملک کی منتخب حکومت جو وزیر اعظم عمران خان کی سرکردگی میں  کام کررہی ہے، کسی سرکش گروہ کے ساتھ معاہدہ کی ضمانت دینے کی اہل بھی نہیں ہے۔

اس کے برعکس تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والی ’عبوری مصالحت‘ میں ملکی فوج دفاعی پوزیشن میں دکھائی دیتی ہے۔   اگر تحریک انصاف کی حکومت کے نمائیندے افغان طالبان کے ساتھ مل کر پاکستانی طالبان یا دہشت گرد گروہوں کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں تو وہ بالواسطہ طور سے یہ اعتراف بھی کررہے ہیں کہ عملی طور سے ملکی افواج  ان گروہوں کے سامنے بے بس ہوچکی ہیں ۔ اس کا دوسرا پہلو افغان طالبان اور پاکستان کے تعلق کی صورت میں  دکھائی دیتا ہے ۔ اس میں بھی پاکستانی فوج ہی کی پوزیشن کمزور  نظر آتی ہے۔  کابل میں حکمران افغان طالبان نے  بار   بار درخواست کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے یا  ان سے قطع تعلق کرنے  کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب افغان  صوبہ خوست میں پاکستانی حکام اور ریاست کے سرکش پاکستانی طالبان کے درمیان  جو  مذاکرات ہورہے ہیں، ان کے سہولت کار بھی   افغان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی ہیں۔

سراج الدین حقانی اسی حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں جس کے بارے میں امریکہ کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ پاکستانی علاقوں سے افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا تھا اور پاکستانی فوج اس کی پشت پناہی کرتی تھی۔   اب وہی عناصر پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے پاکستانی حکومت اور فوج کو اس بات پر مجبور کررہے ہیں کہ وہ طویل عرصہ تک ملک میں دہشت گردی کرنے والے لوگوں کے ساتھ صلح کردے۔  یہ مصالحت اس ایک نکتہ کی بنیاد پر کرنے کا مشورہ  نہیں دیا  جارہا کہ ٹی ٹی پی  ماضی کی غلطیوں  پر  پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے  ہتھیار پھینک دیتی ہے اور پاکستان بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معاف کردے تاکہ وہ پر امن شہریوں کے طور پر زندگی گزار سکیں۔   مصالحت کے اس عمل میں  تحریک طالبان پاکستان کے نمائیندے ایک فریق کے طور پر حکومت یا ریاست پاکستان کے نمائیندوں سے برابری کی بنیاد پر کچھ رعایت دینے اور کچھ سہولت لینے کی بات کررہے ہیں۔   یہ صورت حال  مستقبل میں پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرے گی اور ہر سرکش گروہ  طاقت کے زور پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے گا۔

تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ افغان وزیر داخلہ کے ذریعے کسی مفاہمت کا یہ نتیجہ بھی ہوگا کہ امریکہ اور دنیا کے باقی ممالک پاکستان کو   ان دونوں گروہوں کے ساتھ ہی بریکٹ کریں گے۔ پاکستان  نے اس وقت تک سرکاری طور   افغانستان میں طالبان کی حکومت کو  تسلیم نہیں کیا ہے اور اس طرح دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ  بھی  باقی ملکوں کی طرح طالبان کی طرف سے پر امن بقائے باہمی کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار  کررہا ہے۔ لیکن  افغان طالبان (حکومت) پاکستانی طالبان اور پاکستانی حکومت کے درمیان بقائے باہمی کا معاہدہ پاکستان کی حقیقی پالیسی اور مستقبل میں اس علاقے میں انتہا پسندی کے  بارے میں شکوک و شبہات  کو جنم دے۔ بھارت اس صورت حال کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا۔ اور سفارتی طور سے پاکستان کے لئے  ایک دہشت گرد گروہ کے  ساتھ ’مفاہمت‘  تسلیم کروانا آسان نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2770 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments