منطقی سوچ کی اہمیت و ضرورت


ہمارے ہاں روز مرہ زندگی میں بے شمار واقعات ہمارے سامنے رونما ہوتے ہیں، مگر اس کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد ان واقعات کی ہے جو ہم تک روایات کے وسیلے سے پہنچتی ہے۔ ان روایات کا وسیلہ کوئی انسان بھی ہو سکتا ہے یا دیگر کوئی اور واسطہ جیسے تاریخی کتب اور ذرائع مواصلات جن میں ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیا شامل ہیں۔ تاہم ان روایات کو اپنے اذہان و قلوب کے اندر من و عن سما لینا اور جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر قبول کر کے خود نتائج اخذ کر لینا یا دوسروں کے اخذ شدہ نتائج کو تسلیم کرلینا ہرگز دانشمندی اور دانائی نہیں ہے۔

عام طور پر وہ واقعات جن کے ہم چشم دید گواہ ہوتے ہیں، ان میں بھی بسا اوقات غلطی کا احتمال موجود ہوتا ہے اور محض ہم متحرک تصویر کا ایک رخ دیکھتے ہیں اور دوسرے رخ کی تحقیق کیے بنا اپنا نکتہ نظر تراش لیتے ہیں۔ مگر اس بات کو جاننے یا اس کی تحقیق کرنے میں ہم کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کہ اس واقعے کا اصل محرک کیا ہے۔ لہذا اگر چشم دید واقعات کے اندر ہم تسامح کا شکار ہوسکتے ہیں، تو ان واقعات کے بارے میں اپنی رائے کشید کر لینا جو ہم تک بالواسطہ پہنچتے ہیں، ان میں غلطی کا احتمال کس قدر زیادہ ہوتا ہے، اس کے بیان کی شاید چنداں حاجت نہیں ہے۔

انسانی معاشرے میں عام طور پر ہر انسان ہر معاملے میں اپنا ایک خاص نکتہ نظر رکھتا ہے، جس کا احترام کرنا اور سننا دوسروں کے ذمہ لازم ہے۔ تاہم اس کا نکتہ نظر عملی اور فکری اعتبار درست ہو یہ ضروری نہیں۔ لیکن انسان کے واسطے یہ بات لازم ہے کہ وہ اپنا نکتہ نظر بنانے اور اس کو بیاں کرنے سے پہلے اس کو منطقی اعتبار سے سوچے اور عقل کی کسوٹی کو استعمال کر کے پھر نتائج کو اخذ کرے۔ تو اغلب گمان ہے کہ وہ ٹھوکر کھانے سے نہ صرف محفوظ رہے گا بلکہ دوسروں کے واسطے بھی امن و عافیت کا موجب بنے گا۔

لیکن اس کو ہم اپنا قومی زوال ہی کہہ سکتے ہیں کہ آج ہمارے ہاں عقلی استدلال اور منطقی سوچ نامی دو صفات ناپید ہو چکی ہیں یا معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ لہذا اس زمانے میں اگر ہم اپنے اردگرد موجود واقعات کو عقل و منطق کے میزان پر پرکھنا چاہیں تو فریق مخالف اسے اپنی انا کا مسئلہ گردانتے ہوئے ہمیں جانی اور مالی لحاظ سے نقصان پہنچانے کے درپے ہوجاتا ہے۔ جس کی بایں وجہ فریق مخالف کو معلوم ہوتی ہے کہ جن واقعات یا روایات کو وہ بیان کر رہا ہے ان کی بنیاد محض اور محض جھوٹ پر مبنی ہے جن کا کوئی عقلی اور منطقی وجود نہیں ہے۔ مگر اپنی علمیت کے زعم کو قائم رکھنے اور اپنے متبعین کے اوپر اپنا اثر باقی رکھنے کی خاطر وہ ہر ا اس آواز کو دبا دینے کا حکم جاری کرتا ہے جو آواز سوال اٹھاتی ہو، تنقید کرتی ہو یا ثبوت مانگتی ہو۔

یہ بات محض مذہبی عناصر تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاسی، عدالتی اور دفاعی شعبہ جات کے اندر بھی یہی چلن کارفرما ہے اور ہر اس آواز کو خاموش کیا جاتا ہے جو منطقی سوچ کے زاویے سے واقعات کو پرکھنے کے قصور میں ملوث ہو۔ چنانچہ ہماری تاریخ کو ہی دیکھ لیجیے کہ ایسے ایسے محیر العقول واقعات اور کارنامے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، اور عوام الناس کی اکثریت ”العوام کالانعام“ کے مانند ان کو من و عن قبول کر کے اپنی عقیدت و وارفتگی کا ثبوت دیتی ہے۔ مگر جونہی ان واقعات کی عقلی اور منطقی تشریح کی بات کی جائے تو ماتھے پہ بل پڑ جاتے ہیں اور پھر فتاوی جات سے آغاز کر کے پھانسی پہ اختتام کر کے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل کو عشق سے مات دے دی، لہذا اب کوئی دوسرا اس قسم کی جرات نہیں کرسکے گا۔

برصغیر کی مشہور صوفی ہستی حضرت نظام الدین اولیاء رح کا ادب و احترام اپنی جگہ مسلم ہے اور ان کی بزرگی سے کوئی انکاری نہیں ہے۔ مگر ان سے منسوب ایک کتاب مکاشفۃ القلوب میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی مجلس میں صحابہ موجود تھے، کہ آپ ﷺ نے اچانک ارشاد فرمایا کہ لو! وہ دیکھو جنتی کے اوپر جہنمی سوار ہو کر جا رہا ہے۔ صحابہ نے جو پیچھے دیکھا تو ان کو حضرت معاویہ رض نظر آئے جنہوں نے اپنے بیٹے یزید کو شانوں پہ بٹھا رکھا تھا اور وہ گلی سے گزر رہے تھے۔

لہذا صحابہ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ یزید بموجب فرمان مصطفیٰ ﷺ جہنمی ہے۔ اب کون بدبخت ہو جو یہ جرات کرے اور ان حضرات سے یہ سوال پوچھ سکے کہ حضرات گرامی! کیا یہ واقعہ درست ہے؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ ہم نے شخصیت پرستی کا بت اس عقیدت کے ساتھ پال رکھا ہے کہ ہم انبیاء کرام سے صادر شدہ لغزشیں اور صحابہ سے جو اغلاط ہوئیں ان کو تو مان لیتے ہیں۔ تاہم ہمارے سلاسل اربعہ کے بزرگ غلطی کر جائیں یہ بات ہم ایک لحظہ کو سوچنے کے واسطے بھی تیار نہیں۔

تاہم اگر محض اس ایک واقعہ کو منطقی اعتبار سے پرکھا جائے اور اس کی کھوج لگائی جائے تو ہم مندرجہ ذیل سوالات اٹھا سکتے ہیں۔ اول یہ حدیث، محدثین کی کس کتاب میں درج ہے؟ دوئم اس کی سند کہاں ہے؟ یہ روایت کے ضمن میں بحث آ گئی۔ اگر درایت کی طرف جائیں تو پہلا سوال کہ یہ واقعہ کب ہوا؟ دوئم اس واقعے کے بعد صحابہ کا طرز عمل کیا رہا؟ اب ہم اس واقعے کا عقلی لحاظ سے تجزیہ کریں تو سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ حضرت امیر معاویہ رض نے نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں شادی ہی نہیں کی تھی۔

جب آپ نے شادی ہی نہیں کی تو یزید کہاں سے آ گیا؟ لہذا محض اسی ایک بات سے اس جھوٹی روایت کا سارا پول کھل جاتا ہے، مگر جیسا میں نے عرض کیا کہ ہم شخصیت پرستی کے فتنہ میں اس شدت سے مبتلا ہیں کہ ہم یہ تصور کرنے کو بھی تیار نہیں کہ ہمارے بزرگان دین سے غلطی کا صادر ہونا ممکن ہے۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں یا بائبل پڑھتے ہیں تو ہمیں آدمؑ کی لغزش کا پتہ چلتا ہے، ہمیں نوحؑ کی لغزش کا نشان ملتا ہے، ہمیں داودؑ کی لغزش کا علم ہوتا ہے۔ تاریخ و سیرت کی طرف آئیں تو صحابہ سے جو گناہ کا صدور ہوا وہ موجود ہے۔ اور ہم ان کو مان لیتے ہیں اور اس کی تاویل بھی نہیں کرتے۔ مگر جب بات ہمارے بزرگان دین یا آئمہ کی طرف لوٹتی ہے تو ہمارا لہجہ یک دم تلخ ہوجاتا ہے اور ہماری آنکھوں میں سرخی اور جذبات میں شدت عیاں ہوجاتی ہے۔ آخر کیوں؟

گویا انبیاءؑ سے لغزش ہو، یا صحابہ سے غلطی کا صدور ہو تو ہمارے لئے قابل برداشت ہے، مگر ہمارے بزرگان دین یا آئمہ سے غلطی کا صدور ہو جائے اس بات کا تصور بھی ہمارے ذہن کے احاطے سے خارج ہے۔ تو کیا اس کا مطلب ہمارے بزرگان دین کا مرتبہ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ سے بھی بلند ہے؟ دوسرے الفاظ میں ہمارے بزرگان دین اور آئمہ طبقہ انسانیت میں سے نہیں بلکہ ملائک کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ انسان اغلاط سے مبرا نہیں مگر ملائک کی یہ بنیادی خصوصیت ہے کہ وہ اغلاط سے پاک اور معصوم عن الخطاء ہیں۔

اسی طرح ہمارے ذرائع مواصلات کا بھی حال ہے کہ جو دل چاہا، یا جو جی میں سمائی وہ کہہ ڈالی اور اپنے مخاطب کو اس بات پہ قائل کرنے کی تگ و دو میں مصروف عمل نظر آئے کہ ہمارا نکتہ نظر ہی درست ہے اس کے ماسوا سب باطل ہے۔ چنانچہ وضع شدہ تاریخ، جھوٹ، نامکمل معلومات اور تصویر کا ایک رخ پیش کر کے عوام الناس کے اذہان و قلوب کو متاثر کرنا اور کسی خاص مقصد کے واسطے ان کا نکتہ نظر بنانے کی خاطر کٹھ پتلیوں کو نچانا یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ہماری قومی تاریخ کے تہتر سالہ دور مین کتنی تحریکات اٹھیں، طوفان کی طرح آئیں اور جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں، مگر عوام الناس نے کبھی بھی کسی تحریک کو منطقی اور عقلی لحاظ سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم اس بات کو سمجھنے کو آج بھی رودار نہیں ہیں کہ وہی مخصوص چہرے جب نعرے بدل کر، ایک مخصوص ماحول اور مخصوص وقت میں ہر مرتبہ نئے انداز میں ہمارے سامنے آتے ہیں تو ان کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ سب خود کر رہے ہیں یا ان کی ڈوریاں کوئی اور ہلا رہا ہے؟ ان کو مالی اور اخلاقی کمک کہاں سے فراہم ہو رہی ہے؟ یہ عام افراد کی املاک کو ہی کیوں نقصان پہنچاتے ہیں؟ یہ اپنے منشور میں آئین کی بالادستی کو کیوں جگہ نہیں دیتے؟ یہ بلا تفریق مذہب تمام طبقات کو اپنے اندر سمونے سے کیوں کتراتے ہیں؟

اور پھر اس پہ مستزاد ہر جماعت جو موروثیت کے ستون پر قائم ہے، اور جہاں پارٹی یا جماعت بنانے کا مقصد اپنی نسلوں کو معاش جیسی فکر سے آزاد کرنا اور دولت کے انبار جمع کرنے کے علاوہ ذاتی اثر و رسوخ بنا نا ہو، ہم ان کے خوشنما نعروں، ظاہری حلیوں اور سیاسی اصطلاحات کے مغالطے میں آ کر اپنا سب کچھ برباد کر دیتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود جماعت ان عام افراد کی قربانیوں کو نہ تسلیم کرتی ہے، نہ اس کے شایان شان ان کو نوازتی ہے۔

سو یہ بات ہر دور میں نہایت اہم رہی ہے کہ ہم اپنی عقل کو منطقی رخ پر استوار کر کے ان واقعات پر غور کریں جو ہمارے سامنے ہوتے ہیں یا پیش کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ اگر اب بھی اس نعمت کو استعمال نہ کیا تو آنے والے ایک نئے طوفان میں ہم ایک مرتبہ پھر بہہ جائیں گے اور خس و خاشاک کی طرح نہ جانے ہمارا وجود کہاں سے برآمد ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments