شودے مرد


اس تحریر کا عنوان ہم نے بیچارے مرد یا شودے مرد اس لیے رکھا ہے کہ مرد بھی مظلوم ہو سکتے ہیں۔ استاد محترم نصرت جاوید کے بقول جان کی امان ملے تو ہمیں یہ کہنے دیجیے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں ایک بھیڑ چال جاری ہے۔ یعنی عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو ذرائع ابلاغ میں بار بار اجاگر کیا جاتا ہے لیکن مردوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ حالانکہ وقت کے ساتھ اب یہ معیار بھی بدل گئے ہیں۔ مثلاً آج سے کچھ سال پہلے عورتوں پر تیزاب پھینکنے اور انہیں تیل چھڑک کر آگ لگا دینے کی خبریں آیا کرتی تھیں لیکن اب ایسی ہی خبریں مردوں کے حوالے سے بھی آنے لگی ہیں لیکن اب بھی ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

پہلی بات تو یہ کہ اگر ایک ماں مظلوم ہے تو اس کی اولاد بھی مظلوم ہے جن میں بیٹیاں اور بیٹے دونوں ہی شامل ہیں۔ اب بیٹیوں کی مظلومیت کی باتیں بہت کی جاتی ہیں لیکن بیٹوں کی نہیں۔ ہر وقت لوگوں میں یہی بات ہوتی ہے کہ فلاں کی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہو رہے۔ پے چاری کے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے لیکن یہی بات مردوں کے حوالے سے نہیں کی جاتی کہ بچارے کے سر یا داڑھی کے بال سفید ہو رہے ہیں لیکن اس کی شادی نہیں ہو رہی۔ حالانکہ کیا مردوں کا دل شادی کو نہیں چاہتا؟ اور پھر جب ایسے مردوں کی بالآخر شادی ہوتی ہے تو بچارے کو اپنی عمر کے حوالے سے طعنے سننا پڑتے ہیں کہ باپ کی عمر کا ہے۔ بیوی چھوٹی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

اور مرد بھی سر جھکا کر چپ چاپ اس حوالے سے لوگوں کی طنزیہ باتیں سنتے رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک تو مردوں کے بارے میں عجیب و غریب روایات قائم ہیں۔ مثلاً اگر مرد اپنے جذبات کا اظہار کرے اور رونے لگے تو اسے کہا جاتا ہے کہ مرد بنو، مرد رویا نہیں کرتے، عورتیں روتی ہیں۔ حالانکہ آج سائنس کہتی ہے کہ دکھ پہنچنے پر رونا یا اپنے احساسات کا اظہار کرنا انسان کے جذبات کی تسکین کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ یوں مردوں کو اپنے جذبات کا اظہار کرنا نہیں آتا۔

اس طرح سے مرد کے اندر خود بخود یہ سوچ راسخ ہوتی چلی جاتی ہے کہ اسے ہر معاملے میں سختی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ مردوں کے حوالے سے ایک یہ بات ہے کہ اپنی بیوی یا محبوبہ سے محبت کا اظہار کرے تو چھچھورا یا ٹھرکی اور نہ کر کے تو پتھر دل اور بے مروت کہلاتا ہے۔ یہ سوچ بھی اسے دوسروں سے سخت گیری اختیار کرنے پر اکساتی ہے۔ یوں بگاڑ کی پہلی اینٹ تو شروع میں ہی رکھ دی جاتی ہے۔ یعنی وہ اپنی مشکل بیان کرنا چاہتا ہے مگر نام نہاد مردانگی کے تقاضے اسے ایسا نہیں کرنے دیتے۔

آگے چل کر مرد اپنی ایسی کسی کمزوری یا نرمی کو ظاہر کرنے سے کھسیاہٹ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مرد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ مردوں کا برا یا سخت گیر ہونا بہت ضروری ہے۔ یعنی بقول بابا بلھے شاہ ان کی ”بکل دے وچ چور“ جیسا معاملہ ہو جاتا ہے کہ مردوں کا ظلم کرنا ان کی پیدائشی فطرت سمجھ لیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے جب ان کے ساتھ کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس پر زیادہ بات نہیں ہوتی ہے۔

اب یہ تاثر ختم ہو جانا چاہیے۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ عورت بھی مرد پر ظلم کر سکتی ہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ مرد مردوں پر ظلم کرتے ہیں اور عورتیں عورتوں پر۔ ہم صرف ساس بہو کے روایتی ٹام اینڈ جیری قسم کی لڑائی کی بات نہیں کر رہے۔ نند بھاوج، دیورانی کی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں اور حتٰی کہ غیر انجان عورت جب دوسری عورت پر سوتن بن کر جانا قبول کرتی ہے تو وہ دوسری عورت پر ظلم ہی ڈھا رہی ہوتی ہے۔

یہ عورتوں کے ساتھ بھی ظلم ہے کہ انہیں چھوئی موئی اور نازک چیز قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ مرد اور عورت برابر پیدا ہوتے ہیں لیکن عورتوں کو کمزور اور نازک ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے جبکہ مرد کو طاقتور ہونے کا۔ نتیجہ یہ کہ جب مرد خود کو طاقت ور سمجھتا ہے تو پھر وہ عورت کو کمزور اور بے کار شے سمجھ کر اس پر ہاتھ اٹھانے سے بھی نہیں چوکتا۔ جو کہ مردوں اور عورتوں دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ عورتوں کو مضبوط اور مردوں کو نرم و نازک لطیف جذبات و احساسات کا برابر اظہار آنا چاہیے تاکہ معاشرے میں عورت اور مرد کے درمیان تفاوت پیدا نہ ہو۔ باہر کی دنیا میں دیکھا جائے تو عورتیں مردوں جیسے کام مثلاً کشتی کرنا جس میں وہ عورتوں اور بعض اوقات مردوں کی بھی باآسانی پٹائی کر دیتی ہیں۔ کرین چلانا، ٹینک چلانا، آگ بجھانا یعنی فائر برگیڈ کا کام کرنا، اور ایسے کتنے ہی مشقت والے شعبے ہیں جن میں خواتین آگے آ رہی ہیں۔ اگر آپ سعودی عرب کے حوالے سے خبروں میں دلچسپی لیتے ہیں تو آپ نے سعودی عرب میں گاڑی مرمت کرنے اور مردوں کو اسلحہ چلانے کی تربیت دینے والی خواتین کے بارے میں خبریں پڑھی ہوں گی۔

اس قسم کی سوچ کی وجہ وجہ سے دیگر مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ مثلاً آج کل باہر کے مزیدار لیکن صحت کے لیے انتہائی مضر کھانے کھانے کا رواج بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے گھر میں رہنے والی خواتین زیادہ موٹاپے اور بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں۔ اگر مرد و عورت گھر کا کام برابری کی بنیاد پر کریں تو باہر کے کھانے کھانے کی نوبت نہیں آئے گی اور میاں بیوی مل کر کھانا پکائیں گے تو ان دونوں کی ورزش بھی ہوتی رہے گی اور صحت مند کھانے کھانے کی وجہ سے صحت بھی خراب نہیں ہوگی۔

لیکن اس میں خیال رکھیں کہ اس لطیفے جیسا ماحول نہ بن جائے کہ دو گہرے دوست کافی مدت بعد ملے تو ایک دوست نے کہا کہ میری بیوی کے ساتھ بہت لڑائی ہوتی ہے۔ دوسرے نے کہا کہ میری بیوی کے ساتھ کبھی لڑائی نہیں ہوتی۔ پہلا دوست حیران رہ گیا۔ اس نے پوچھا وہ کیسے؟ اس نے بتایا میں کھانا پکاتا ہوں، وہ کھا لیتی ہے۔ میں کپڑے دھوتا ہوں، وہ پہن لیتی ہے۔

اس کے علاوہ عام طور مرد اپنی بیویوں سے شکوہ کناں رہتے ہیں کہ وہ چیزوں کی خریداری پر زیادہ خرچہ کر لیتی ہیں۔ لیکن اگر گھر کی خواتین خود بھی کماتی ہوں تو ایک تو مرد پر اس خریداری کا زیادہ بوجھ نہیں پڑتا اور دوسرا خواتین خود بھی خریداری کرتے ہوئے زیادہ سوجھ بوجھ سے کام لیتی ہیں۔ کیونکہ انہیں پیسہ کمانے کی مشقت کا علم ہوتا ہے تو وہ خرچہ کرتے ہوئے بھی زیادہ سوچ بچار کرتی ہیں۔ یعنی یہ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام جیسا معاملہ بن جاتا ہے۔ یعنی ایک تو خریداری کے معاملے پر بیوی سے لڑائی نہیں ہوتی، دوسرا گھر کی آمدن کا ایک اور ذریعہ بن جاتا ہے۔

اسی طرح اگر آپ بازار میں میاں بیوی کو ایک ساتھ چلتا ہوا دیکھیں تو عموماً مرد بچے بھی اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں اور خریداری کا بیشتر سامان بھی اٹھائے ہوتے ہیں جبکہ بیوی کے پاس زیادہ سے زیادہ اپنا پرس ہوتا ہے۔ لیکن کچھ معلومات میں اس کے الٹ ہوتا ہے یعنی بیوی سب کچھ اٹھائے ہوتی ہے اور شوہر خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ دونوں صورتیں ہمارے معاشرے کی انتہاء کو ظاہر کرتی ہیں

اسی طرح مرد کو اپنے جوتے جرابیں اور میلے کپڑے یوں ہی پھینک دینے پر کہا جا تا ہے کہ کوئی بات نہیں۔ مرد لاپروا ہوتے ہیں، یہ کام عورتوں کا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں مرد کے پھوہڑ پن کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسی طرح عورت باہر کا کام کرتے ہوئے غلطی کرے تو کہا جاتا ہے کہ عورت کو بھلا کیا معلوم باہر کی دنیا۔ یہ دونوں رویے ہی غلط ہیں۔ چاہے عورت ہو یا مرد اس کے پھوہڑ پن کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔

باہر کا کام صرف مرد پر ڈالنے سے ہوتا یہ ہے کہ ہمارے ہاں مردوں کو زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے اور زیادہ تر دو تین نوکریاں کرتے ہیں تاکہ گھر کا خرچہ چلا سکیں۔ اب جب وہ وہاں سے تھکے ہارے گھر آتے ہیں تو آتے ہی بیویاں اب کے ذمے گھر کے سودا سلف کی خریداری وغیرہ کی ذمہ داری لگا دیتی ہیں۔ اب اگر مرد گھر سے باہر کے کاموں میں عورتوں کو شریک کریں تو ان کو خود بھی زیادہ مشقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments