کراچی ؛تجاوزات مافیا کی جنت


گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا پر ایک خبر مسلسل گردش کر رہی ہے وہ خبر ہے ایک ٹاور کی، جی رہائشی ٹاور کی جسے گرانے کا حکم عدالت نے دیا ہے۔ ٹاور جو کے قانون کے مطابق نہیں ہے کیونکہ ٹاور کا کچھ حصہ غیر قانونی زمین پر قبضہ کر کے بنایا گیا ہے۔ فیصلہ آنے کے بعد بہت سے لوگ اس فیصلے پر حیران ہیں کیونکہ اپارٹمنٹ میں درجنوں خاندان آباد ہیں جنھوں نے محنت کر کے کمائی گئی جمع پونجی گھر خریدنے کے لئے لگادی تھی اور اب اسے گرایا جا رہا ہے تو ان کی دل کٹ کر رہ گئے ہیں اور اب وہ اپنے سائبان سے محروم ہو گئے ہیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق بلڈر رہائشیوں کی تمام رقم واپس کرنے کا پابند ہو گا تاکہ فلیٹ خریدنے والے شہریوں کے نقصان کی بھرپائی ہو سکیں۔ نہ جانے اس حکم پر کب عمل ہو گا مگر تب تک یہ درجنوں خاندان در در خوار ہوتے رہیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گرایا جانے والا یہ پہلا ٹاور ہے کیونکہ یہ غیر قانونی زمین پر بنا ہے لیکن اس کے بعد ایک مسلسل سلسلہ ہے اس طرح کی غیر قانونی تعمیرات کا جو کراچی میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ کراچی میں بے شمار بلڈنگز غیر قانونی زمینوں پر ابھی بھی موجود ہوں گی جنھیں غیر قانونی طریقے سے تعمیر کیا ہو گا۔

کراچی سونے کی چڑیا کا نام نہیں کراچی سونے کے ہاتھی کا نام ہے۔ کراچی میں بے شمار کاروبار ہیں جو جھٹکوں میں کروڑوں روپے کو اربوں روپے میں بدل دیتے ہیں ان میں ایک کاروبار رئیل اسٹیٹ کا ہے جس میں بڑے بڑے بزنس مین کودے ہوئے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے پیسے کمائے جا رہے ہیں۔ لیکن ٹاور کھڑا کرنا، فلیٹ بنانا، اپارٹمنٹ بنانا اتنا سیدھا بھی نہیں ہے اس میں بہت سے اسٹیپ فالو کرنے ہوتے ہیں۔ یعنی یہ جو ٹاور گرایا جا رہا ہے اس کی تعمیر میں صرف بلڈر ہی ملوث نہیں بہت سے لوگ اور ادارے میں ملوث ہوں گے ۔

عام انسان ایک گھر بنانے کے لئے جب نقشہ بناتا ہے اور اس کو اپرووڈ کرانے جاتا ہے تو اس کو لگ پتا جاتا ہے کیونکہ نظام بہت پیچیدہ ہے اور سیدھے راستے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ایک اپارٹمنٹ کھڑے کرنے سے پہلے کئی قسم کی این او سی درکار ہوتی ہیں۔

جیسے ڈی سی فارورڈنگ، لینڈ ویری فکیشن فارورڈنگ، سوسائٹی آفس اپروول، واٹر این او سی، لے آؤٹ اپروول، سروے آف پاکستان اپروول، ٹاؤن پلاننگ اپروول، اسٹرکچرل این او سی اپروول اور اسی قسم کی کئی اور این او سیز درکار ہوتی ہیں اور اس کے بعد تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ایک ٹاور یا بلڈنگ کو کھڑے ہونے میں مہینوں، سالوں لگتے ہیں۔ پھر اس میں لوگ آ کر آباد ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کے جب یہ ٹاور تعمیر ہو رہا تھا تو اس وقت متعلقہ اداروں نے آنکھیں کیوں بند کی ہوئی تھی؟ فائنل این او سی بھی مل گیا اور سیل اور ایڈورٹائزمنٹ این او سی بھی مل گیا اور پھر فلیٹ بیچ بھی دیے گئے۔

عام صارف کو جو چند چیزیں معلوم ہیں وہ تو اس نے چیک کرائی ہوں گی اور پھر فلیٹ خرید لیا ہو گا۔ عام صارف کا تو کوئی قصور نہیں لیکن متعلقہ اداروں اور افسران کا تو قصور ضرور ہے۔ آخر گورنمنٹ کی زمین پر کیسے قبضہ ہو گیا اور کئی مہینوں تک متعلقہ اداروں کو یہ خبر ہی نہ ہوئی کہ حکومت کی زمین پر قبضہ ہو گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے اور حیرانی کی بھی، مگر کراچی کے معاملے میں یہ بہت عام سی بات ہے۔

یہ جو فیصلہ ہے شاید بہت سے لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہو گا۔ مگر لاقانونیت کے سائے میں چلتے اس شہر میں کبھی تو قانون پر عمل درآمد کرنے کا آغاز ہو گا اور شاید یہ ہی آغاز ہے۔ کراچی کو تجاوزات سے پاک کرنا ہے تو بڑے فیصلے لینے ہوں گے اور بڑی مچھلیوں کو بے نقاب بھی کرنا ہو گا۔ غیر قانونی بلڈنگز اور تجاوزات کے خلاف جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہر صورت جاری رہنا چاہیے تاکہ بے ہنگم کراچی کی نوک پلک سنور اری جاسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جن اداروں اور حکومت کی غفلت کی وجہ سے شہریوں کا جو مالی نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی بھی کرنی ہوگی تاکہ عوام بھی اس طرح کے فیصلوں کو دل سے قبول کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments