سکردو اندھیروں میں۔ کوئی تو خبر لے صاحب


جہاں مہنگائی کے شدید جھکھڑ چل رہے ہیں اور عوام زندگی کی سانسیں برقرار رکھنے کے لئے جاں بلب ہے وہیں پر واپڈا اور پی ڈبلیو ڈی کی مہربانی سے سکردو شہر اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ سردیوں کا ابھی آغاز ہے اور نومبر کے مہینے سے بجلی عنقا ہوتی چلی جا رہی ہے اور سب لوگ پریشان حال ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے رسد و طلب کے بے رحم پنجوں کے بیچوں بیچ عوام کی گردن پھنسی ہوئی ہے اور نہ نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن کی کیفیت کا سامنا ہے۔ بجلی کی پیداوار میں کمی ہے، منیجمنٹ کا ایشو ہے یا کہ چائنا کے بے کار آخری درجے کی ہائیڈرو ٹربائن مشینیں کہانی جو بھی ہو سکردو شہر اندھیرے میں ہے۔ اوپر سے واپڈا اور پی ڈبلیو ڈی کی محکمہ جاتی کشمکش کہ کوئی ذمہ واری اٹھانے کو بھی تیار نہیں ملبہ ایک دوسرے پر پھینکا جا رہا ہے۔

ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ہر سال کئی میٹنگیں بلائی جاتی ہیں مگر وہ بھی نشستن و برخاستن ہی ثابت ہوئیں اور کوئی موثر حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔

ویسے بھی ہمارے ملک میں ایڈہاک بنیادوں پر کام چلانے کا رواج ہے کوئی مسئلہ سامنے آئے تو وقتی اور جزوی تدارک پھر یہ جا وہ جا جب تک کہ وہ مسئلہ پھر شدت سے سر نہ اٹھائے۔ گورننس کا فقدان اس قدر کہ کوئی پوچھ گچھ نہیں کوئی سزا جزا کا قاعدہ قانون نہیں بس ہر طرف اودھم مچی ہوئی ہے۔

ذکر بجلی سے محروم سکردو شہر کا تھا جس کا کوئی والی وارث نہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب سدپارہ ڈیم کا کام شروع ہوا تو بڑی بڑی درفنطنیاں چھوڑی گئی کہ اب سکردو کے وارے نیارے ہوں گے، ہر طرف بجلی ہوگی، کارخانہ چلیں گے اور سکردو روشنیوں کا شہر کہلائے گا۔ مگر وائے رے قسمت شہر اسی طرح اندھیروں میں گم ہے اور کارخانے تو دور کی بات چھوٹے چھوٹے پیشہ ور افراد جس میں درزی، ترکھان، ویلڈر، مستری، الیکٹریشن، خراد، آٹا چکی، موبائل ریپیئرنگ سمیت دیگر کئی شعبوں کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے وجہ بجلی نہیں تو کام کیسے آگے بڑھ پائے گا اور آمدنی کس طرح ہوگی۔

سدپارہ ڈیم کا سب سے اہم اور بنیادی حصہ شتونگ نالے سے پانی کا لانا تھا تاکہ گرمیوں اور سردیوں میں پانی کا لیول برقرار رہے یوں ایریگیشن اور بجلی کے مسائل پیدا نہ ہو مگر شومئی قسمت دیکھئے کہ یہ اہم حصہ غائب ہوا اور ڈیم اس وقت ایک بڑا تالاب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ پھر کہا گیا کہ اس ڈیم کے پانی سے 17 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور شہر روشن روشن ہو گا مگر ملی بھگت ہے یا ٹیکنیکل نا اہلی کہ چائنہ کی ایسی ہائیڈرو ٹربائن اور دیگر ذیلی مشینیں لا کر نصب کر دی گئی ہیں کہ وہ ہر ماہ کھانس کھانس کر خاموش ہو جاتی ہیں اور مرمت کے نام پر کسی نہ کسی کا لذت کام و دہن چل رہا ہے۔

ایک بڑی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ سکردو میں آبادی کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اس لئے بجلی کم ہے۔ جناب یہ بات تو درست کہ اطراف و اکناف سے لوگ ترک مکانی کر کے سکردو آرہے ہیں لیکن یہ کوئی اچانک نہیں بلکہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے تو کیا اس حساب سے کوئی پلاننگ ہوئی ہے یا کی جا رہی ہے؟ کیوں کہ یہ عمل تو جاری رہے گا وہ اس لئے کہ یہ گلوبل مظہر ہے کہ بہتر مواقع اور روزگار کی تلاش میں لوگ بڑے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ صاحبان اقتدار نے ہر حکومتی دور میں کیا اس بڑھتی آبادی کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی جمع تفریق کیا ہے؟ اور وسائل کو ایسی حساب سے مختص کیا؟ نہیں، بس وہی ایڈہاک ازم اور وقتی ہلہ گلہ۔

پچھلی حکومت کے آخری سالوں میں بجلی کے اسی بحران سے نکلنے کے لئے جنریٹر خریدے گئے اور بڑی ہا ہا کار مچائی گی کہ سب کچھ حل ہو گیا مگر نہ ڈیزل اور نہ وہ جنریٹرز چل رہے ہیں شاید سکریپ میں ہوں، وہی ویرانی ہے جو شہر کے باسیوں کی قسمت میں لکھی گئی ہے۔

ادھر کئی سالوں سے مژدہ سنایا جا رہا ہے کہ غواڑی، شغرتھنگ، بشو اور روندو میں بڑے بڑے بجلی گھر بنائے جا رہے ہیں مگر فزیبلٹی اور ٹیکنیکل سروے چل رہے ہیں اور وہ بھی بار بار، کیا خواب و خیال سے کچھ باہر نکل بھی آئے گا؟ یہ زمان و مکاں سے بھی زیادہ مشکل اور پیچیدہ سوال ہے۔

واپڈا کے اپنے سروے اور بین الاقوامی اداروں کے مستند اعداد و شمار کے مطابق گلگت بلتستان میں 50 ہزار میگاواٹ ہائیڈرو بجلی پیدا کرنے کے مواقع موجود ہیں جو پورے پاکستان کی انرجی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔ واپڈا کی ”ویژن 2025“ کے مطابق نصف سے زیادہ سائٹس بلتستان میں ہیں جہاں سے وافر مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے

مگر یہاں تو عام صارف کے گھر کے دو سادہ بلب روشن نہیں ہو رہے ہیں بڑے بڑے معاشی منصوبوں کا تذکرہ تو بس خام خیالی ہی ہوگی۔

بقول منیر نیازی کے
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments