گورنمنٹ کالج، لاہور میں اک عشائیے پہ کی گئی تقریر


سب سے پہلے اپنے ہم جماعت و ہم سبق طلباء، جن کا شیرازہ اب بکھرا چاہتا ہے، کا شکریہ ادا کرنا چاہوں جنہوں نے اس خاک بسر کو شعبۂ معاشیات کے سالانہ عشائیے پر شہنشاہ ہند، اکبر اعظم کے علم کدے سے بڑھ کر سماعت گاہ میں آپ سب سے گویا ہونے کا موقعہ دیا۔ بالخصوص رضوان، افضال، عبدالقدیر اور انوشہ جنہوں نے لب کشائی کے لیے ہمت بندھائی ورنہ من آنم کے من دانم۔ آپ سب فاضل حضرات کی پر خلوص و پر بہار صحبت میں، یہ کم مایہ، شمس کے اس شعر کے مصداق ہے، جس میں انھوں نے اپنے شہر، تبریز اور اپنی بے باکانہ شخصیت کا نہایت پر اثر انداز سے نقشہ کھینچا ہے :

آنجا کسانی بودہ اند
کہ من کم ترین ایشانم
(اس شہر، شہر بے مثال، میں ایسے ایسے لوگ تھے کہ میں سب سے حقیر ہوں )

اے جزیرۂ سخنوراں کے مکینوں! چار سال اس قدر جلدی سے بیت گئے کہ ان کے گزرنے، دبے پاؤں چلنے کا گمان تک نہ ہوا۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے ہم وہاں آپ کی ہمسائیگی میں براجمان تھے اور اب رخصت کے لیے آپ سے مخاطب ہیں۔ ان چار سالوں میں ہم کج مج پگڈنڈیوں اور آڑی ترچھی شاہراہوں سے گزرے، مختلف النوع کڑوے کسیلے تجربات اکتساب کیے اب، یہ سب خوبصورت یادوں کا گنجینہ ہیں جس کو آپ سب فاضل حضرات کے سامنے کھرچنے کی اک نحیف و نزار سی کوشش کر رہا ہوں۔

صاحبو! اگر آج انوری ہوتے تو وہ بھی شاید ہی گورنمنٹ کالج کی شان میں قصائد لکھ سکتے۔ فردوسی باید ہی گورنمنٹ کالج کے پر سحر، فسوں خیز، جلال و عظمت سے معمور شاندار ماضی کو شاہنامے میں مقید کر سکتے اور سعدی کے لیے موجودہ آشوب و زبوں حالی کا نقشہ اپنی غزل میں کھینچنا نہایت دشوار ہوتا۔ لیکن اتنی خستگی کے باوجود یہ اب تک سحر کار، طلسم آگیں اور پر شکوہ ہے۔ کیوں کہ اس میں علم و ادب کے منبر و محراب اب تک قائم ہیں البتہ چیتھڑوں کی بھی کچھ کمی نہیں۔

اداروں کی حقیقی رونق اذہان پر موقوف ہوتی ہے۔ گورنمنٹ کالج کی پہچان یہ سنگ و خشت نہیں بلکہ اعلی اذہان تھے جن کی بدولت اس کی ہماہمی قائم تھی جس کے آثار اب تک باقی ہیں، جن کے فیض کا مینھ اب تک برس رہا ہے۔ جب یہاں گزرے ہوئے لمحات کی جانب نظر دوڑتی ہے تو دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے کے یکبارگی سب کچھ ہم سے جدا ہو رہا ہے۔ کتنے حسین پل اوول گراؤنڈ میں گزرے، قدرت کو پھولوں میں، ان کے دل فریب رنگوں میں سجدہ ریز پایا، سورج کی پہلی کرن کو شبنم کے قطرات پیتے دیکھا، اور اسی نیر کو تاریکی کے میں ڈوب جاتے دیکھا۔

دار المطالعہ میں موجود اپنے اسلاف کی نقرئی داستانوں کو پڑھا۔ ان کی کتب کی جمع آوری کو حسرت و یاس سے دیکھا، ان پہ ہاتھ صاف کرنے اور گھول کر پی جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگراس کار خیر میں نیم کامیاب ٹھہرے۔ ایسے ایسے جلیل القدر اساتذہ کے سایۂ عاطفت میں جگہ ملی کہ ہم بتانے سے عاجز ہیں۔ ڈاکٹر عذیر احسن کے بے پناہ علم اور غایت درجہ متاثر کر دینے والی قابلیت نے ہمیشہ حیرت کے ورطے میں مبتلا رکھا، معمولات جہانبانی میں آپ کو ہمیشہ سچائی اور عزم و حوصلہ کی مورت پایا، ڈاکٹر جمشید الرحمان کی فرض شناسی و بذلہ سنجی کا جوہر، ڈاکٹر عقیل امتیاز واہگہ کی بلند ہمتی و الوالعزمی، امتیاز احمد صاحب اور ڈاکٹر صائمہ سرور کی شفقت و مودت نے ہمیشہ تھپ تھپایا۔

ڈاکٹر بابر عزیز کی عطا پاش اور شکستہ پرور شخصیت کو کوزے میں بند کرنا یونانی دیوتا سسی فس کی سرگرمی سے زیادہ مشکل ہے۔ آپ جہاں بھی ہوتے ہیں اپنے اردگرد محبت کے خیموں کی بستی آباد کر لیتے ہیں۔ ہمیں آپ کے علمی کمالات سے واسطہ نہیں کیوں کہ آپ براہ راست کبھی بھی ہمارے استاد نہ رہے مگر شخصی معاملات میں استاد اعظم ثابت ہوئے۔ آپ حقیقی زندگی میں اتنے میٹھے ہیں کہ شہد کی مٹھاس بھی آپ کی گرد پا کو نہیں پہنچ سکتی، اور ساتھ ہی ساتھ چٹکلوں کی پھلجھڑی بھی۔

ہر مقام، ہر اڑچن میں آپ کو طلباء پہ سایہ فگن پایا۔ ہمیں تو آپ میں مغل بادشاہ، بابر کی چھوی نظر آتی ہے وہی چھوی جس کو گلبدن بیگم نے ہمایوں نامہ میں قلم بند کیا ہے۔ مکرمی و معظمی وائس چانسلر صاحب کے بارے میں بیان کرنے سے یہ نطق و زبان عاجز ہیں۔ آپ اک ہشت پہلو نگینہ ہیں۔ ان مرقومہ بالا سطور کی بنا پہ یہ ہرگز مت سمجھ لیا جائے کہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ ان چار سالوں، بالخصوص وبا کے دنوں میں جہاں اساتذہ کی محبت ملی وہیں کچھ اساتذہ کی خشمگیں نگاہوں، انگارے اگلتے دہانوں، مارشل لائی رویے سے بھی دوچار ہونا پڑا۔

احقر کو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس دوران طلباء نے ننگی تلواروں پہ رقص کیا۔ قہر و استبدادیت تو شاید ہمارے تعلیمی نظام کی جڑوں میں نفوذ کر چکے ہے اور بد معاملگی چند اساتذہ کے گھر کی لونڈی بنتی جا رہی ہے۔ ان مریضانہ روایات سے خلاصی ازحد ضروری ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان دنوں میں طلباء کا کوئی بھی پرسان حال نہ تھا۔

کچھ توضیح کے ساتھ بقول فراق گورکھپوری:
اس دور میں زندگی بشر کی بیمار کی رات ہو گئی تھی

درحقیقت طلباء کا پرسان حال تو اب بھی کوئی نہیں۔ تعلیمی اسناد کے حصول کے لیے ایگزیمینیشن والے ناک سے لکیریں تو نکلواتے ہی ہیں مگر رذالت، بد تہذیبی، ڈانٹ اور کبر و نخوت کی امرتیاں مفت میں بانٹتے ہیں۔ مکرمی و محبی وائس چانسلر صاحب! ایگزیمینیشن برانچ کے نچلے طبقے کے ناروا رویے کی وجہ سے عزت نفس چور چور اور سینہ داغ داغ ہے مگر یہ وقت دل کے پھپھولے پھوڑنے کا نہیں بلکہ مسرت و انبساط کا ہے! رنگ میں بھنگ ڈالنے کے ہم روادار نہیں۔

صاحبو! یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس نے چلمی کی وہی علمی ہوا۔ اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے ہی سے ایک بندہ راہ علم کی منازل طے کر پاتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں نہ تو کوئی تامل ہے نہ ہی شرمندگی کہ میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر بابر نسیم آسی، ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی، صدیق اعوان صاحب، ڈاکٹر عرفان وحید عثمانی، ڈاکٹر طاہر کامران، اور ڈاکٹر حسین احمد صاحب کا خوشہ چین رہا ہوں، یہ ان کی جوتیاں سیدھی کرنے ہی کا فیضان ہے کہ میں آج آپ سب سے مخاطب ہوں اور یہی حقیقت میں گورنمنٹ کالج کا حسن ہیں۔

یہی گورنمنٹ کالج کے رتن ہیں۔ لیکن! دل غم سے نڈھال ہو جاتا ہے جب ہمارے رفقاء اس خدمت اقدس کو لابہ گری یا کفش برداری سمجھ بیٹھتے ہیں۔ امیر خسرو اپنے مرشد پر مانند پروانہ قربان ہوئے جاتے تھے، فیضی اور اکبر میں دانت کاٹی روٹی تھی تو کیا یہ لابہ گری تھی؟ ادب و احترام ہر گز کفش برداری نہیں ہوتی۔ الزامات اور ہر چیز میں فی ہمیشہ ناتواں اور ضعیف لوگ ہی نکالتے ہیں۔

پیارے دوستو! ہمیں ان طلباء سے ڈر آتا ہے جن کے منہ سے ابھی دودھ کی بو آ رہی ہوتی ہے اور وہ ارسطو زماں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بقراط، جالینوس اور ابن خلدون ہونے کے لیے ہڈیاں گھلانا پڑتی ہیں۔ ہمارے قریب اک طالب علم کا جوہر اس کا قلم ہے۔ اک طالب علم کے قلم کی زبان جتنی شستہ و رواں ہو گی وہ اتنا ہی میدان دار ہو گا۔ علامہ اقبال، پطرس بخاری، ڈاکٹر محمد صادق، مظفر علی سید اور الطاف گوہر سب ایسے ہی تو تھے، قلم کے دھنی، کتاب کے جویا۔ اس کے لیے کتاب کا دامن مضبوطی سے تھامنا لازم ہے۔ اک طالب علم کو زیدون کے شعر کے مرادف عنبر ہونا چاہیے جو خود جلتا ہے مگر ہر طرف خوشبودار دھواں اڑاتا ہے۔

جاتے جاتے اک اور امر کی جانب طائرانہ سی نگاہ ڈالنا چاہوں گا وہ یہ کہ ہمیں ان اساتذہ اور طلباء سے، ان چار سالوں میں ہمیشہ کوفت محسوس ہوئی جنہوں نے گڑھ سے بھی میٹھی، ہماری، ہم سب کی زبان، زبان اردو سے رکھائی برتی۔ یہی وہ زبان ہے جس کی دھوم کی آہٹ داغ دہلوی کو سارے جہاں میں سنائی دی تو دوسری طرف حالی نے اس کے شہد و شکر سے شیریں ہونے کا علم لہرایا۔ پیارو! یہی وہ زبان ہے جو فراق کی گھٹی میں پڑی تھی، اسی سے گلزار عشق کر بیٹھے تھے اور مصحفی بے ساختہ پکار اٹھے تھے :

”کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہی۔“

یہ تو ہم سب کا سرمایۂ افتخار ہے مگر ہمارے کچھ کرم فرما کڈھب سے بیانات داغ کر اس کے بال و پر کھینچنے کی کچھ یوں کوشش کرتے ہیں کہ یہ درباری زبان ہے، یہ مشکل ہے، یہ مغلوں کی نشانی ہے، یہ کولونئیلز کی زبان ہے، یہ زبان غیر ہے۔ ان سے بس یہی استدعا ہے کہ فرصت کے لمحات جب بھی میسر آئیں تو اس کی تاریخ پہ نظر ڈال لیں تا کہ ان کے کج خیالات کی چولیں درست ہو سکیں۔ رہی بات اس علمی غلطی کی کہ اس میں تحقیق و تعمق نہیں ہو سکتی تو وہ کبھی جامعہ عثمانیہ کے مسودات، مطبوعات، مخطوطات، مبیضات، علی عباس جلال پوری، شبلی نعمانی، ظفر علی خان اور بے پناہ اکابرین علم کے کام پہ نظر ڈال لیں۔

آج ہر بڑا مورخ ان ماخذات سے استفادہ کرتا ہے اور جا بہ جا ان کے حوالے دیتا ہے۔ اے کاش! ہمارے یہاں بھی بی۔ ایس، ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کے تحریری و تحقیقی مقالہ جات اردو میں سپرد قلم ہونا شروع ہوں۔ البتہ کہنا یہ مقصود تھا کہ وبس ہمیں اپنی زبان سے محبت کرنی ہے اور اساتذہ کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ طلباء کے سامنے زبان سے نفرت کا اظہار کریں۔ معزز سامعین و حاضرین! کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے، تقریر کی تشنگی کا احساس ہمیں بھی ہے مگر وقت کی تنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس سے پہلے کہ آپ اہل علم حضرات کے صبر کا پیمانہ بری طرح چھلکے اس سے پہلے اس محفل کو الوداع کہنا چاہیں گے۔

چلو اب الوداع کہتے ہیں تم کو

عمل یہ ہے اگرچہ جاں گزیدہ

اللہ تعالی ہمیں اس درس گاہ کی علمی ترقی اور حقیقی قد کاٹھ میں اضافہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس عظیم درس گاہ کو فوٹوگرافی کی دکان بننے سے محفوظ و مامون رکھے، آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments