خصوصی لڑکیوں کو میک اپ انڈسٹری کی طرف لانا چاہتی ہوں


صائمہ کا تعلق لاہور سے ہے۔ سپائنل انجری کا شکار ہیں۔ میک اپ آرٹسٹ ہیں۔ دبئی میں طویل عرصہ بطور فری لانس میک اپ آرٹسٹ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ صائمہ کا شمار دبئی کے بہترین میک اپ آرٹسٹ کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔ یو۔ اے ای میں کرائے لون  نے میک اپ کا انٹرنیشنل مقابلہ منعقد کروایا۔ دس بہترین آرٹسٹس میں صائمہ کا نام نمایاں تھا۔ صائمہ مارکیٹنگ کے شعبے میں خاصی مہارت رکھتی ہیں۔ مختلف ملٹینیشنل کمپنیوں میں مارکٹینگ کے اہم ترین عہدوں پر فرائض سر انجام دے چکی ہیں۔

والد صاحب کی وفات صائمہ کے بچپن میں ہوئی۔ والدہ صاحبہ خاتون خانہ ہیں۔ چار بھائی بہنوں میں صائمہ سب سے چھوٹی ہیں۔ صائمہ کی تین بیٹیاں ہیں۔ خاوند امارات ایئرلائن میں کیبن کریو کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

صائمہ کی پیدائش لاہور میں ہوئی۔ لاہور کے مقامی سکول سے تعلیم حاصل کی۔ فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کر کے نام بنانا چاہتی تھیں یا پھر ائیرہوسٹس بننا چاہتی تھیں۔ 1995 ء میں صائمہ انٹر کے امتحانات سے فارغ ہوئیں تو گاڑی کے ایک خوفناک حادثے کے نتیجے میں سپائنل انجری کا شکار ہو گئیں۔ حادثے کی نتیجے میں جان تو بچ گئی لیکن صائمہ کے دھڑ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ سپائنل انجری سے ناواقفیت کی وجہ سے ابتدا میں صائمہ سمجھ رہیں تھیں کہ شاید کچھ عرصہ بعد چلنے پھرنے کے قابل ہو سکیں گیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پتہ چلا کہ حرام مغز کی چوٹ کا اب تک کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہوا اور اب صائمہ نے ساری زندگی ویل چیئر پر ہی گزارنی ہے۔

حادثے کے بعد زندگی میں بڑی تبدیلی آ چکی تھی۔ اب صائمہ چل نہیں سکتی تھیں۔ رسائی کے فقدان کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ اس موقع پر گھر والے، کزنز اور بچپن کے ایک دوست نے بھر پور ساتھ دیا۔ بچپن کے اسی دوست سے بعد میں صائمہ کی شادی بھی ہوئی۔ صائمہ اور ان کے شوہر کا بچپن اکٹھے گزرا۔ ایک ہی سکول سے میٹرک کیا۔ حادثے کے بعد انہی کی موٹیویشن نے صائمہ کو زندگی کی دوڑ میں واپس آنے میں مدد فراہم کی۔ صائمہ آہستہ آہستہ زندگی کی دوڑ میں واپس آنا شروع ہو گئیں اور انھیں سب کچھ نارمل لگنے لگا۔

صائمہ کے شوہر عام مردوں سے خاصے مختلف ہیں۔ حادثے کے بعد انھیں صائمہ مزید پر اعتماد لگنے لگی۔ صائمہ کی شخصیت سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنے گھر والوں سے رشتے کی بات کی۔ دو سال بعد دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ شادی کے سال بعد اللہ نے بیٹی کی نعمت سے نوازا۔ کچھ عرصہ بعد صائمہ کے شوہر کو دبئی میں نوکری مل گئی۔ جس کی وجہ سے صائمہ کو دبئی منتقل ہونا پڑا۔

پاکستان میں صائمہ کو گھر والوں کا بھر پور تعاون حاصل تھا۔ لیکن دبئی کی زندگی کافی مختلف تھی۔ یہاں سب کچھ خود ہی کرنا تھا۔ ابتداء میں صائمہ کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن رسائی کی بہترین سہولیات کی وجہ سے سارے کام آسانی سے کرنے لگیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک کمپنی نے خصوصی افراد کو ڈرائیونگ کورس کروانا شروع کیا۔ صائمہ بھی اس کورس کا حصہ بن گئیں۔ پھر ایک ادارے سے کمپیوٹر کورس کیے۔ اس کے فوری بعد ”سٹار ور ہوٹل اینڈ ریزارٹ“ نے خصوصی افراد کو نوکریاں دینا شروع کیں تو صائمہ اس کا حصہ بن گئیں۔ تین سال خوب دلجمعی سے کام کیا۔

صائمہ نے 2007 ء میں نوکری شروع کی۔ 2010 ء میں مستقل بنیاد پر پاکستان شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔ نوکری چھوڑ دی۔ پاکستان آنے کی تمام تیاریاں مکمل تھیں پھر چند وجوہات کی بناء پر ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔ آرٹ اور فیشن سے بچپن سے لگاؤ تھا۔ نوکری چھوڑنے کے بعد میک اپ کے کورسز کرنا شروع کر دیے اور مختصر سے عرصے میں فری لانس میک اپ آرٹسٹ کے طور پر اپنا لوہا منوانا شروع کر دیا۔

نوکری کے دوران ہی صائمہ کو ایسے ادارے نظر آئے جو میک اپ کے پروفیشنل کورسز کروا رہے تھے۔ آرٹ اور فیشن سے لگاؤ صائمہ کو ان انسٹیٹیوٹس تک کھینچتا ہوا لے گیا۔ پھر آہستہ آہستہ صائمہ نے میک اپ کی دنیا میں قدم رکھا اور فری لانس میک اپ آرٹسٹ کے طور پر جانی جانے لگیں۔ صائمہ کو میک اپ کے کام میں اتنی عزت ملی کہ انھوں نے میک اپ کے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ خدا نے وہ دن بھی دکھایا جب صائمہ نے کرائے لون کے چیف ایگزیکٹو سے بہترین میک اپ آرٹسٹ کا انعام حاصل کیا۔

2013 ء میں صائمہ بچوں سمیت پاکستان آ گئیں۔ صائمہ نے پاکستان کے ماحول سے مطابقت کی بھر پور کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی۔ ڈیڑھ سال پاکستان میں رہنے کے بعد خاندان دوبارہ دبئی چلا گیا۔ پھر دبئی میں مزید چار سال گزارے اس عرصے میں بچیاں سمجھدار ہو گئیں۔ 2017 ء میں صائمہ نے مستقل بنیاد پر پاکستان شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔

صائمہ نے ابھی بڑے پیمانے پر کام شروع نہیں کیا۔ اپنے گھر میں ہی چھوٹا سا سیٹ اپ بنایا ہے۔ مشہور میک اپ آرٹسٹ ہونے کی وجہ سے انھیں مختلف چینلز پر میک اپ آرٹسٹ کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے جہاں صائمہ میک اپ کے حوالے سے ٹپس دیتی رہتی ہیں۔

وطن عزیز واپسی پر صائمہ سوچ رہیں تھیں کہ پاکستان جا کر ایک بڑا سا قابل رسائی سیلون بنائیں گیں۔ ویل چیئر پر بیٹھی لڑکیوں کو میک اپ انڈسٹری کی طرف لے کر آئیں گیں۔ اپنے سیلون کی برانچیں ملک کے مختلف شہروں میں کھولیں گیں۔ جہاں میک اپ کے ساتھ خصوصی لڑکیوں کو میک اپ انڈسٹری کی طرف لائیں گیں لیکن وطن عزیز واپسی کے بعد پتہ چلا کہ یہاں ابھی تک خصوصی افراد کے حقوق کو انسانی حقوق تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ یہاں سکول، کالجز، بلڈنگز، شاپنگ سینٹرز، ٹرانسپورٹ سے لے کر ہسپتالوں تک میں رسائی کے انتظامات نہیں ہیں۔ صائمہ کہتی ہیں کہ ہمارے ملک میں خصوصی افراد کے حقوق کو جب تک انسانی حقوق تسلیم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک خصوصی افراد میں اعتماد بحال نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی وہ معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments