مہنگائی کے بم


اس وقت جب عوام کرونا کے پے در پے حملوں سے بمشکل سنبھلی تھی عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں کے اضافے کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ کرکٹ کے جنون میں مبتلا قوم اس صدمے سے اس وقت باہر نکل آئی جب بابر اعظم کی ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی کپ میں اپنے دیرینہ حریف بھارت کو دس وکٹوں سے ہرا کر پچھلی کئی شکستوں کا بدلہ لیا تھا اس کے بعد ٹیم نے سیمی فائنل کے لئے بھی کوالیفائی کر لیا تھا۔ خوشیوں اور جشن کے دوران ہی کسی ناعاقبت اور مردم بیزار مشیر نے نجانے وزیراعظم کے کان مین کیا ڈالا وہ قوم سے خطاب پر تل گئے۔

پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی پیکج کا ڈھنڈورا پیٹا گیا مگر عوام اب ان مشیروں کی باتیں سننے سے عاجز آ چکی تھی اور ان کے دعوؤں پر یقین کرنے کو کوئی تیار نہیں تھی۔ ادھر قوم فتح کی خوشی میں سرشار تھی اور پھر وزیراعظم نے ایک مبہم سے پیکج پیش کرنے کے بعد بڑے واشگاف انداز میں کہا کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی اور ساتھ قوم کو یہ بتانا بھی نہیں بھولے کہ بھارت بنگلہ دیش بھوٹان اور پتہ نہیں کون کون سے ملکوں میں تیل بہت مہنگا ہے اور ابھی بھی آپ لوگ سستا تیل رہے ہو اور اس کا مطلب قوم کو فوراً سمجھ آ گئی اور پھر وہی ہوا کچھ دن بعد ہی ایک ماہ میں دوسرا پیٹرول بم رات کے اندھیرے میں چلایا گیا اس کے لئے دس دن انتظار نہیں کیا گیا کیونکہ تیل کی قیمتوں میں عموماً رد و بدل ہر پندرہ دن بعد ہوتا ہے بلکہ کچھ دن سے تیل کی عالمی قیمتیں کم ہوئی تھیں تو یہ انتظار کرنا چاہیے تھا مشیر ایک بار پھر بازی لے گئے اور عوام ورلڈ کپ کی فتوحات کے نشہ سے یک دم باہر آ گئی اور گلیوں بازاروں اور سوشل میڈیا کے فورمز پر تحریک انصاف کے خلاف غصہ نکالتی نظر آئی۔

فیس بک اور سوشل میڈیا کے ڈائی ہارڈ سپورٹرز بھی کنفیوز نظر آتے ہیں اگر کوئی مہنگائی کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو کافی بے آبرو ہونا پڑتا ہے۔ اپوزیشن کی مخالفت کی اس وقت ضرورت ہی نہیں حکومت کو خطرہ اپنے مشیروں سے ہے اور اپنے لیڈروں سے ہے۔ مہنگائی پر اس دفعہ آنے والا ردعمل ایک تو اس وجہ سے شدید معاندانہ ہے کہ سفید پوش، شہری اور تنخواہ دار طبقہ حقیقت میں بری طرح متاثر ہو رہا ہے لوگوں کے کیے گھر کا نظام چلانا مشکل ہو رہا ہے۔

پھر پچھلے کچھ دن میں ہونے والے بڑے بڑے واقعات نے حکومت کی کریڈیبلٹی اور رعب داب کو پاش پاش کر دیا ہے۔ تحریک لبیک کے دھرنے کی ہینڈلنگ نے حکومتی نالائقیوں اور وزیروں مشیروں کی نا اہلیوں کو کھول کر رکھ دیا ہے حکومتی رٹ کو ناقابل تصور نقصان پہنچایا گیا۔ ڈنڈوں اور جدید اسلحہ سے لیس غیر ریاستی عناصر ریاست کے ساتھ ٹکرا گئے پولیس کو بھاگنے پر مجبور کیا اور پھر حکومت کو ان کے تشدد اور ریاستی اہلکاروں کے قتل و غارت سے صرف نظر کرنا پڑا۔

اسی طرح پچھلے تین سال سے کرپشن کے خلاف جنگ کے نعرے لگا لگا کر بالآخر خود ہی نیب کے دانت نکال دیے گئے۔ یوں اپنی جیت کا ایک بڑا جواز کھو دیا گیا۔ اس طرح آئی ایس آئی چیف کے معاملے کو جس طرح ہینڈل کیا گیا سول ملٹری کے ایک صفحے پر ہونے والے بیانیہ کو بھی زک پہنچی اور پی ٹی آئی کے دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اگلے پانچ سال بھی اقتدار میں رہنے کی جو باتیں نجی محفلوں میں کی جاتی تھیں اب ان میں بھی وہ اثر نہیں رہا۔

ان حالات میں تیل مہنگا ہونے کو یہ کہہ کر کہ پچھلی حکومتوں کی وجہ سے ہوا ہے یا بھوٹان میں زیادہ مہنگا ہے اس لئے آپ کو یہ مہنگا نہیں لگنا چاہیے یا یہ کہنا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے بیرون ملک پاکستانیوں کو بڑا فائدہ پہنچایا گیا ہی یہ باتیں لوگوں کو اب نہ صرف فضول لگنا شروع ہو گئی ہیں بلکہ یہ اب ظالمانہ لگتی ہیں۔ اب تو یہ انتظار ہے کہ کب ایک مشیر یا ترجمان یہ کہہ ڈالے گا کہ روٹی مہنگی ہے تو بسکٹ کھا لیں۔

کسی بھی ملک میں تیل کی قیمت کا موازنہ دوسرے ملک سے نہیں کیا جا سکتا اس کے لئے مختلف مربوط عوامل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہم کسی خاص ملک میں تیل مہنگا ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت میں زراعت پر بہت زیادہ فوکس کیا جاتا ہے اور کسانوں کو سبسڈیز دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں سستی ہیں۔ زراعت کے لئے استعمال کی جانے والی بجلی وہاں پر ریاست بہار میں دو روپے فی یونٹ ہے پاکستان میں کسان کو گیارہ روپے یونٹ ملتی ہے بھارت میں یوریا کھاد کی قیمت ڈھائی سو کے قریب ہے پاکستان میں بائیس سو روپے ہے بھارت میں ڈی اے پی کھاد کی قیمت پندرہ سو روپے ہے پاکستان میں اس وقت ڈی اے پی سات ہزار کی ہے۔

جب پاکستانی کسان اتنی مہنگی ان پٹس استعمال کرے گا ایک تو اس کو منافع نہیں ملے گا اور دوسرے ان زرعی اجناس سے بننے والی کھانے پینے کی اشیا مثلاً چینی، آٹا، دالیں، کھانے کا تیل اور گھی، مٹھائیاں، سبزیاں اور پھل بھی مہنگے ہوں گے اس طرح زراعت سے پیوستہ لائیو سٹاک کے لئے چارہ اور فیڈز مہنگا ہونے کی وجہ سے انڈے، گوشت، دودھ، اور دہی بھی مہنگے ہو جاتے ہیں اور شہروں میں رہنے والا تنخواہ دار طبقہ پس جاتا ہے۔ ہمارے حکومتی افلاطونوں کو ان چیزوں پر بھی اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments