دینی مدارس اور میرا پی ایچ ڈی دوست


ہمارے ایک دوست ہیں۔ پی ایچ ڈی ڈاکٹر، درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ اور انتہائی قابل۔ اتنے قابل کہ پی ایچ ڈی کے بعد دو دو بدیسی یونیورسٹیوں سے پوسٹ ڈاکٹریٹ بھی کرچکے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی سے لے کر اعلی اور اعلی سے لے کر اعلی ترین تعلیم جدید اداروں سے حاصل کی اور اب لگ بھگ ڈیڑھ دہائی سے ملک کی نامور یونیورسٹیوں سے منسلک ہیں۔ دین سے گہرا لگاؤ ہے لہذا لبرلز خاص طور پر دیسی لبرلز کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کے ساتھ ساتھ دینی مدارس میں اصلاحات کے بھی شدید مخالف ہیں۔

مخالفت کی دو وجوہات بتاتے ہیں۔ پہلی یہ کہ دینی مدارس کے نصاب میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کا مطالبہ دراصل دین کے خلاف گہری سازش ہے اور دوسری یہ کہ مذہب کا ٹھوس اور گہرا علم نہ رکھنے والے طبقے کو ایسا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

پرانی اور بے تکلف دوستی کے باعث ان سے بحث مباحثہ بھی ہوجاتا ہے۔ ایک روز جب دوستوں کی محفل میں انہیں دلیل پیش کی کہ اگر ہم سب اپنے بچوں کو دینی مدارس کی بجائے جدید اداروں سے تعلیم دلوا رہے ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ مدارس کے نظام میں یقیناً کوئی ایسی کمی ضرور ہے جسے جدید اصلاحات کے ذریعے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں تو پھر ہمیں بھی اپنے بچے انہی مدارس میں داخل کروا دینے چاہیں۔ اس بات کو تاہم انہیں نے دلیل کی بجائے پینترا قرار دیتے ہوئے کسی جواب کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ اور بات آئی گئی ہو گئی۔ ہمارے ہاں ویسے بھی جب کوئی بحث کسی منطقی نکتے تک پہنچنے لگتی ہے تو اسے ”آئی گئی“ ہی کر دیا جاتا ہے۔

بہرحال دیکھا جائے تو میرے اس انتہائی پڑھے لکھے دوست کا موقف اور رویہ ہمارے معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی سوچ کا عکاس ہے۔ لہذا اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس تجزیے سے پہلے دینی مدارس کے نظام اور اس میں اصلاحات کے مطالبے کا جائزہ لینا ہو گا۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک کے طول و عرض میں پینتیس سے چالیس ہزار مدارس ہیں جن میں تیس لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ جس وقت عام سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو تمام عصری علوم سے واقفیت دی جا رہی ہوتی ہے اس وقت مدارس میں اسی عمر کے بچوں کو صرف مذہب اور وہ بھی مذہب کے صرف ایک مسلک سے متعلق مضامین پڑھائے جا رہے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ تعلیمی سلسلے کی تکمیل تک ایسے ہی چلتا ہے۔

مدرسے میں زیر تعلیم طلبا کی سماجی زندگی بھی صرف مدرسے تک ہی محدود رہتی ہے اور وہ عام معاشرتی سرگرمیوں سے بھی بہت حد تک لاتعلق ہی رہتے ہیں۔

جدید اداروں سے فارغ التحصیل طلبا کے لیے جہاں مختلف مضامین اور سماجی رویوں میں مہارت کے باعث روزگار کی بہت سی آپشنز ہوتی ہیں وہیں مدرسے کے پڑھے نوجوان کے لیے یا تو امام مسجد کی نوکری ہوتی ہے یا مدرسے میں معلم لگنے کی گنجائش۔ ان دونوں پوزیشنز پر تنخواہ اور مراعات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔

سولہ ستمبر دو ہزار اٹھارہ کو ”روزنامہ امت“ میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق ”ملک بھر کے دینی مدارس سے ہر سال پندرہ ہزار طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ان میں سے بمشکل دو فی صد طلبہ سرکاری تعلیمی اداروں میں نوکری حاصل کر پاتے ہیں“ ۔ بے روزگاری یا شوق کے باعث نوجوان علما اسلامی علوم میں ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی کی راہ بھی لیتے ہیں لیکن اس سے ان کے لیے درس و تدریس کے علاوہ روزگار کی کوئی اور نئی راہ نہیں کھلتی۔

یوں باعزت روزگار سے محرومی اور عام سماجی زندگی سے کٹی ہوئی تربیت معاشرے میں ایک ایسے طبقے کو جنم دیتی ہے جو مستقل احساس محرومی کا شکار رہتا ہے۔ اور محرومی کا احساس رکھنے والے فرد کو اشتعال دلانا سب سے آسان ہوتا ہے۔

اب آتے ہیں اصلاحات کے مطالبے کی جانب۔

مدارس کے نصاب اور طرز تدریس میں تبدیلی کا نیک نیتی سے کیا گیا مطالبہ صرف یہ کہتا ہے کہ وہاں بھی عام سکولوں کی طرح تمام عصری مضامین پڑھائے جائیں اور ساتھ ہی بچے کی عمر اور استعداد کے مطابق دینی علوم کی تدریس بھی جاری رکھی جائے۔ یہ سلسلہ جدید نظام تعلیم کی طرح دسویں جماعت تک جاری رہے اور اس کی تکمیل کے بعد جو طلبا مذہبی علوم میں اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہیں وہ دینی مضامین اختیار کر لیں اور جو عصری علوم میں آگے بڑھنا چاہیں وہ ان کا انتخاب کر لیں۔

عصری مضامین اختیار کرنے والے طلبا اس وقت تک دین کی خاطر خواہ تعلیم پا چکے ہوں گے جبکہ دینی مضامین چننے والے نوجوان عصری علوم میں خاطرخواہ مہارت پا چکے ہوں گے۔ یہ ایک ایسی تجویز ہے جس میں دین اور دنیا دونوں کی کامیابی کا پہلو ملتا ہے۔ اصلاحات کے اور بھی بہت سے طریقے اور زاویے ہو سکتے ہیں لیکن اس مطالبے کو ابتدا سے ہی دین کے خلاف ایک گھناونی سازش قرار دے دیا جاتا ہے۔

کیا اغیار مدارس کے طلبہ کو قومی دھارے میں لانے کی سازش کریں گے؟ کیا دین کے دشمن دینی طبقے کی معاشی خودمختاری کے منصوبے بنائیں گے؟ آخر مدارس کے مدار المہام اتنی مثبت تبدیلیوں کے مخالف کیوں ہیں۔ کہیں اس الزام میں کوئی صداقت تو نہیں کہ دینی رہنما مدارس کے طلبا کی خودمختاری چاہتے ہی نہیں۔ کہ اگر ایسا ہو گیا تو اپنے سیاسی مطالبات منوانے کے لیے موجود سٹریٹ پاور ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گی؟

جہاں تک تعلق ہے دینی مدارس کے معاملے میں غیر مذہبی لوگوں کی رائے کا تو اگر مدارس سے وابستہ طبقہ ”غیر مذہبی“ لوگوں کے لیے مسلسل آزار اور معاشرے میں مسلسل انتشار کا باعث بنے گا تو پھر ذہن نشین کر لیں کہ مذہبی طبقے کے معاملات میں مداخلت بھی ہوگی اور مطالبے بھی۔

اور آخر میں اپنے دوست کے ہم خیال طبقے کے نام گزارش کہ جو بھی موقف اپنایا جائے اس کے اثرات کا پوری طرح ادراک اور اعتراف ضرور ہونا چاہیے وگرنہ شخصیت قول و فعل کے تضاد کا شکار نظر آتی ہے اور بعض شرپسند اس صورتحال کو منافقت کا نام بھی دیتے ہیں۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments